اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

19 اگست 2015

9:39:15 PM
706791

اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے بارے میں گزارش کروں کہ اس اسمبلی کی اہمیت اہل بیت علیہم السلام سے انتساب میں ہے۔ اس لیے کہ خداوند عالم کا اہل بیت(ع) کے بارے میں قرآن کریم میں ایک واضح بیان ہے ایسا بیان جو بہت کم کسی کے بارے میں ملتا ہے۔ اور وہ یہ ہے:’’ اِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهیرًا.

مجمع جہانی اہل بیت(ع) کی جنرل اسمبلی کے اراکین جو اسمبلی کے چھٹے اجلاس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے ایران آئے ہوئے ہیں نے بروز پیر مورخہ ۱۷ اگست ۲۰۱۵ کو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے جو خطاب کیا اس کا مکمل ترجمہ پیش خدمت ہے:
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌
الحمدللَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین
خوش آمدید عرض کرتا ہوں محترم حاضرین، عزیز برادران و خواہران کو، ان برادران و خواہران کو بھی جو اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی جانب سے یہاں تشریف رکھتے ہیں اور ان برادران و خواہران کو بھی جو اسلامی ممالک کے ریڈیو و ٹیلی ویزن یونین سے تعلق رکھتے ہیں اور شہیدوں کے محترم گھرانوں کو بھی جو یہاں موجود ہیں۔ ان کی برکتوں کے نزول کے لیے خداوند عالم سے دعا گو ہوں۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی اور اسی طرح ریڈیو ٹیلی ویزن یونین کے بارے میں چند باتیں عرض کرنا ہیں۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے بارے میں گزارش کروں کہ اس اسمبلی کی اہمیت اہل بیت علیہم السلام سے انتساب میں ہے۔ اس لیے کہ خداوند عالم کا اہل بیت(ع) کے بارے میں قرآن کریم میں ایک واضح بیان ہے ایسا بیان جو بہت کم کسی کے بارے میں ملتا ہے۔ اور وہ یہ ہے:’’ اِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهیرًا.(۱) اہل بیت(ع) کی پہچان ان کی طہارت اور اللہ کی طرف سے ان کی تطہیر سے ہے۔ خوب، اس تطہیر کے بہت سے پہلو ہیں۔ اگر کوئی گروہ خود کو اہل بیت(ع) سے منسوب کرتا ہے تو اس کے کچھ لوازمات ہیں جن کا پابند ہونا ضروری ہو گا۔ یہ ہماری گزارش ہے۔ کچھ لوازمات ہیں جن کی پابندی بہت ضروری ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی تلاش و کوشش عبارت تھی چند مقاصد کے لیے مجاہدت سے؛ اول اسلام کی حقیقی تعلیمات کو زندہ رکھنا، اسلامی اصول و مبانی کو زندہ رکھنا۔ ظالم حکومتوں اور امت کے طاغوتوں کی کوشش رہی ہے کہ اسلامی معارف کو یا تو نابود کر دیں یا ان میں تحریف پیدا کر دیں۔ ائمہ طاہرین کی ایک اہم ترین تحریک اس( تحریف) کے مقابلے میں مقاومت تھی۔ اسلامی تعلیمات کی حفاظت، اسلامی معارف کا احیاء۔


ائمہ طاہرین کا دوسرا کام، الہی احکام کا قیام عمل میں لانا تھا۔ الہی احکام پر عمل کروانا چاہے اس دور میں جب حکومت کی لگام آپ کے ہاتھ میں تھی، چاہے اس زمانے میں حکومت اور طاقت سے دور تھے۔ ہمیشہ ان کی تلاش و کوشش یہ تھی کہ الہی احکام کو سماج میں تحقق بخشیں۔
