اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

27 دسمبر 2019

2:38:35 PM
996727

تشدد کے سب سے زیادہ متاثرین مسلمان ہیں

رمضانی: زکزکی نے اصلاح اور خدمت کے سوا ایسے کونسے جرم کا ارتکاب کیا تھا کہ ان کے چھ بیٹوں کو قتل کیا گیا اور ان پر اس انداز سے ظ

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے نائیجیرین اسلامی تحریک کے راہنما کی تازہ ترین جسمانی صورت حال کے بارے میں کہا: ڈاکٹروں نے شیخ زکزکی کی جسمانی صورت حال کو نازک قرار دیا ہے۔ 2015ع‍ کے واقعے میں ان کے بدن میں پیوست ہونے والی گولیوں کی وجہ سے ان کی حالت مناسب نہیں ہے۔ وہ ایک آنکھ سے نابینا ہوچکے ہیں اور خون میں زہر آلودگی (یا دموی زہر) اور دوسرے جسمانی مسائل کی وجہ سے انہیں ہنگامی بنیادوں پر علاج کی ضرورت ہے۔

اہل بیت(ع) خبررساں ادارے ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق المیۂ زاریا کی چوتھی برسی کے موقع پر، نیز اتحاد بین المسلمین کے داعی، مصلح عالم دین، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی مجلس عمومی کے رکن اور شیعیان نائیجیریا کے قائد حجت الاسلام والمسلمین شیخ ابراہیم زکزکی کی نازک جسمانی حالت کے پیش نظر، اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل کی موجودگی میں ایک اخباری نشست کا انعقاد کیا گیا۔

آیت اللہ رضا رمضانی نے اس نشست میں شیخ زکزکی کے غیر قانونی حبس بےجا اور ان، ان کے اہل خانہ اور پیروکاروں کے خلاف انسانی حقوق کی مسلسل خلاف وزی پر مبنی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانی حقوق کے دعویدار عالمی اداروں کو اپنے فرائض منصبی پر عمل درآمد کرنے کی دعوت دی ہے۔

مذکورہ نشست ـ جو صبح 10:45 سے شروع ہوئی ـ کے آغاز پر   ابنا خبر ایجنسی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر جنرل حجت الاسلام والمسلمین حسینی عارف نے صحافیوں، نامہ نگاروں اور   ابلاغ عامہ کے ذرائع کو خوش آمدید پیش کرتے ہوئے کہا: دسمبر 2015ع‍ زاریا شہر میں حسینیۂ بقیۃ اللہ(عج)، دارالرحمہ اور شیخ ابراہیم زکزکی کی رہائشگاہ پر ہلہ بول دیا جس کے نتیجے میں بےشمار بےگناہ افراد شہید، زخمی اور لاپتہ ہوئے اور اسی وقت سے شیخ زکزکی اور ان کی زوجہ محترمہ غیرقانونی طور پر سرکاری عقوب خانوں میں حبس بےجا کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔

انھوں نے مزید کہا: اس سے ایک سال قبل 2014ع‍ میں بھی زاریا کے مقام پر یوم القدس کی ریلی پر سرکاری فوجی دستوں کے حملے میں شیعیان نائیجیریا کے خلاف ایک ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا گیا اور ان دو حملوں میں مجموعی طور شیخ زکزکی کے 6 بیٹوں نے جام شہادت نوش کیا۔

انھوں نے اسمبلی کے سیکریٹری جنرل کی اخباری نشست کے انعقاد کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا: آج اس المیئے کی چوتھی برسی کی مناسبت سے بھی اور شیخ زکزکی کو درپیش مزید دشوار صورت حال کے پیش نظر ـ جو اس سے پہلے غیر قانونی طور پر اپنے گھر میں نظربند تھے، اور اب انہیں جیل میں منتقل کیا گیا ہے ـ سیکریٹری جنرل حضرت آیت اللہ رمضانی کی موجودگی میں اخباری نشست کا انعقاد کیا گیا ہے، جو اپنے خطاب کے بعد نامہ نگاروں کے سوالات کا بھی جواب دیں گے۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی آیت اللہ رضا رمضانی، دبیرکل مجمع جهانی اهل بیت(ع)

