اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : Astan Quds
اتوار

11 اگست 2019

5:44:23 AM
968134

آیت اللہ جوادی آملی: علم و دانش کے اسلامی ہونے کی شرط یہ ہے کہ یونیورسٹیاں بھی اسلامی ہوں

آیت اللہ جوادی آملی؛شیعوں کے مرجع تقلید نے فرمایا کہ یونیورسٹیوں کے اسلامی ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں نماز خانہ ہو اور مذہبی پروگرام منعقد ہوتے ہوں بلکہ علم اگر الہی ، دینی، قرآنی اور علوی ہو جائے تب یونیورسٹیاں اسلامی کہلائیں گی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ آیت العظمی عبداللہ جوادی آملی نے حرم مطہررضوی کے قدس ہال میں علماء اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران یونیورسٹیوں کو اسلامی بنانے اور علوم انسانی میں تغیر  وتبدل  کی ضرورت کے موضوع پر گفتگو کی۔

انہوں نے علم و دانش کو خالق و مخلوق کے درمیان صراط مستقیم قرار دیا اور کہا: علم کو اسلامی ہونا چاہیے اور وہ علم جو ہمار ے اور خدا کے درمیان رابطہ برقرار کرتا ہے، اسلام ہے ۔

آیت اللہ جوادی آملی نے فرمایا کہ یونیورسٹیوں میں علم اگر اسلامی ہو جائے تو معیشتی فساد، جڑ سے اکھڑ سکتا ہے ۔ انھوں نے کہا: جب تک یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والےدرس اسلامی نہ ہوجائیں تب تک مسائل کے حل ہونے کی امید نہیں رکھی جاسکتی ۔

انہوں نے کہا کہ وہی یونیورسٹی اسلامی کہلائی جاسکتی ہے،  جس میں علوم اسلامی طرز پر پڑھائے جاتے ہوں۔ انھوں نے اس مرحلے پر اسلامی علوم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا: تحصیل علم کے بارے میں اصرار کیا جاتا ہے کہ علم ضرور حاصل کرو اس لیے کہ علم تم کو اللہ تک پہنچانے کا راستہ ہے ، یہاں علم سے مراد وہ علم ہے جو اسلام کی بنیاد پر استوار ہو۔

آیت اللہ جوادی آملی نے موضوع کا تحلیل و تجزیہ اور مسئلہ کا حل ، علم و دانش کی بنیاد پر قراردیا اور کہا: اسلام  تمام موضوعات کا احاطہ کیۓ ہوئے ہے اور اس کے خاص اہداف و مقاصد ہیں، تو اگر موضوع یا مضمون دینی نہج پر ہوا تو وہ علم بھی دینی ہو حاتا ہے  اور محقق، استاد اور دانشگاہ  یا یونیورسٹی کو اسلامی بنا دیتا ہے۔

شیعہ مرجع تقلید نے اصرار کیا کہ اگر کسی علم کے مضامین اور مطالب میں دین شامل ہوجائے تو پھر یقینا اس کا حصول، مقصد اور اس علم کی پوری کی پوری فضا دینی ہوجائے گی۔

عالم ہونا ضروری ہے لیکن کافی نہیں ہے
آیت اللہ جوادی آملی نے مزید کہا: تحصیل علم میں، عالم ہونا لازم ہے لیکن کافی نہیں ہے اور قرآن نے صرف علم و عقل کی دعوت نہیں دی ہے کہ بس عالم و عاقل ہوجائیں۔
انہوں نے ان قرآنی آیات کی مثال دی اور کہا: خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : تمھارا نفس عالمانہ ہو اورتم  علم  کی بنیادوں پر استوار رہو، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو صرف دوسروں کی باتوں کو نقل کرتا ہے وہ نقال ہے عالم نہیں ہے ۔

عظمت الہی کو درک کرنے میں بابصیرت رہیں
آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی تقریرکے ایک اور حصے میں یونیورسٹیوں میں تدریس کئے جانے والے مضامین کی اقسام کا ذکر کیا کہ جن میں سے بعض علوم کا موضوع فعل خدا ہے اور کچھ  فعل، انسان سے تعلق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا: خداوندعالم جس وقت مافی السماء و مافی الارض و ما بینهما کے متعلق گفتگو کرتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ سب عاقل، حامد، مطیع اور عالم ہیں۔ یعنی تم جس زمین اور زمانے میں زندگی بسر کررہے ہو وہ تمہاری تمام حرکات و سکنات سے آگاہ ہیں ، گواہی دیتے ہیں، اور گواہی دینے کا مطلب ان کا محل شہادت میں حاضر ہونا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین و زمان شاہد و گواہ ہیں تاکہ ان کی گواہی قابل قبول قرار پائے۔

انہوں نے آیت کے معنی و مفہوم کو خداوندعالم کی نشانیوں کی شناخت کروانے کے مفہوم میں بے حد وسیع قرار دیا اور کہا: زمین و آسمان کی شناخت کےعلم کی روح  و جوہر، فعل خدا ہے اور یہ فعل ، خداکی نشانی ہے اور اس علم کے جوہر میں خداکے علاوہ کوئی اور چیز شامل نہیں ہے۔

آیت اللہ نے مزید کہا: جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے وہ خداوندعالم کی جانب راہنمائی کے علاوہ کسی اور سمت اشارہ نہیں ہے۔ جب کسی علم کی تدریس کی جائے اور یہ عظمت  اس علم میں نظر نہ آئے تو وہ گویا عظمت و قدرت الہی کے روبرو اندھا ہوگیا ہے ۔

انہوں نے کہا: جب کسی یونیورسٹی میں زمین کے موضوع پر گفتگو ہورہی ہو  اور زمین کے خالق ہی کو پہچان نہ پائے تو وہ وہ دانشگاہ یا یونیورسٹی اندھی  کہلائے گی۔ دانشگاہ صرف اس وقت اسلامی کہلائے گی جب وہاں کے علم و دانش اسلامی ہوں اور یہ بات یونیورسٹیوں کے معلمین کے ذہنوں مین بالکل واضح اور روشن رہیں کہ ہر علم، علم  دین ہے۔




/129