ائمہ معصومین کا ایک کام، فی سبیل اللہ مجاہدت تھی آپ ائمہ کی زیارت میں پڑھتے ہیں۔ أشهَدُ أنّکَ جاهَدتَ فِی‌اللهِ حَقَّ جِهادِه؛ آپ نے جہاد کا حق ادا کیا یعنی کچھ بھی پیچھے نہیں چھوڑا راہ خدا میں مجاہدت کرتے ہوئے، اپنے پورے وجود کے ساتھ، پوری توانائی کے ساتھ، پوری ظرفیت کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیا۔
اس جہاد کا ایک اہم حصہ ایک الگ باب و چپٹر ہے۔ ظلم کے ساتھ مبارزہ، ظالم کے ساتھ جنگ۔ ائمہ طاہرین کی زندگی سراپا ظلم کا مقابلہ تھی، ظالم کے ساتھ پیکار تھی۔ ان تمام مظالم ڈھائے جانے، زہر دئے جانے، شہید کئے جانے، ان تمام چیزوں کی وجہ یہی تھی کہ آپ ظلم اور ظالم کے ساتھ پیکار کرتے تھے۔ یہ ائمہ طاہرین کی زندگی تھی۔ اگر ہم چاہتے ہیں اہل بیت(ع) کے پیروکار بنیں تو ہمیں ان چیزوں کی رعایت کرنا ہو گی۔ اسلامی معارف کی ترویج کرنا ہو گی۔ الہی احکام کا قیام عمل میں لانا اپنے بنیادی مقاصد میں قرار دینا ہو گا۔ خدا کی راہ میں اپنے پورے وجود کے ساتھ مجاہدت کرنا ہو گی۔ ظلم کے ساتھ جنگ کرنا ہو گی۔ ظالم کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ خوب، مجاہدت صرف مسلحانہ جنگ نہیں ہے۔ مجاہدت اور جہاد عام ہے اور کئی طرح کے جنگوں کو شامل ہے ثقافتی جنگ سے لے کر اقتصادی جنگ تک، یہ سب مجاہدت کے عنوان میں آتا ہے۔ ذہن صرف عسکری جنگ کی طرف نہ جائے۔ ایک مرتبہ ممکن ہے کہیں عسکری جنگ بھی پیش آئے لیکن تمام جہاد صرف وہی نہیں ہے آج ہماری نظر میں مجاہدت کا مصداق کہ جو ہم مسلمانوں ہم اہل بیت(ع) کے پیروکاروں کے پیش نظر ہے وہ عبارت ہے اسلامی علاقے میں استکباری منصوبوں کے ساتھ جنگ کرنے سے، آج سب بڑا جہاد یہ ہے۔ استکباری منصوبوں کے ساتھ پیکار کریں۔ ان منصوبوں کو پہلے پہچانیں، پہلے دشمن کو پہچانیں، پہلے یہ جانیں کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے اس کے بعد بیٹھ کر پلاننگ کریں اور دشمن کے مقاصد کو نقش بر آب کریں۔ اور یہ صرف دفاع اور انفعالی مرحلے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ پیکار دفاع اور حملہ دونوں کو شامل ہے۔ یہاں ممکن ہے کہ ایک وقت میں انسان دفاعی مرحلے میں ہو۔ اور دوسرے وقت ممکن ہے حملہ کرنا ضروری ہو۔ دونوں صورتوں اور حالتوں میں استکباری منصوبوں کے ساتھ پیکار اور جہاد ہے جو اس علاقے میں بھی اصلی دشمن ہے اور تمام اسلامی علاقوں میں بھی۔ خاص طور پر اس علاقے میں جو مغربی ایشیا ہے۔ یہ علاقہ جس کو مشرق وسطیٰ  کہنے پر مغرب اصرار کر رہا ہے۔ یعنی مشرق کو مغرب سے قیاس کرتے ہیں۔ کچھ  علاقہ مشرقِ بعید ہے۔ کچھ علاقہ مشرق وسطیٰ ہے اور کچھ مشرق قریب ہے۔ یہ مغربیوں کا تکبر ہے کہ یہ علاقہ ہو گیا مشرق وسطیٰ ۔ مشرق وسطٰیٰ کا نام دینا غلط ہے۔ یہ مغربی ایشیا ہے ایشیا ایک وسیع بر اعظم ہے اور ہم اس کے مغرب میں واقع ہیں۔ یہ علاقہ بہت ہی حساس علاقہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو اسٹراٹجیک کے حوالے سے اہم، عسکری لحاظ سے اہم، زمینی معادن کے لحاظ سے اہم، تین بر اعظموں ایشیا، یورپ اور افریقا کو آپس میں جوڑنے کے حوالے سے اہم، لہذا یہ علاقہ حساس علاقہ ہے۔ اس وجہ سے اس علاقے کے لیے منصوبے بنائے جاتے ہیں ہمیں ان منصوبوں کو دیکھنا ہو گا کہ کیا ہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ ہے مجاہدت۔ قرآن ہم سے کہتا ہے: جاهِدوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه؛(۲) اللہ کی راہ میں جہاد آج یہی ہے۔