زاریا نائیجیریا میں شیعیان اہل بیت(ع) کے قتل عام کے المیئے کی چوتھی برسی

اور حجت الاسلام و المسلمین شیخ ابراہیم زکزکی کی غیر قانونی حراست کے چوتھے برس کے موقع پر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے اپنے خطاب کے آغاز میں صحافیوں اور نامہ نگاروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے نئے دور میں اہل بیت(ع) اسمبلی کی حکمت عملیوں پر زور دیتے ہوئے کہا: اس دور میں، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی تزویری حکمت عملی چار بنیادی اصولوں "عقلیت، معنویت و روحانیت، عدالت اور مزاحمت (Resistance)" کی بنیاد پر خالص محمدی اسلام کے تعارف سے عبارت ہے۔

آیت اللہ رمضانی نے "عدالت اور مزاحمت" کے دو اصولوں پر زور دیتے ہوئے مزید کہا: بعض لوگ اسلام کو اس کے رحمانیت کے پہلو سے متعارف کرواتے ہیں۔ یقینا دین اسلام کی جڑیں رحمانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ رحمۃ للعالمین ہیں؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ(ص) استکباری دھاروں کے خلاف کسی قسم کا موقف ہی نہیں اپناتے تھے۔ استکباری دھاروں کے خلاف موقف اختیار کرنا، ایک عقلی اور معقول رجحان ہے جس کو دین اسلام نے لائق توجہ ٹہرایا ہے۔

انھوں نے اسلامی مذاہب کی قربت اور مختلف بین الاقوامی شعبوں کی شناخت کی رو سے دنیائے اسلام کے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا: مکتب اہل بیت(ع) کو دنیا بھر میں بہترین شکل میں، عالمی اور بین الاقوامی زبان میں، متعارف کروانا چاہئے؛ چنانچہ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کا نقطۂ نظر بھی ایک قومی اور قوم پرستانہ نقطۂ نظر نہیں ہے، بلکہ اس کا نقطۂ نظر عالمی اور بین الاقوامی ہے۔

آیت اللہ رمضانی ـ جو یورپی علماء ایسوسی ایشن اور شیعہ الٰہیات دانوں کے سربراہ بھی ہیں ـ نے کہا: دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا مسلمان بنانا ہمارا مقصد نہیں ہے اور ہم کچھ لوگوں کو اس حوالے سے حساس نہیں بنانا چاہتے؛ ہم تو کہتے ہیں کہ اسلام صحیح، دقیق، جامع اور عمیق انداز میں متعارف کروانا چاہئے؛ اور پھر سب کو اختیار حاصل ہے کہ جس چیز کو اختیار کرنا چاہیں، اختیار کریں۔

* اسلام کی دو ضرر رساں تشریحیں

آیت اللہ رمضانی کا کہنا تھا کہ آج کے زمانے میں اسلام کے تعارف کے سلسلے میں ہمیں دو قسم کی ضرور رساں اور نقصان دہ تشریحات کا سامنا ہے: لبرل اسلام، اور شدت پسند اسلام؛ ان دو تشریحات نے اسلام اور اسلامی معاشروں کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کردیا ہے؛ کیونکہ لبرل تشریح کا نتیجہ شریعت اور فردی اور معاشرتی احکام سے دوری کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور شدت پسند تشریح تشدد پسندی، زیادہ روی نیز غیر دینی اور غیر اسلامی رجحانات کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے نے کہا: مغربی نوجوانوں کے نام رہبر معظم امام خامنہ ای کے خطوط نے اسلام کی لبرل اور شدت پسندانہ تشریحات کو ناکارہ بنا دیا اور اب اگر مغربی نوجوان اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیں تو انہیں ـ صہیونیت سے وابستہ ذرائع ابلاغ کے پیدا کردہ ماحول سے دور ہوکر اسلام کا مطالعہ کریں اور اگر اسلام کے بارے میں کوئی اظہار خیال کرنا چاہیں تو قرآن و سنت سے رجوع کرکے، اظہار خیال کریں۔

