اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

12 اکتوبر 2018

6:33:44 AM
912460

حسین علیہ السلام کی محبت، شوق زیارت کے بغیر ناممکن

خاندان رسالت کی زیارت اور ان کی لئے عزاداری تعظیم شعائر کے زمرے میں آتے ہے۔ ہر معصوم کے لئے الگ زیارتنامہ معصوم ہی کی طرف سے وارد ہوا ہے جو اس زیارت کی ‏عظمت کی دلیل ہے۔ لیکن احادیث میں سب سے زیادہ تاکید امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔
تمہید:
خداوند متعال نے فرمایا:
"وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ٭ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى؛
اور وہ نفسانی خواہشوں سے بات نہیں کرتا ٭ نہیں ہوتی وہ مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے"۔ (1)
"عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِيْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ البْاقِرِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: إِذَا حَدَّثتَنِيْ بِحَدِيْثٍ فَأَسْنِدْهُ لِيْ، فَقَالَ: حَدَّثَنِيْ أبِيْ عَنْ جَدِّيْ عَنْ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ عَنْ جِبْرَئيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَنِ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَكُلُّ مَا اُحَدِّثُكَ بِهذَا الإِسْنَادِ؛
جابر حعفی کہتے ہیں: میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا: جب آپ میرے لئے حدیث بیان کرتے ہیں تو اس کی سند بھی بیان کیجئے، تو آپ نے فرمایا: میرے لئے اپنے والد نے، میرے والے کے لئے میرے جد امجد نے بیان کیا اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سے، اور آنحضرت(ص) نے جبرائیل علیہ السلام سے اور جبرائیل(ع) نے اللہ عزّ و جلّ نقل کیا۔ (اے جابر!) جو کچھ بھی میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں، اس سند سے بیان کرتا ہوں"۔ (2)
"حَدِيثِي حَدِيثُ أَبِي وَ حَدِيثُ أَبِي حَدِيثُ جَدِّي وَ حَدِيثُ جَدِّي حَدِيثُ اَلْحُسَيْنِ وَحَدِيثُ اَلْحُسَيْنِ حَدِيثُ اَلْحَسَنِ وَحَدِيثُ اَلْحَسَنِ حَدِيثُ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ عَليهِ السَّلامُ وَحَدِيثُ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ حَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ وَحَدِيثُ رَسُولِ اَللَّهِ قَوْلُ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ؛
میری حدیث میرے والد کی حدیث، میرے والد کی حدیث میرے جد امجد [امام زین العابدین علیہ السلام]، میرے جدّ کی حدیث حسین علیہ السلام کی حدیث، حسین کی حدیث حسن علیہ السلام کی حدیث، حسن کی حدیث امیرالمؤمنین علیہ السلام کی حدیث، امیرالمؤمنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ‏آلہ کی حدیث خدائے عزّ و جلّ کا کلام ہے"۔ (3)
امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی احادیث شریفہ سورہ نجم کی آیات کریمہ کی تشریح کے زمرے میں آتی ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اور ائمہ معصومین علیہم السلام کا کلام در حقیقت اللہ کا کلام ہے اور پھر قرآن کریم بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ جو بھی پیغمبر(ص) اور ائمہ(ع) فرماتے ہیں یا انجام دیتے ہیں وہ ہمارے لئے حجت ہے۔ بالفاظ دیگر کلام معصوم کا ہر لفظ حجب ہے اور وہ جو فرماتے ہیں اس میں مبالغہ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ہاں البتہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ حدیث شناسی کے لئے متعینہ علوم سے بہرہ ور ہوکر ہی ان احادیث کی صحت و سقم کی تشخیص سے عہدہ بر آ ہونا ممکن ہوجاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:
"إنَّ لِقَتْلِ الحُسَيْنِ حَرَارَةً فِيْ‌ قُلُوْبِ المُؤْمِنِيْنَ لَاتَبْرُدُ اَبَداً؛
حسین علیہ السلام کے قتل کے لئے مؤمنوں کے دل میں ایسی گرمی اور حرارت ہے جو کبھی بھی ٹھنڈا نہيں پڑتا"۔ (4)
احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی محبت ان کی زیارت کے شوق کے ہمراہ، بیان ہوئی ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ انسان امام حسین علیہ السلام کا حبدار ہو لیکن ان کی زیارت کا مشتاق نہ ہو۔
خاندان رسالت کی زیارت اور ان کی لئے عزاداری تعظیم شعائر کے زمرے میں آتے ہے۔ ہر معصوم کے لئے الگ زیارتنامہ معصوم ہی کی طرف سے وارد ہوا ہے جو اس زیارت کی ‏عظمت کی دلیل ہے۔ لیکن احادیث میں سب سے زیادہ تاکید امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ امام معصوم اپنے الفاظ اور کلمات میں مبالغہ آمیزی نہیں کرسکتا اور ان کا ہر لفظ حجت ہے۔ پانچویں امام، امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
"أما لو کان قریبا منّا لاتّخذناه هجرة؛
اگر ان [امام حسین علیہ السلام] کی قبر ہمارے قریب ہوتی تو ہم اس کی طرف ہجرت کرتے"۔ (5)
زیارت امام حسین(ع) کی طرف عدم توجہ اہل بیت(ع) کے زیر عتاب آنے کا سبب
وہ لوگ اہل بیت علیہم السلام کے ہاں زیر عتاب ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو کم توجہ دیتے ہیں۔
علی بن میمون صائغ، کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"يَا عَلِيُّ بَلَغَنِي أَنَّ قَوْماً مِنْ شِيعَتِنَا يَمُرُّ بِأَحَدِهِمُ اَلسَّنَةُ وَ اَلسَّنَتَانِ لاَ يَزُورُونَ اَلْحُسَيْنَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أَعْرِفُ أُنَاساً كَثِيرَةً بِهَذِهِ اَلصِّفَةِ، قَالَ أَمَا وَاَللَّهِ لِحَظِّهِمْ أَخْطَئُوا وَعَنْ ثَوَابِ اَللَّهِ زَاغُوا وَعَنْ جِوَارِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ تَبَاعَدُوا؛
اے علی! مجھے خبر ملی ہے کہ ہمارے شیعوں کی ایک جماعت پر سال دو سال کا عرصہ گذر جاتا ہے اور وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت نہیں کرتے!
میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں! میں اس صفت سے متصف بہت سوں کو جانتا ہوں۔
فرمایا: جان لو، اللہ کی قسم! یہ لوگ بے نصیب ہوئے، (خیر و سعادت تک نہیں پہنچ سکے) اور اللہ کے اجر و ثواب سے محروم ہوئے، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کے قُرب سے دور ہوچکے ہیں۔ (6)
امام علیہ السلام امیر اور غریب کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہوئے اور دوسری حدیث میں فرمایا:
"حَقٌّ عَلَى اَلْغَنِيِّ أَنْ يَأْتِيَ قَبْرَ اَلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فِي اَلسَّنَةِ مَرَّتَيْنِ وَحَقٌّ عَلَى اَلْفَقِيرِ أَنْ يَأْتِيَهُ فِي اَلسَّنَةِ مَرَّةً؛
