سواد اعظم اہلسنت والجماعت برطانیہ و یورپ کے ترجمان نے یہودی ربی موردافے الیاہو کے فتویٰ پر کہا ہے کہ اس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی صحیح پہچان کرا دی ہے جب وہ کہتے ہیں کہ غزہ میں ہونے والی کارروائی یہودیوں کی تعلیمات کے عین مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دشمنوں کو اجتماعی سزا دی جائے۔ فلسطینی عورتوں اور بچوں کا قتل کرنا جائز ہے اگر دس لاکھ فلسطینی بھی قتل ہو جائیں تو پرواہ نہ کی جائے اور ایسا کرنے والے یہودی کو مجرم تصور نہ کیا جائے۔ ترجمان نے کہا کہ جس قوم نے انبیاء و رسل کو قتل کرنا جائز جانا، اہل علم کو قتل کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی ان سے آج یہ امید کرنا کہ وہ مسلمانوں سے اچھا سلوک کریں عبث ہے۔ اس فتوے نے دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعلیم دینے والے علما، دینی مدارس اور اسلام نہیں جو دشمن کے درخت، فصل، مذہبی لیڈر، بوڑھوں، ضعیفوں، بیماروں، بچوں، عورتوں اور عبادت گاہوں کو تحفظ دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک مسلم قیدی عورت ڈاکٹر عافیہ سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس سے انسانیت سرپیٹ کے رہ جاتی ہے۔چھ مرد ایک عورت کو دبوچتے ہیں پھر ننگا کر دیتے ہیں، یہ سلوک کرنے والے ربی کے پیروکار ہیں۔ ترجمان نے شخص آزادی کے نام پر متنازع فلم ”فتنہ“ کی نمائش کے حوالے سے کہا کہ شخصی آزادی کے ساتھ یہ قانون بھی ہے کہ ریاست میں رہنے والے دوسرے لوگوں کی دل آزاری نہ کی جائے۔ یہ فلم جب نمائش کیلئے پیش ہو گی تو اس سے برطانیہ میں موجود لاکھوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح اور ان کی دل آزاری ہو گی لہٰذا حکومت برطانیہ اس متنازع فلم پر پابندی لگائے۔ سواد اعظم اہلسنت و الجماعت لارڈ نذیر احمد کے بروقت اعلان حق اور جراتمندانہ موقف اپنانے پر جہاں ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے وہاں اپنے بھرپور تعاون کا اعلان کرتی ہے۔