* تشدد کے سب سے زیادہ متاثرین مسلمان ہیں

آیت اللہ رمضانی بعدازاں 2014ع‍ اور 2015ع‍ میں نائیجیریا میں مسلمانوں اور پیروان اہل بیت(ع) کے فتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مسلمانان عالم حالیہ عشروں میں استکباری طاقتوں کی پالیسیوں کا شکار ہوئے ہیں، یہاں تک کہ ان عشروں میں تشدد کی کاروائیوں کے سب سے زیادہ متاثرین دین اسلام کے پیروکار رہے ہیں۔

انھوں نے کہا: مسلمانوں نیز غیر مسلموں کے خلاف دہشت اور تشدد کی کاروائیاں، انسانی دنیا کے ہر گوشے میں قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔

* زکزکی امن پسند، پابندِ قانون اور مصلح

یورپی علماء ایسوسی ایشن اور شیعہ الٰہیات دانوں کے سربراہ نے کہا: شیخ زکزکی فردی اور معاشرتی لحاظ سے خاص قسم کے اوصاف و اور تزویری خصوصیات کے حامل ہیں، ان کا موقف ہمیشہ امن پسندانہ اور مفاہمت پر استوار رہا ہے۔ وہ اسلامی مذاہب کے درمیان قربت و وحدت کے خواہاں ہيں اور شدت سے مسلم مذاہب کے درمیان اختلاف و انتشار کے سخت خلاف ہیں۔

ان کا کہنا تھا: شیخ زکزکی "تعامل" اور "تعاون" کی خاطر "ڈائیلاگ اور گفتگو" پر یقین رکھتے ہیں اور "تقابل" "اور "نزاع" کی "مخالفت" ہرگز یقین نہیں رکھتے۔ وہ اپنی سماجی سرگرمیوں میں بھی قانون کی پابندی پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے ملک نائیجیریا کے قوانین کی مخالف کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

جناب رمضانی کا کہنا تھا کہ شیخ زکزکی کی ان خصوصیات کی رو سے، جس تحریک کی انھوں نے بنیادی رکھی ہے وہ اصلاح کے پہلو کا حامل ہے اور ان کی تحریک معاشرے کے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہے۔ جن جن اداروں کی سربراہی شیخ زکزکی نے سنبھالی ہے ان کی سرگرمیوں کا تعلق یتیموں اور مسکینوں کی امداد اور معاشرتی خرابیوں کے ازالے سے ہے اور وہ ان مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ ان ہی خصلتوں، سرگرمیوں اور خدمات کی وجہ سے کثیر تعداد میں مسلم اور غیر مسلم ان سے محبت کرتے ہیں اور انہیں عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

 

* انسانی حقوق کے مدعیوں کی غفلت

آیت اللہ رمضانی نے مزید کہا: چونکہ شیخ زکزکی کی اصولی پالیسی ہی قانون کی پابندی اور خدمات کی فراہمی پر مبنی ہے، جو المیہ ان کے ملک میں ان کے لئے پیش آیا ہے، وہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ واقعات ایسے حال میں رونما ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں کہ اقوام متحدہ تنظيم انسانی حقوق کو مقدس آسمانی کتب کے برابر گردانتی ہے لیکن شیخ زکزکی جیسی شخصیات کو اس تنظیم کی طرف سے نامہربانی اور بےرحمی کا سامنا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ وہ سوال ہے ہمیں جس کے جواب کی تلاش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شیخ زکزکی ہر لحاظ سے بہت دکھی اور آزردہ خاطر ہیں۔ ان کے چھ بیٹے، ایک ہمشیرہ اور سینکڑوں اعوان و انصار 2014ع‍ اور 2015ع‍ میں شہید ہوئے ہیں اور وہ اور ان کی زوجہ محترمہ کو گولیاں لگی ہیں اور اسی وقت سے پابند سلاسل ہیں۔

آیت اللہ رمضانی نے دنیا بھر کے آزاد اور حریت پسند ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے سوال اٹھایا: زکزکی نے اصلاح اور خدمت کے سوا ایسے کونسے جرم کا ارتکاب کیا تھا جس کی پاداش میں ان کے چھ بیٹوں کو قتل کیا گیا اور ان پر اس انداز سے ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں؟ انسانی حقوق کے دعویدار ممالک کہاں ہیں؟!