صاحب حیثیت شخص پر لازم ہے کہ سال میں دو مرتبہ قبر حسین علیہ السلام کی زیارت پر جائے اور غریب شخص پر لازم ہے کہ سال میں ایک مرتبہ جائے۔ (7)
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی امام حسین(ع) کا حبدار ہو لیکن ان کی زیارت کا مشتاق نہ ہو؟
بندوں کے بارے میں خدا کی خیرخواہی امام حسین علیہ السلام کی محبت میں مضمر ہے؛ یا یوں کہئے کہ آپ اور آپ کی زیارت کا اشتیاق بندے کی نسبت خدا کی خیرخواہی کا معیار ہے اور جہاں بھی امام حسین علیہ السلام کی محبت کا ذکر ہے، وہاں آپ کی زیارت کا تذکرہ بھی ہے۔ تو یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی امام حسین علیہ السلام کا محب ہو لیکن ان کی زیارت کا مشتاق نہ ہو۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"مَنْ أَرَادَ اَللَّهُ بِهِ اَلْخَيْرَ قَذَفَ فِي قَلْبِهِ حُبَّ اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ وَحُبَّ زِيَارَتِهِ وَمَنْ أَرَادَ اَللَّهُ بِهِ اَلسُّوءَ قَذَفَ فِي قَلْبِهِ بُغْضَ اَلْحُسَيْنِ وَ بُغْضَ زِيَارَتِهِ؛
خداوند متعال جس شخص کے لئے خیر و خوبی چاہے، اس کو دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت اور آپ کی زیارت کا اشتیاق ڈال دیتا ہے اور جس کے لئے برائی چاہے اس کے دل میں امام حسین علیہ السلام کا بغض اور آپ کی زيارت سے دشمنی ڈال دیتا ہے"۔ (8)
اہل بیت کی خوشنودی زیارت امام حسین(ع) میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہل بیت علیہم السلام سے ایسی حدیثیں بکثرت نقل ہوئی ہیں جن کی بنیاد پر "اللہ کی خوشنودی اہل بیت(ع) کی خوشنودی میں ہے؛ اور جن امور میں اہل بیت علیہم السلام کی خوشنودی ہے ان میں سے ایک "زیارت امام حسین علیہ السلام" ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"وَلَو يَعلَمُ الزَّائِرُ لِلحُسَينِ (عَلَيهِ السَّلَامُ) مَا يَدخُلُ عَلى رَسُولِ اللهِ (صَلّى اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ) مِنَ الفَرَحِ وَإِلَى أَمِيرِ المُؤمِنِينَ وَإِلَى فَاطِمَةَ وَإِلَى الأَئِمَّةِ (عَلَيهِمُ السَّلامُ) وَالشُّهَداءِ مِنَّا أهلِ البَيتِ وَمَا يَنقَلِبُ بِهِ مِن دُعَائِهِم لَهُ وَمَا لَهُ فِي ذلِكَ مِنَ الثَّوابِ فِي العَاجِلِ وَالآجِلِ وَالمَذخُورِ لَهُ عِندَ الله لَأَحَبَّ أن يَكُونَ مَا ثَمَّ مَدَارَةُ مَا بَقِيَ وَأن زَائِرَهُ لَيَخرُجُ مِن رَحلِهِ فَمَا يَقَعُ قَدَمُهُ عَلَى شَيءٍ إلّا دَعَا لَهُ فَإِذَا وَقَعَتِ الشَّمسُ عَلَيهِ أَكَلَت ذُنُوبَهُ كَمَا تَأكُلُ النَّارُ الحَطَبَ وَمَا تُبقِي الشَّمسُ عَلَيهِ مِن ذُنُوبِهِ شَيئاً فَيَنصَرِفُ وَمَا عَلَيهِ ذَنبٌ وَقَد رُفِعَ لَهُ مِنَ الدَّرَجَاتُ مَا لَا يَنَالُهُ المُتَشَحِّطُ فِي دَمِهِ  فِي سَبِيلِ اللهِ وَيُوَكَّلُ بِهِ مَلَكٌ يَقُومُ مَقَامَهُ وَيَستَغفِرُ لَهُ حَتَّى يَرجِعَ إلَى الزِّيَارَةِ أَو يَمضِيِ ثَلاثُ سِنِينَ أَو يَمُوتَ؛