اسلامی دنیا کے خلاف سازشیں خاص طور پر اس علاقے میں، کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ سالوں پہلے ، سو سال پہلے، پہلی عالمی جنگ سے ادھر، یہ علاقہ استکباری طاقتوں کے شدید دباو کا شکار رہا، کبھی امریکہ ، کبھی برطانیہ اور کبھی فراس، استکباری طاقتیں سو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے یہاں تخریب کاری کرنے میں جھٹی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ دباو، یہ منصوبہ بندیاں، اور یہ سازشیں، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تیز ہو گئیں۔ چونکہ ایران جیسے ایک اہم ملک میں، ایک بڑے اور حساس ملک میں اسلام کی کامیابی اسستکبار کے لیے حیران کن تھی۔ ایک مدت تک تو یہ طاقتیں مبہوت ہو گئی تھیں۔ ہم حالات کا بخوبی جائزہ لیتے رہتے تھے۔ شروع شروع میں تو یہ سرگرداں و حیراں ہو گئے تھے۔ بعد میں جب ہوش آیا، تو پریشر ڈالنا شروع کر دیا۔ دباو کا مرکز بھی اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ پہلے مرحلے میں تو ان کی کوشش یہ تھی کہ یہ تجربہ(اسلامی انقلاب کی کامیابی) اب کسی اور ملک میں تکرار نہیں ہونا چاہیے۔ لہذا انہوں نے ایران پر دباو کو مزید بڑھا دیا۔ آج ہم ۳۵ سال سے دشمنوں کا دباو تحمل کرنے کی عادت کر چکے ہیں۔ ملت ایران نے عادت کر لی ہے دباؤ جھیلنے کی۔ دھمکیاں، پابندیاں، سکیورٹی پریشر، دیگر طرح طرح کی سیاسی سازشیں۔ ہمیں ۳۵ سال سے مختلف طرح قسم کے دباو کا سامنا ہے۔ یہ تھا ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے اب تک۔ لیکن جو اسلامی بیداری کی لہر گزشتہ چار پانچ سالوں میں شمالی افریقہ سے شروع ہوئی۔ مصر، تیونس اور دوسرے ممالک۔ اس کی وجہ سے دشمنوں کے کاموں میں شدت پیدا ہو گئی۔ یعنی حقیقی معنی میں دشمن سرگرداں ہو گیا ہاتھ پیر مارنے لگا، بہت ساری چالیں چلیں اور ابھی بھی جاری ہیں۔ البتہ ان کا خیال یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی بیداری کی تحریک سرکوب کر دی۔ لیکن بندہ حقیر کی نظر میں اسلامی بیداری کی تحریک سرکوب ہونے والی نہیں ہے۔ صحیح  ہے انہوں نے اپنی چالوں سے وقتی طور پر مدہم کر دیا ہے۔ لیکن یہ تحریک ابھی بھی پائی جاتی ہے۔ ممکن ہے جلدی یا تھوڑا دیر سے، لیکن ( یہ اسلامی تحریک) اپنی جگہ خود تلاش کر لے گی۔ انہوں (دشمنوں) نے ان آخری چند سالوں میں اپنے پروپیگنڈوں کو اور تیز کر دیا بہت ساری چالیں چلیں اور کئی نئے کھلاڑی اس کھیل میں داخل کر دئے۔
میں سب سے پہلے یہ عرض کر دوں یہ دشمن جو ہم کہتے ہیں یہ کسی خیالی اور وہمی موجود کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ دشمن سے ہماری مراد استکباری نظام ہے۔ یعنی استکباری طاقتیں، وہ طاقتیں کہ جن کی جان اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ وہ دوسروں پر تسلط قائم کریں۔ دوسروں کے امور میں مداخلت کریں، دوسروں کے مالی اور حیاتی ذرائع پر ناحق قبضہ کریں۔ یہ ہیں استکبار۔ یا دوسرے لفظوں میں تسلط پسندانہ نظام کے سربراہان۔ ہم اپنی سیاسی ادبیات میں ایک تعبیر استعمال کرتے ہیں اور وہ ہے تسلط پسندانہ نظام، یعنی دنیا کو تقسیم کرنا تسلط گر(غالب) اور تسلط پذیر(مغلوب) کی طرف۔ یہ نظام تسلط پسندانہ نظام ہے۔ وہ لوگ جو اس نظام کے سربراہان ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں۔ اگر اس نظام کا کوئی خارجی مصداق بھی معلوم کرنا چاہے تو میں آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت۔ تسلط پسندانہ نظام کا مکمل مصداق امریکی حکومت ہے۔ بعض دیگر بھی ہیں لیکن سب سے زیادہ واضح اور آشکار امریکی حکومت ہے کہ جس میں انسانی اقدار کا ذرہ برابر بھی نام و نشان نہیں ملتا۔ جرائم کے ارتکاب میں، کسی طرح کا جرم بجا لانے میں انہیں شرم و حیا نہیں آتی۔ اس جارحیت، اس دباو اور اس تشدد کو بہت آسانی سے مسکرا کر عام فہم الفاظ میں، اچھے اور خوبصورت الفاظ میں چھپا دیتے ہیں۔ لہذا جب ہم دشمن کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے۔


دشمن جو اس علاقے میں منصوبہ بندیاں کر رہا ہے معمولا دو چیزوں کے ذریعے ہے۔ البتہ زیادہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن عام طور پر یہی دو ہیں۔ ایک اختلاف، دوسری بےجا مداخلت۔  یہ اس علاقے میں دشمن کی پالیسیوں کی بنیاد ہے۔ اختلاف پیدا کرنا، دو حکومتوں کے درمیان اختلاف، قوموں کے درمیان اختلاف کہ البتہ یہ اختلاف، حکومتوں کے درمیان اختلاف سے زیادہ خطرناک ہے۔ یعنی ایک قوم کے دلوں میں دوسری قوم کی نسبت نفرت پیدا کرنا، ایک کا دوسرے کے اندر تعصب پیدا کرنا مختلف طریقوں سے۔ ایک زمانے میں پان ایرانیزم(Pan-iranism )، پان عربی ایزم(Pan-Arabism)، پان ترکی ایزم(Turkism) یہ سب باتیں تھیں اور آج شیعہ، سنی، وہابی اور تکفیری یہ مسائل ہیں۔  ہر ممکنہ طریقہ سے اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ یہ ان( استکباری طاقتوں) کی چالوں کی ایک قسم ہے جس پر وہ پوری تیزی سے کام کرتے ہیں۔
البتہ اس کام کا تخصص برطانیہ کو حاصل تھا وہ مذہبی اختلاف پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور امریکا والوں نے ان سے سیکھا ہے اور پوری توانائی کے ساتھ اس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ تکفیری ٹولے جو آپ دیکھ رہے ہیں سب ان کی پیداوار ہے۔ ہم یہ بات چند سال پہلے کہی تھی بعض کو یقین نہیں آ رہا تھا لیکن آج خود امریکی اعتراف کر رہے ہیں۔ وہ اعتراف کر رہے کہ داعش کو انہوں نے جنم دیا ۔ وہ اعتراف کر رہے کہ جبہۃ النصرہ کو انہوں نے پیدا کیا۔ تکفیریوں کو انہوں نے جنم دیا۔ اور سادہ لوح مسلمانوں کا ایک گروہ ان سے دھوکا کھا گیا ہے، اہم بات یہ ہے۔ یہ چیز جو ہمارے لیے عبرت آموز ہے اور ہمیں اس کی طرف توجہ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کبھی انسان سچی نیت کے ساتھ بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے دشمن کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ ایسا ہوا ہے۔ جس کی ایک واضح مثال شام کا مسئلہ ہے۔ جب تیونس اور مصر میں اسلامی نعروں کے ذریعے، طاغوتی حکومتوں کر سرنگوں کیا گیا تو فورا امریکی اور صیہونی اس کوشش میں لگ گئے کہ اس فامولہ سے مزاحمت کرنے والی حکتوں کی نابودی کے لیے فائدہ اٹھائیں۔ لہذا وہ شام کے پیچھے پڑ گئے سادہ اور بے بصیرت مسلمانوں کے ایک گروہ کو اس کھیل میں داخل کیا اور شام کی وہ صورتحال کر دی جو آپ دیکھ رہے ہیں چار پانچ سال سے ایک ملک کو اس بحران کا شکار بنا رکھا ہے کہ معلوم نہیں کب تک جاری رہے گا۔ یہ وہ کام تھا جو دشمن نے کیا اور سادہ لوح مسلمان بھی دشمن کی پلاننگ میں پھنس گئے اور دشمن کے خاکے کو مکمل کر دیا۔ یہ اتفاق کئی جگہوں پر رونما ہو رہا ہے۔ تکفیری ٹولوں کو انہوں نے بنایا، حرمت شکن، سفاک اور جابر ٹولوں کو انہوں نے جنم دیا اور امت مسلمہ کے گلے ڈال دیا۔ اور اسے مذہبی جنگ کا نام دے دیا۔ میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں کہ یہ اختلافات جو آج آپ دیکھ رہے ہیں عراق، شام اور دیگر ممالک میں، کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کو مذہبی اختلاف کا نام دیا جائے لیکن کسی بھی صورت میں یہ مذہبی اختلاف نہیں ہے، یہ سیاسی جھگڑا ہے۔ یمن میں جنگ سیاسی جنگ ہے نہ مذہبی، یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ شیعہ سنی کی جنگ ہے جبکہ بالکل شیعہ سنی کی بات نہیں ہے۔ یمن میں جو بعض سعودی بمبوں کے نیچے بچے، جوان، عورتیں اور بوڑھے مر رہے ہیں ان میں کوئی شافعی ہے کوئی زیدی ہے شیعہ سنی کی بات ہی نہیں ہے۔ یہ جھگڑا سیاسی جھگڑا ہے۔

انہوں نے آج علاقے میں ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اختلافات کو جنم دیا ہے، ان اختلافات کو مٹانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ ہم نے واضح اور آشکارا طور پر سب سے کہا: ہم تمام مسلمان حکومتوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ ہم مسلمان حکومتوں سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے۔ البتہ بہت سارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات دوستانہ ہیں شمال، جنوب، مغرب و مشرق جو  ممالک اسلامی جمہوریہ ایران کے اطراف و اکناف میں ہیں ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ لیکن بعض نزدیک اور دور کے ملک ہمارے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں، ہٹ دھرمی کرتے ہیں، خباثت کرتے ہیں، یہ ہے۔ لیکن ہماری کوشش ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے روابط قائم کرنے پر ہے۔ حکومتوں خاص طور پر ملتوں کے ساتھ ہمارے ملک کے اچھے تعلقات ہیں۔
البتہ ہمارا عقیدہ اصول اور مبانی کی پابندی ہے۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ اصول محفوظ رہنا چاہیں۔ ہمارے بزرگ امام(رہ)  اصول پر پابندی کی وجہ سے انقلاب اسلامی کو کامیابی سے ہمکنار کر پائے اور انقلاب کو محفوظ کیا اور اسلامی جمہوریہ کو ثابت قدم کیا۔ ان اصولوں میں سے ایک یہ ہے’’ «اَشِدّآءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَمآءُ بَینَهُم»(۳) ہم دشمنوں اور استکبار کے ساتھ دوستی نہیں کر سکتے اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتے۔ ان کے ساتھ دوستی، رفاقت اور بھائی چارگی کا رویہ رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم معتقد ہیں’’ اَشِدّاءُ عَلَی الکُفّارِ و رُحَماءُ بَینَهُم‘‘ کے اصول پر قائم رہیں۔ یہ امام بزرگوار کا درس ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کا مسلم طریقہ کار ہے۔ ہم مظلوم کی حمایت میں دوسری طرف نگاہ نہیں کرتے اور نہ کی ہے۔ امام راحل کا راستہ یہی تھا۔ امام جو کردار لبنان میں شیعہ مزاحمت کی حمایت میں پیش کرتے تھے وہی کردار فلسطین میں سنی مزاحمت کی حمایت میں پیش کرتے تھے بغیر کسی فرق کے۔ وہ سنی تھے یہ شیعہ تھے۔ ہماری نظر میں ایک ہی مقصد ہے اور وہ اسلامی اقدار کا دفاع، مظلوم کی حمایت، فلسطین کا مسئلہ۔ آج تمام مسلمانوں کے لیے علاقے میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے لیے بنیادی مسئلہ ہے۔ ہماری دشمنیوں میں بھی کوئی امتیاز نہیں ہے۔ امام بزرگوار نے جس طرح محمد رضا پہلوی کہ جو بظاہر شیعہ تھا کے ساتھ جنگ کی اسی طرح صدام حسین کے ساتھ جنگ کی کہ جو بظاہر سنی تھا۔ البتہ نہ وہ شیعہ تھا اور نہ یہ سنی۔ دونوں اسلام سے دور تھے لیکن ظاہر میں یہ سنی اور وہ شیعہ۔ امام نے دونوں کے ساتھ ایک جیسا مبارزہ کیا۔ مسئلہ سنی شیعہ، یا مذہب و اس طرح کی چیزوں کا نہیں ہے، مسئلہ اسلامی اصول کا ہے۔ : کونوا لِلظّالِمِ خَصمًا وَ لِلمَظلُومِ عَونًا(۴) یہ اسلام کا دستور ہے۔ یہ ہمارا راستہ ہے یہ ہماری لائن ہے۔


اسلامی دنیا میں اختلافات پھیلانا جرم ہے۔ ہم ان شیعہ گروہوں کے کردار سے جو اختلاف پھیلانے کا موجب بنتے ہیں سخت مخالف ہیں۔ ہم نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم اہل سنت کے مقدسات کی توہین کے مخالف ہیں۔ ایک گروہ اس طرف سے اور دوسرا ٹولہ اُس طرف سے دشمنی کی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ اور ان میں شدت پیدا کر رہے ہیں۔ بہت ساروں کی نیت تو اچھی ہوتی ہے لیکن ان کے پاس بصیرت نہیں ہوتی۔ بصیرت ضروری ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ دشمن ہمارے لیے کیا پلاننگ کر رہا ہے۔ دشمن کی پلاننگ پہلے مرحلے میں اختلاف پیدا کرنا ہے۔
 دشمن کا دوسرا منصوبہ رسوخ ہے وہ چاہتے ہیں اسلامی ممالک میں اور علاقے کے ممالک میں ایسا رسوخ پیدا کریں کہ دسیوں سال تک جاری رہے۔ اس وقت امریکہ علاقے میں اپنی گزشتہ عزت کو کھو چکا ہے۔ وہ چاہتا ہے اسے دوبارہ وجود میں لائے۔ ہمارے ملک میں بھی ان کا یہی مقصد ہے۔ ایران میں بھی ان کی یہی نیت ہے۔ وہ اپنے خیال خام کے مطابق، ان جوہری مذاکرات کے عرصے میں، یہ معاہدہ کہ جس کی پوزیشن نہ یہاں معلوم ہے نہ امریکہ میں، یہاں بھی معلوم نہیں قابل قبول واقع ہو گا یا ریجکٹ کر دیا جائے گا اور وہاں بھی معلوم نہیں کہ مانا جائے گا یا مسترد کر دیا جائے گا، اسمیں ان کی نیت یہ تھی کہ ان مذاکرات اور اس معاہدے کے ذریعے اس ملک میں رسوخ پیدا کریں۔ ہم نے اس راہ کو بند کر دیا نہ وہ سیاسی رسوخ کر سکتے ہیں، نہ سیاسی مداخلت کر سکتے ہیں نہ ثقافتی رسوخ کر سکتے ہیں ہم پوری توانائی کے ساتھ کہ الحمد للہ آج  ہمارے پاس توانائی بھی بہت زیادہ ہے، مقابلہ کریں گے اور اجازت نہیں دیں گے۔