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے نائیجیریا کی اسلامی تحریک کے قائل کی جسمانی حالت کے بارے میں کہا: ڈاکٹروں نے شیخ زکزکی کی جسمانی حالت کو نازک قرار دیا ہے۔ سنہ 2015ع‍ کے حملے کے بعد، ان کے جسم میں پیوست ہونے والی گولیاں ـ جس اس حملے کے بعد سے اب تک ان کے بدن میں بدستور باقی ہیں ـ ان کی جسمانی حالت ناگفتہ بہ ہے؛ وہ ایک آنکھ سے نابینا ہوچکے ہيں اور خون کی زہرآلودگی (یا دموی زہر) اور دوسرے جسمانی مسائل کی وجہ سے انہیں ہنگامی بنیادوں پر علاج کی ضرورت ہے۔

* نائیجیریا کی حکومت اور حفاظتی طرز عمل سے پرہیز کی ضرورت

آیت اللہ رمضانی نے پرزور انداز سے مطالبہ کیا: نائیجیریا کی حکومت کو چاہئے کہ اس موضوع کے سلسلے میں حفاظتی نقطۂ نظر اور طرز عمل سے پرہیز کرے اور نہ صرف یہ لکہ اس مصلح راہنما کے جسمانی معالجات کے لئے ماحول فراہم کرے۔ عالمی تنظیمیں بھی اگر انسانی حقوق کے تحفظ کے درپے ہیں تو ان کے علاج معالجے کے مواقع فراہم کریں۔

انھوں نے کہا: یہ کم سے کم توقع ہے کہ شیخ زکزکی بین الاقوامی ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرکے اپنے معالجے کے طبیعی عمل کا آغاز کریں۔

* انسانوں کے حقوق کے دعویدار فورم، اس انسان کے حقوق کے تحفظ میں سر فہرست ہیں

انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: ہم اسلامی جمہوری ایران کے موقف کے طور پر نہیں بلکہ انسانی اصولوں اور اقدار کے پابند انسان کے طور پر، کہتے ہیں: شیخ ابراہیم زکزکی کو انسانی دفاع کے مسلّمہ اصولوں کے تحت تحفظ فراہم کرنا چاہئے اور انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار تنظیمیں اس شریف انسان کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری کے حوالے سے سرفہرست ہیں، چنانچہ انہيں اس سلسلے میں فوری کردار ادا کرنا چاہئے۔

 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

نامہ نگاروں کے سوالات اور سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے جوابات

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

آیت اللہ رمضانی نے اس اخباری نشست سے خطاب کے بعد بعض نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیا:

نمائندہ ایران پریس: زاریا کے المیے اور شیخ زکزکی اور ان کی اہلیہ کے پابند سلاسل ہونے کو چار سال کا عرصہ ہورہا ہے، لیکن ان کو بھی اور ان کے حامیوں کو بھی بدستور نائیجیرین حکومت کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے، اس سلسلے میں اسلامی ممالک کی ذمہ داری کیا ہے؟

آیت اللہ رمضانی: اسلامی ممالک کی ذمہ داری یہ ہے کہ کئی پہلؤوں سے ان کی آزادی کے لئے کوشش کریں۔ مثلا ایک طرف سے اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تنظیم نائیجیریا کی حکومت کو شیخ زکزکی کے انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرے؛ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں خود ہی نائیجیریا کی حکومت سے شیخ زکزکی کی سلامتی کے تحفظ کا مطالبہ کریں؛ تیسرا پہلو یہ ہے کہ غیر سرکاری تنظیمیں شیخ زکزکی کی صحت و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہیں اور ان کی مسلسل حمایت کریں یہاں تک کہ ان کے علاج معالجے کا امکان فراہم ہوجائے؛ تاہم کچھ بیرونی ممالک سے وابستہ لوگ بھی جنہوں نے نائیجيریا کی حکومت میں گھر کرلیا ہے، اور وہ شیخ زکزکی کے علاج معالجے کو حفاظتی مسئلہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں، جن سے ہوشیار رہنا پڑے گا۔

مہر خبر ایجنسی کا نامہ نگار: عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے شیخ زکزکی کے حالات بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات سر انجام دیئے ہیں؟

