اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اس میں شک نہیں ہے، اور اس
حقیقت کا انکار کوئی بھی نہیں کرتا کہ عاشورا نے دین میں تحریف کرنے والوں کے چنگل
سے آزاد کرایا، اس میں زندگی کی نئی روح پھونکی، دین مبین سے قوم پرستی اور قبیلہ
پرستی کی دھول جھاڑ لی، شرک و بت پرستی کا گرد و غبار اسلام ناب [خالص اسلام] کے
چہرے سے ہٹا دیا، عاشورا نے حریت اور عزت نفس کا درس دیا اور موت کا خوف ٹوٹ پھوٹ
کر رہ گیا موت شکست کھاگئی۔ عاشورا نے اطاعت رب کا درس دیا اور قضائے رب پر رضا کا
درس دیا۔ عاشورا نے ہی حضرت انسان کو ظلم و جور کے زمانے میں جینے کا گر سکھایا۔
اور ہاں، عاشورا تاریخ کی عدالت ہے جہاں سقیفہ، فدک، نبوی وصایا سے روگردانی، اجر رسالت کے انکار، رئیس اسلام کی بیٹی کے قتل، جمل، صفین، نہروان، شہادتِ امیر اور مظلومیتِ مجتبیٰ کا کیس بھیی لڑا جاتا ہے، اور ـ اس وقت بھی اور آج بھی ـ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں پر پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے؛ اور آج کے یزیدوں کا تعارف بھی کرایا جاتا ہے۔
واقعۂ عاشورا نہ ہوتا، اہل بیت اور اصحاب کی قربانی نہ ہوتی تو اہل بیت کی نوائے مظلومیت کیسے سنی جاتی، اور کیسے سنائی جاتی اور سنانا اور حقانیت اہل بیت کیونکر سمجھا اور سمجھایا جاتا؟
مولا حسین نے اطاعت رب کی انتہا کر دی اور بوقت شہادت حضرت حق سے عرض کیا:
"بِسْمِ اللَّهِ وبِاللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللّه صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ؛ خدا کے نام سے، اور خدا کی ذات کے لئے، اور اللہ کی راہ میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ملت پر، [شہادت قبول کرتا ہوں]"۔
اور عرض کیا:
"إلٰهِى رِضَاً بِقَضَائِكَ تَسلِيمًا لأمْرِكَ لَا مَعبودَ سِوَاكَ يَا غِيَاثَ المُستَغِيثِينَ؛
اے میرے معبود، راضی ہوں تیری قضا اور مشیت پر، تیرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں، کوئی معبود نہیں ہے تیرے سوا، اے فریادیوں کے فریاد رس"۔
اور ہاں! عاشورا مظہر فرمان الہی کی اطاعت اور ولی اللہ کے قدموں میں جواں مردی، کا مظہر ہے۔ عباس بن علی (علیہما السلام) کی وفا کو بہت اجاگر کیا جاتا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی خصوصیت اپنے امام کی اطاعتِ محض ہے۔
اور حضرت زینب کا یہ تاریخی جملہ، جو اطاعت الٰہی کی چوٹیوں پر ہے کہ:
"اللّهِمَّ تَقَبَّل مِنَّا هَذَا قَلِيلَ القُربَانَ؛ خدایا یہ قلیل قربانی ہم سے قبول فرما"۔
سیدہ زینب کا یہ جملہ اگر ایک طرف سے اطاعت خدا، بارگاہ حق میں خشوع و خضوع، رضا بقضائے الہی اور شکرگزاری کے زمرے میں آتا ہے تو دوسری طرف سے یہ ای شہاب ثاقب ہے دشمن کے قلب ہر، اس لئے کہ اس کا مفہوم عزت و عظمت و وقار ہے، یعنی یہ کہ "اے دشمن خدا! شادمانی نہ کر، جشن نہ منا، یہ مت سوچ کہ ہم خوار ہو گئے ہیں، ہم تو سرخرو و سربلند ہیں، کیونکہ ہم نے اللہ کو راضی و خوشنود کر دیا اور اسی کی راہ میں قربانی دی ہے۔ کوفہ و شام میں سیدہ زینب اور امام سجاد (علیہما السلام) کے خطبوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110