علاقے میں بھی ایسا ہی ہے علاقے میں بھی وہ چاہتے ہیں اپنا رسوخ پیدا کریں علاقے میں حاضر ہوں اور اپنے مقاصد حاصل کریں۔ ہم اللہ کی قوت و طاقت سے جہاں تک ہو سکا یہ چیز نہیں ہونے دیں گے۔ علاقے میں ہماری سیاستیں، امریکہ کی سیاست کے بالکل مخالف نقطے پر ہیں۔ علاقے کے ممالک کی زمینی سالمیت ہمارے لیے اہم ہے۔ عراق کی زمینی سالمیت شام کی زمینی سالمیت ہمارے لیے اہم ہے لیکن وہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے پہلے سے کہہ دیا تھا کہ امریکہ عراق کو تقسیم کرنے کے در پہ ہے۔ بعض لوگوں نے تعجب کیا حالیہ دنوں امریکیوں نے خود اعتراف کیا کہ وہ عراق کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں! اگر ان کے بس میں ہو تو وہ شام کو بھی تقسیم کر کے رہیں گے۔ وہ چاہتے ہیں علاقے میں چھوٹے چھوٹے ممالک اپنے زیر تسلط وجود میں لائیں۔ لیکن خدا کے فضل سے ہم یہ کام نہیں ہونے دیں گے۔ ہم علاقے میں مزاحمت کا دفاع کریں گے فلسطین کی مزاحمت کا کہ جو امت مسلمہ کی تاریخ کا اہم ترین باب حالیہ تمام سالوں میں فلسطینی مزاحمت ہے، اس کا دفاع کریں گے۔ جو شخص اسرائیل سے پیکار کرے گا صیہونی ریاست کو دباو میں رکھے گا مزاحمت کی تائید کرے گا ہم اس کی حمایت کریں گے۔ جو بھی حمایت ہم سے ہو سکی ہر طرح کی حمایت جو ہم سے ممکن ہوئی۔ ہر اس شخص کی حمایت کریں گے جو اسرائیل کا مقابلہ کرے گا۔ مزاحمت کی حمایت کریں گے، ممالک کی ارضی سالمیت کی حمایت کریں گے ان تمام لوگوں کی جو امریکہ کے تفرقہ انگیز سیاستوں کا مقابلہ کرتے ہیں حمایت کریں گے۔ اور ان تمام لوگوں کی جو ان اختلافات کو وجود میں لاتے ہیں مخالف ہیں اور ان کا مقابلہ کریں گے۔ ہم اس شیعت کو جس کی تبلیغ کا مرکز لندن ہو قبول نہیں کرتے۔ یہ وہ شیعت نہیں جس کی ترویج ائمہ طاہرین نے کی۔ وہ تشیع جو اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد پر ہو، اسلام کے دشمنوں کے رسوخ کا راستہ فراہم کریں یہ تشیع، تشیع نہیں بلکہ انحراف ہے۔ تشیع اسلام ناب کا مظہر تام ہے۔ شیعت قرآن کا مظہر ہے۔ ہم ان لوگوں کی حمایت کریں گے جو اتحاد کی ترویج کرتے ہیں، اور جو اتحاد کے خلاف عمل کرتے ہیں ان کے مخالف ہیں۔ تمام مظلومین کا دفاع کرتے ہیں ہم ان باتوں کے ذریعے جو آپ کہتے ہیں ’’ آپ بحرین کے معاملے یا دوسرے معاملوں میں مداخلت کرتے ہیں‘‘ میدان نہیں چھوڑیں گے۔ ہم نے کوئی مداخلت نہیں کی لیکن ان کی حمایت کی ہے۔ ہم بحرین کے مظلوم عوام، یمن کے مظلوم عوام کے لیے رنجیدہ ہوتے ہیں ان کے لیے دعا کرتے ہیں جو مدد ہم سے ہو سکے ہم کرتے ہیں۔ آج یقینا یمن کے لوگ(مظلوم ہیں) ، ملت یمن مظلوم ہے۔ ایک ملک کو اجاڑا جا رہا ہے صرف اپنے سیاسی اور استکباری مقاصد کے تحت، حماقت کے ساتھ، سیاسی مقاصد کو دوسرے طریقے سے بھی حل کیا جا سکتا ہے یہ اپنے سیاسی مقاصد کو حماقت کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے یمن کے حالات دردناک ہیں۔ اور اسی طرح دنیائے اسلام کے دیگر حالات پاکستان افغانستان اور دیگر ممالک میں جو دردناک واقعات رونما ہو رہے ہیں دنیائے اسلام کو چاہیے بیداری اور بصیرت کے ساتھ ان واقعات کا معالجہ کرے۔
