ابنا کی رپورٹ کے مطابق روسی وزیر اعظم ولادیمیر پیوٹن نے امریکی نائب صدر ڈک چینی کے ان الزامات کا بالواسطہ طور پر جواب دے دیا ہے کہ ماسکو جمہوری اقدار کو پامال کررہا ہے؛ امن و صلح کو تباہ کررہا ہے اور ایران اور شام کو ہتھیار بیچ رہا ہے. پیوٹن نے روس پر امریکہ اور مغرب کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے کے سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کسی سے بھی روس کی معذرتخواہی کی کوئی وجہ نہیں ہے.
انہوں نے کہا: عالمی مارکیٹ میں بڑی مقدار میں ہتھیاروں کی موجودگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہتھیار بیچنا سب کے لئے ایک جائز اور قانونی امر ہے».
ابنا کی رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست کے بعض روزناموں نے اٹلی میں شیمون پیرز کی ڈک چینی کے ساتھ ملاقات کے بعد چینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ روس ایران اور شام کو ہتھیار بیچ رہا ہے اور روس اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ یہ ہتھیار حزب اللہ تک بھی پہنچ جائیں گے.
روسی وزارت خارجہ کے اہلکاروں نے ماسکو میں اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران اور شام کو ہتھیار بیچنا نئی بات نہیں ہے اور روس کے طرف سے ان دو ممالک کو ہتھیاروں کی فراہمی مسلمہ بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے عین مطابق ہے.
روسی ذرائع نے لکھا ہے کہ امریکہ – جس نے حال ہی میں قفقاز کے علاقے میں جنگ و خونریزی کے اسباب فراہم کئے، چنانچہ اس کو روس کی طرف سے کسی بھی ملک کو ہتھیار بیچنے پر تنقید کا کوئی حق نہیں پہنچتا.
برطانوی جریدے فائننشل ٹایمز نے لکھا ہے کہ امریکی فوجی اہلکار جنوبی اوسِتیا پر جارجیا کے حملے سے ایک ماہ قبل جارجیا کی سپیشل فورسز کو فوجی تربیت دیتے رہے ہیں اور امریکہ کا یہ عمل بالکل اسی طرح تھا جو اس نے 1995 میں یوکرین میں انجام دیا تھا.