آیت اللہ رمضانی: عالمی اہل بیت(ع) ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کی مجلس عمومی (جنرل اسمبلی) میں جناب شیخ ابراہیم زکزکی سمیت عالم اسلام و تشیّع کی 700 نمایاں شخصیات شامل ہیں۔

شیخ زکزکی کے علاج اور رہائی کے سلسلے میں بھی عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں جیسے:

- اہل بیت(ع) اسمبلی کے ابلاغی ادارے نے شیخ زکزکی اور مختلف حملوں میں شہادت پانے والے پیروان اہل بیت(ع) کی مظلومیت کی عکاسی کے لئے اپنے ابلاغی ادارے سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے 25 اہم زبانوں میں اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اور اندرون ملک ـ نیز بین الاقوامی سطح پر ـ سمعی، بصری اور مطبوعہ ذرائع ابلاغ میں بھی شیخ اور مظلومین نائیجیریا کی مظلومیت کی عکاسی کی ہے؛

- مجلس عمومی کے اراکین کو اپنے ملکوں میں قانونی اور مدنی (Civil) احتجاج اور مظاہروں کے لئے ہمآہنگ کیا گیا؛

- دنیا کے مختلف خطوں میں شیعیان اہل بیت(ع) اور اہل بیت(ع) اسمبلی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے درخواست عمل میں لائی گئی کہ وہ اس سلسلے میں ہر ممکنہ انسان دوستانہ اقدام بجا لائیں؛

- یوم القدس 2014ع‍ کے موقع پر شیخ زکزکی کے ساتھیوں پر نائیجیرین سرکاری حفاظتی اداروں کے حملے کے بعد، جناب شیخ اور شہداء کے اہل خانہ کی دلجوئی کی غرض سے سابق سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کا دورہ نائیجیریا؛

- نائیجیریا صدر، علماء اور مختلف شخصیات سے خط و کتابت کرکے شیخ زکزکی اور دوسرے اذیت رسیدہ اور دکھی افراد کے دکھوں کے خاتمے کی کوشش کی گئی؛

- شہداء کی منزلت کی تکریم و تعظیم اور اذیت رسیدہ افراد کی صورت حال کی بہتری کا مطالبہ کرنے کے لئے، اندرون و بیرون ملک مختلف قسم کی مجالس اور محافل کا انعقاد کیا گیا؛

- بین الاقوامی تنظیموں، یورپی اتحاد، انسانی حقوق کے فورموں وغیرہ کو خطوط لکھے گئے۔

یہ اس سلسلے میں عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے بعض اقدامات تھے جو عمل میں لائے گئے ہیں؛ اور ہمیں ان اقدامات سے اچھے نتائج برآمد ہونے کی امید ہے۔

قومی ٹی وی اور ریڈيو سے وابستہ خبر رساں ادارے کا نمائندہ: ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ شیخ زکزکی کو آزار و اذیت پہنچانے کے لئے، نائیجیرین حکومت نے ان کے معالج ڈاکٹر پر بھی تشدد کیا ہے اور انہیں زد و کوب کیا ہے۔ شیخ کی تازہ ترین جسمانی حالت کیسی ہے اور کیا وہ بقید حیات بھی ہیں؟

آیت اللہ رمضانی: شیخ زکزکی معالج ڈاکٹر کے بارے میں تو میں کچھ نہيں جانتا لیکن شیخ زکزکی کے بارے میں ـ کل رات کو ملنے والی معلومات کے مطابق ـ الحمد للہ وہ بقید حیات ہیں لیکن ڈاکٹروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ان کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں فوری طبی خدمات اور علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ابھی تک اجازت نہیں دی گئی ہے کہ ماہر ڈاکٹر ان کے مداوا اور علاج کا عمل آغاز کریں اور یہ بہت افسوسناک صورت حال ہے۔

ایرنا کا نامہ نگار: کیا زکزکی کی طرح دوسری شخصیات بھی ہیں جو عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے اراکین ہوں اور استکباری حکومتوں کی طرف سے تشدد اور آزار و اذیت کا نشانہ بنے ہوں؟