اب ریڈیو ٹیلی ویزن یونین کے بارے میں گزارش کروں، یہ یونین بہت ہی اہم ہے۔ یہ کام جو آپ لوگوں نے شروع کیا ہے اس یونین کو وجود میں لایا ہے یہ بہت اہم کام ہے۔ آپ دیکھ رہے کہ اس وقت مسلمان ملکوں میں کم سے کم ستر فیصد یا اسّی فیصد لوگ اسلامی عقائد کے پابند ہیں۔ آپ دیکھیں اسلامی ممالک کو لوگ معتقد ہیں لوگ اپنے دین کو قبول رکھتے ہیں۔ یہ ریڈو اور ٹی وی جنہیں لوگوں کے خواہشات کا نمائندہ ہونا چاہیے کس قدر اسلامی ممالک میں دینی پروگراموں کو پیش کرتے ہیں؟ یہ فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ یہ شگاف بہت عجیب ہے۔ ستر فی صد اسّی فیصد لوگ دینی تمایل رکھتے ہوں لیکن ان ملکوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویزن دین کی سمت حرکت نہ کریں لوگوں کے خواہشات کی عکاسی نہ کریں یہ بہت تعجب کی بات ہے۔ جس چیز کو یہ منعکس کرتے ہیں وہ استکباری میڈیا کی خطرناک پالیسی کے مطابق ہے۔ آج عالمی استکبار نے ایک بڑی میڈیا امپیریل تیار کر رکھی ہے خبروں کو اپنی مرضی کے مطابق تحریف کرتے ہیں۔ جھوٹ بیان کرتے ہیں۔ سیاستوں کو اسی طریقے سے منواتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں ہم غیر جانبدار ہیں۔ برطانیہ کا ریڈیو دعویٰ کرتا ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں جھوٹ بولتے ہیں۔ کون سی غیر جانبداری؟ یہ بالکل ٹھیک ٹھیک استکباری اور استعماری سیاستوں کی سمت حرکت کرتے ہیں چاہے امریکی سیاستیں ہوں یا برطانوی، چاہے آڈیو میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، چاہے نیوز ایجنسیاں ہوں یا دوسرے عجیب و غریب مواصلاتی ذرائع جو اس وقت پائے جاتے ہیں۔ سب ان کی پالیسیوں کے زیر سایہ ہیں سب استکبار کی خدمت کر رہے ہیں سب صیہونیت کی راہ میں کام کر رہے ہیں ان کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں۔ اس خطرناک امپیریل کے مقابلے میں، اس بڑے میڈیا مافیا کہ جو آج سرمایہ داروں، امریکی اور صیہونی کمپنیوں کے اختیار میں ہے کے مقابلے میں کوئی ٹھوس کام کرنا ہو گا۔ یہ کام جو آپ کر رہے ہیں ایک تحریک کا آغاز ہے اس تحریک کو جاری رکھنا ہو گا اسے تقویت کرنا ہو گی دن بدن اسے قوی کرنا ہو گا اپنے شرکاء اور ساتھیوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔
انشاء اللہ اچھا مستقبل آپ کے انتظار میں ہے۔ میں آپ سے گزارش کروں کہ ان رجز خوانیوں کے باوجود جو استکبار کر رہا ہے اس تمام کوششوں جو مالی، عسکری، سیاسی اور سکیورٹی لحاظ سے استکبار اور اس کے ہم نوالہ انجام دے رہے ہیں اس علاقے میں بلکہ پوری دنیا میں مستقبل اسلام کا ہو گا۔ دن بدن انشاء اللہ اسلام کی عزت میں اضافہ ہو گا اسلام کی قدرت اور طاقت میں اضافہ ہو گا۔ البتہ ضروری ہے کہ جد وجہد کی جائے مجاہد لوگ، مرد، عورتیں اور جوان الحمد للہ پوری دنیا میں بہت ہیں ہمیں ان کی قدر کرنا چاہیے اپنے نعروں کو، اپنی تحریکوں کو، اپنی باتوں کو اور اپنی فعالیتوں کو اس سمت موڑنے کی ضروت ہے یقینا خداوند متعال مدد کرے گا۔ . اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم. (۵)
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌
حوالہ جات
۱: سورہ احراب، آیہ ۳۳
۲: سورہ حج آیہ ۷۸
۳: سورہ فتح آیہ ۲۹
۴: نہج البلاغہ نامہ ۴۷
۵: سورہ محمد، آیہ ۷

ترجمہ: الف ع جعفری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