اگر امام حسین علیہ السلام کا زائر جانتا ہے کہ اس زیارت کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور امیرالمؤمنین علیہ السلام اور سید فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ہم اہل بیت کے شہداء کو کس قدر خوش اور مسرت ملتی ہے اور اگر جانتا کہ اس زیارت کے توسط سے ـ جب وہ واپس آتا ہے ـ ان کی طرف کی کس قدر دعائیں اس کے حصے میں آتی ہیں، اور کس قدر اجر و ثواب دنیا اور آخرت میں اس کو ملتا ہے اور کس قدر اجر و ثواب اللہ کے ہاں اس کے لئے ذخیرہ ہوجاتا ہے، تو یقینا وہ پسند کرتا کہ وہاں (کربلا میں) گھر بنا کر اپنی باقیماندہ زندگی وہیں بسر کرنا پسند کرتا؛ اور جب امام حسین علیہ السلام کا زائر اس سفر سے پلٹ آتا ہے، تو جس چیز پر اپنا قدم رکھتا ہے، وہ اس کے لئے دعا کرتی ہے اور جب سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کے گناہوں کو ختم کرکے رکھ دیتا ہے جس طرح کہ آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے اور سورج اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی باقی نہيں چھوڑتا؛ چنانچہ وہ واپس آتا ہے جبکہ اس کا کوئی گناہ باقی نہیں ہے اور اس کے لئے اتنے بلند درجات ہیں جن تک اللہ کی راہ میں قتل ہونے والا شہید بھی نہیں پہنچ پاتا؛ اور اس کے لئے ایک فرشتہ مُوَکَّل کیا جاتا ہے جو اس کے لئے طلب مغفرت کرتا ہے؛ حتی کہ دوبارہ زیارت کے لئے پلٹ آتا ہے، یا یہ کہ تین سال کا عرصہ گذر جائے یا اس وقت تک، جب تک کہ وہ مر جائے"۔ (9)

زیارت کے لئے نہ جانے والوں کی حسرت زدگی
امام جعفر صادق علیہ السلام مؤمنین کو قیامت کے دن کی حسرت زدگی سے خبردار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"مَا مِنْ أَحَدٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلَّا وَهُوَ يَتَمَنَّى أَنَّهُ زَارَ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ عَلَيهِمَا السَّلامُ لَمَّا یَرَى لِمَا يُصْنَعُ بِزُوَّارِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍ مِنْ كَرَامَتِهِمْ عَلَى اللَّهِ؛
[روز قیامت] کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو یہ تمنا نہ کرے کہ کاش میں نے امام حسین بن علی علیہما السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہوتا، جس وقت وہ دیکھتا ہے خداوند متعال امام حسین علیہ السلام کے زائرین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہے اور کس قدر کرامت اور عظمت ہے ان کی درگاہ ربوبی میں"۔ (10)
"عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ قَالَ: لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي زِيَارَةِ الحُسُيْنِ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنَ الفَضلِ لَمَاتُوا شَوْقاً وَتَقَطَّعَتْ أَنفُسُهُمْ عَليْهِ حَسَرَاتٍ. قُلْتُ وَمَا فِیْهِ، قَالَ مَنْ زَارَهُ شَوْقاً إلَیْهِ كَتَبَ اللهُ لَهُ ألْفَ حَجّةٍ مُتَقَبَّلَةٍ وَألْفُ عُمْرَةٍ مَبْرُوْرَةٍ وَأجْرَ ألْفَ شَهِیْدٍ مِن شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأجْرَ ألْفِ صَائِمٍ وَثَوَابَ ألْفَ صَدَقَةٍ مَقْبُوْلَةٍ وَثَوَابَ ألْفَ نَسَمَةٍ اُرِیْدَ بِهَا وَجْهُ اللهِ؛
محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا، کہ قبر حسین علیہ السلام کی زیارت کی کیا فضیلت ہے تو وہ شوق کے مارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ان کی سانسیں حسرت کی بنا پر رک جاتیں۔
میں نے عرض کیا: زیارت امام حسین علیہ السلام کی فضیلت کتنی ہے؟