آیت اللہ رمضانی: جی ہاں! بحرین کے عالم دین آیت اللہ شیخ عیسی قاسم، کویت کو معروف عالم دین حجت الاسلام والمسلمین شیخ حسین معتوق اور افریقی ملک کے سابق صدر ((کوموروس الاتحاد القمري یا جزر القمر= Comoros) کے سابق صدر جناب سید احمد سامبی بھی اہل بیت(ع) اسمبلی کے اراکین ہیں اور اسمبلی سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں استکباری محاذ کی طرف سے دباؤ کا سامنا رہا ہے یا اب بھی دباؤ کا سامنا کررہے ہیں۔ اہل بیت(ع) اسمبلی نے ان افراد کے دفاع و تحفظ کے لئے بھی اقدامات اٹھائے ہیں۔

حوزہ خبر رساں ادارے کا نامہ نگار: کیا شیخ زکزکی کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور وزارت خارجہ نے کوئی مؤثر اقدام کیا ہے؟

آیت اللہ رمضانی: یہ سوال آپ کو وزارت امور خارجہ کے دوستوں سے پوچھنا چاہئے؛ تاہم جہاں تک مجھے معلوم ہو وہ یہ ہے کہ حالیہ چند مہینوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ نے کچھ اقدامات کئے ہیں اور نائیجیریا کی حکومت سے کچھ رابطے کئے ہیں اور سرکاری دوروں کے لئے تمہیدات بھی فراہم کی ہیں تاکہ اس سلسلے میں مؤثر اقدامات عمل میں لائے جا سکیں اور شیخ زکزکی کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

فارس خبررساں ادارے کا نامہ نگار: کیا عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے ـ خاص کر ان ممالک میں جہاں تکفیری دھارے طاقتور ہیں ـ دنیا کی دوسری اسلامی شخصیات کے تحفظ کے لئے انسدادی اور احتیاطی اقدامات نظر میں رکھے ہیں؟

آیت اللہ رمضانی: تکفیری دھاریں تسلط پسند استکباری نظام کے خفیہ انتظام کے تحت معرض وجود میں آتے ہیں جس کے مقابلے میں ہمیں بیداری اور ہوشیاری کے فروغ کو مد نظر رکھنا چاہئے؛ اسلام کو ویسا ہی متعارف کرائیں جیسا کہ وہ ہے اور عالم اسلام کے اتحاد اور تقریب و یکجہتی کو خاص توجہ دینا چاہئے۔ یہ کام عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی سمیت اندرونی اور بین الاقوامی اداروں کے توسط سے اندرون ملک نیز بین الاقوامی سطح پر انجام پارہے ہیں۔ اگر اسلامی معاشروں کے درمیان سیاسی، ثقافتی اور سماجی صلاحیتوں کو یکجا کیا جائے، بےشک ہر قسم کے اثر و نفوذ کا راستہ روک جاسکے گا۔ لیکن استکباری نظام کے خفیہ انتظام اس مقصد کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ بہت سے ممالک کے ساتھ ہمارا سیاسی اور سفارتی رابطہ نہیں ہے تاہم بیداری اور ہوشیاری کے فروغ کے لئے اچھے خاصے اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں، امید ہے کہ مستقبل میں مزید پیرویوں کا اہتمام کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی اس قسم کے واقعات کی پیش گوئی نہیں کرسکتی؛ لیکن ہم پوری دنیا میں پیروان اہل بیت(ع) کو اس حوالے سے ضروری سفارشات کرتے رہتے ہیں۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

زاریا کا المیہ در اصل تھا کیا؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

قابل ذکر ہے کہ اتوار 13 دسمبر 2015ع‍ (بمطابق یکم ربیع الاول 1437ھ) کو نائیجیرین فوجی دستوں نے پہلے سے تیار کردہ منصوبے کے تحت شہر زاریا میں واقع شیعیان اہل بیت(ع) کے تین اجتماعی مقامات "حسینیۂ بقیۃ اللہ(عج)"، "دار الرحمہ" اور شیخ ابراہیم زکزکی کی رہائشگاہ پر ہلہ بول دیا۔

ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو حسینیہ بقیۃ اللہ(عج) میں پرچم عزاء کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے نام گرامی سے مزین سبز پرچم میں تبدیلی کی تقریب ہوئی۔ سیاہ پرچم کی سبز پرچم میں تبدیلی کی یہ رسم ایک نئی رسم نہ تھی بلکہ ہر سال یکم ربیع الاول کو کے منائی جاتی تھی۔

اس حملے میں 1000 نہتے شیعیان نائیجیریا کا قتل عام کیا گیا اور ان میں سے کئی لوگ لاپتہ ہوں۔ شہداء میں شیخ زکزکی کے تین بیٹے بھی شامل تھے: علی حیدر زکزکی، حمد زکزکی اور حمید زکزکی۔

اس حملے میں شیخ زکزکی کو چار گولیاں لگیں اور ان کی زوجہ محترمہ بھی زخمی ہوئیں اور پھر ان دونوں کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔

بوکو حرام کے مسلح تکیروں کا راستہ روکنے سے عاجز و بےبس نائیجیرین فوجی دستوں نے اس روز زاریا میں حسینیہ اور شیخ زکزکی کی رہائشگاہ کے علاوہ، سوکوتو شہر میں شیعیان نائیجیریا کے مرکزی دفاتر پر بھی حملہ کیا۔ فوج نے اس عظیم سانحے اور انسانیت کے خلاف کے اس جرم کی وسعتوں کو چھپانے کے لئے بہت سے مظلوم شہیدوں کو نذر آتش کیا یا خفیہ مقامات پر اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا۔

نائیجیریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ نیز حسینیہ بقیۃ اللہ کے خلاف عسکری کاروائی کو کوریج دینے والے مغربی ذرائع ابلاغ نے اس وحشیانہ قتل عام کا جواز فراہم کرنے کے لئے ایک مضحکہ خیز دعوی کیا کہ نائیجیریا کی افواج کے چیف آف اسٹاف کا قافلہ زاریا شہر میں شیعہ حسینیہ کے قریب سے گذر رہا تھا اور شیخ زکزکی حاضرین سے خطاب کررہے تھے کہ اس دوران شیخ زکزکی کے عقیدتمندوں نے چیف آف اسٹاف کا راستہ روک لیا جس کی بنا پر فوجیوں نے ان پر فائرنگ کھول دی!

یہ احمقانہ جواز ایسے حال میں پیش کیا جارہا تھا کہ مقامی عینی شاہدین کے مطابق، فوجی دستوں نے پہلے سے تیار کردہ منصوبے کے تحت شیخ زکزکی کے گھر اور حسینیۂ بقیۃ اللہ(عج) پر حملہ کیا تھا؛ اور دوسری طرف سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ نائیجیریا کی فوج اس ملک کے عوام کا چین و سکون غارت کرنے والی تنظیم "بوکو حرام" کی دہشت گرد مسلح تنظیم کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے پرامن، غیر مسلح اور نہتے شیعیان اہل بیت(ع) پر کیوں حملہ کرتی ہے؟

اس جرم کا نہایت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انسانی حقوق کی دعویدار کسی بھی تنظیم نے اس المیئے پر کوئی قابل قدر احتجاج نہیں کیا اور اپنی مجرمانہ خاموشی سے اس انسانیت دشمن جرم کی تایید کرکے اس جرم میں شراکت کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا۔

نائجیریا میں زاریا کے شیعہ قتل عام کی تحقیق کے لئے قائم کردہ کمیٹی نے جون 2016ع‍ میں اپنی آخری رپورٹ میں قرار دیا کہ نائیجیرین فوج کے اعلی افسر "ادینی اویبادہ" نے حملہ شروع کرنے کا حکم دیا چنانچہ اس پر مقدمہ چلنا چاہئے۔

نائیجیریا کی وفاقی عدالت نے زاریا المیے کے بعد 2 جنوری 2016ع‍ کو شیخ زکزکی اور ان کی اہلیہ کی قید کو حبس بےجا اور غیر قانونی قرار دیا اور 16 جنوری کو ان کی رہائی اور معاوضے کی ادائیگی کا حکم جاری کیا؛ لیکن اس حکم پر تین سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود عملدرآمد نہيں ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110