امام(ع) نے فرمایا: جو بھی شوق و اشتیاق کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آئے، خداوند متعال ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار مقبول عُمرے، شہدائے بدر جیسے ایک ہزار شہیدوں کا ثواب، ایک ہزار روزہ داروں کا ثواب، ایک ہزار قبول شدہ صدقات کا ثواب، اور اللہ کی رضا کے لئے آزاد کردہ ایک ہزار غلاموں کا اجر و ثواب اس کے عمل نامے میں لکھ دیتا ہے"۔ (11)
اور آپ کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"إِنَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَامُ عِنْدَ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ یَنْظُرُ إِلَى مَوْضِعِ مُعَسْكَرِهِ وَمَنْ حَلَّهُ مِنَ الشُّهَدَاءِ مَعَهُ وَیَنْظُرُ إِلَى زُوَّارِهِ وَهُوَ أَعْرَفُ بِهِمْ وَبِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ وَدَرَجَاتِهِمْ وَمَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَحَدِکُمْ بِوَلَدِهِ وَإِنَّهُ لَیَرَى مَنْ سَكَنَهُ فَیَسْتَغْفِرُ لَهُ وَیَسْأَلُ آبَاءَهُ عَلَيهِمُ السَّلَامُ أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لَهُ وَیَقُولُ لَوْ یَعْلَمُ زَائِرِي مَا أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ لَكَانَ فَرَحُهُ أَکْثَرَ مِنْ غَمِّهِ وَإِنَّ زَائِرَهُ لَیَنْقَلِبُ وَمَا عَلَیْهِ مِنْ ذَنْبٍ؛
بےشک حسین بن علی علیہما السلام اللہ کے ہاں سے اپنی خیمہ گاہ پر نظر ڈالتے ہیں اور اس مقام پر جہاں آپ کے رکاب میں شہادت پانے والے شہید آپ کے ساتھ ہیں، دیکھتے ہیں کی طرف، ایسے حال میں کہ آپ ان سب کے نام، ان کے باپوں کے نام اور اللہ کے ہاں ان کے درجات و منازل و مراتب کو جانتے اور پہچانتے ہیں؛ اس سے کہیں بہتر جتنا کہ تم میں سے کوئی اپنے فرزند کو جانتا ہے، اور یقینا امام حسین علیہ السلام دیکھ لیتے ہیں کہ کون (زیارت کی غرض سے) کربلا میں سکونت پذیر ہوچکا ہے، اور پھر اس کے لئے خدا سے مغفرت طلب فرماتے ہیں، اور اپنے آباءِ طاہرین سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کے لئے طلب مغفرت کریں؛ اور فرماتے ہیں: اگر میری زیارت کو آنے والا شخص جانتا کہ خداوند متعال نے کیا کیا درجات و مراتب اس کے لئے قرار دیئے ہیں تو اس کا خوشی اس کے غم سے بڑھ جاتی؛ اور بےشک امام حسین علیہ السلام کا زائر ایسے حال میں زیارت سے پلٹ آتا ہے کہ اس کا کے عمل نامے میں کوئی گناہ نہیں ہے"۔ (12)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ سورہ نجم، آیت 3-4۔
2۔ شیخ مفید، الامالي، ص42۔
3۔ الکلینی، الکافی، ج1، ص53۔
4۔ حسین نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج10، ص318۔
5- إبن قولويه القمي، کامل الزیارات، باب 97، حدیث 10،
6- شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ج6، ص45؛ إبن قولويہ القمي، کامل الزیارات، ب 98، ح8، (کچھ لفظی اختلاف کے ساتھ)۔
7- إبن قولويہ القمي، کامل الزیارات، ب 98، ح1۔
8- حُرّ العاملي، وسائل الشیعۃ، ج14، ص496۔
9- حسین نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج10، ص343۔
10- إبن قولويہ القمي، وسائل الشیعۃ، ج14، ص424۔
11- حُرّ العاملي، وسائل الشیعۃ، ج14، ص453۔
12- حُرّ العاملي، وسائل الشیعۃ، ج14، ص523۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۱۰