اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا: افغانستان سے آئے ہوئے عالم دین "شیخ عبد العزیز توانا" نے انتہاپسند اور تکفیری تحریک کے موضوع پر قم میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے دوسرے دن کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا:میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ تاریخ کے بڑے حساس وقت میں کہ جب دشمنان اسلام نے تفرقہ اور اختلاف کو ہوا دینے کے لئے اپنی خاص حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے،ایران نے ایک بار پھر دنیا بھر کے اہل سنت اور شیعہ علماء کی عزت و اخوت کا پرچم بلند کیا تاکہ وہ مل کر اسلامی اور تکفیریت سے متعلق مسائل میں اپنے نظریات کو مشترکہ طور پر پیش کر سکیں۔
انہوں نے کہا:یہ کانفرنس ایسے حالات میں منعقد ہو رہی ہے کہ مسلمین کے قبلۂ اول میں مختلف قسم کے جرائم کا اترکاب ہو رہا ہے اور عالم اسلام کا حال نہایت افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے۔شک نہیں کہ اگر علماء اسلام نے اپنی ذمہ داری کو نہیں نبھایا تو روز قیامت جواب بینا بڑا سخت ہو جائے گا۔س
شیخ توانا نے کہا:دشمنوں کی مستقل یہ کوشش رہتی ہے کہ ہر زمانہ میں کسی ایک خاص مسئلہ سے ناجائز فائدہ اٹھائیں۔عثمانی سلطنت کو اختلافات کے ذریعہ سرنگون کیا اور اب پھر سے اس خیال میں ہیں کہ اختلاقاف بھڑکانے اور متحجر گروہوں کو وجود میں لا کر اسلام پر کاری ضرب لگائیں۔
انہوں نے عالم اسلام کی صورتحال کو نہایت افسوسناک بتاتے ہوئے کہا:اسلام کی امت واحدہ مختلف سلیقوں میں بٹ گئی ہے۔ہم قرآن کریم اور پیغمبر اسلام(ص) کے اوامر کو لے کر اللہ کو کیا جواب دیں گے۔آج مغربی محاذ نے ہم مسلمانوں کے لئے کچھ بت تراشے ہیں تاکہ اسلامی ممالک میں مسجد ضرار کا واقعہ پھر دھرایا جا سکے۔
شیخ توانا نے بڑے حسرت بھرے انداز میں کہا:جس وقت اسلامی بیداری کے سلسلہ میں ایران میں کچھ کانفرنسوں کا انتقاد کیا گیا تو ہمارے دل میں یہ امید جاگی کہ ہم عنقریب بیت المقدس میں پہونچ جائیں گے۔ مگر آج کل مسلمان اپنے ہی ملکوں میں چھڑی ہوئی خانہ جنگی کا شکار ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ہم اپنے امکانات اور توانائیوں کو بیت المقدس کی آزادی کے لئے استعمال کرتے۔دشمن کے تراشے ہوئے بتوں نے ہمیں نقصان پہونچایا ہے۔ علماء اسلام کی بیداری،ہوشیاری اور ان میں موجود احساس ذمہ داری سے ہی مسلمانوں کو نجات مل سکتی ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا:اگر ہم مسلمانوں کی عزت اور پیغمبر (ص) کی اطاعت کے سلسلہ میں غور و فکر نہ کریں اور اتحاد،یکجہتی اور کلمہ توحید کی اتباع نہ کریں تو پھر ہم خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے۔حکومت مصر کیوں سرنگوں ہوئی؟وہاں کی سابق حکومت کا کیا جرم تھا؟ آخر کیوں آیۃ اللہ باقر النمر کو سزائے موت سنائی جاتی ہے؟انہون نےکیا گناہ کیا ہے؟
یہ کانفرنس جو آیۃ اللہ مکارم شیرازی کی خلاقانہ کاوشوں کے نتیجہ میں منعقد کی گئی ہے،اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ہمارے لئے اسلامی بصیرت سے لیث ہونا ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمنوں کو کچھ کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔
انہوں نے کہا:وہ لوگ جو جہاد و شہادت کے مفاہیم سے بے بہرہ ہیں انہیں اس میدان میں سرگرم ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ یہ لوگ کج فکرے ہیں۔حسن البنا،مودودی اور آیۃ اللہ خمینی جیسے افراد وہ تھے جو اسلامی تحریک کو زندہ رکھنے کے لئے جد و جہد کیا کرتے تھے۔
شیخ عبد العزیز توانا نے اپنے بیان کے آخر میں کہا:ضروری ہے کہ ہم تکفیری ٹولیوں کا مقابلہ کریں۔ دشمنوں کی سازش، ظلم و زیادتی،بے حیائی اور اونچ نیچ یہ وہ عناصر ہیں جو سبب بنے کہ کچھ گروہ انتہا پسندی کا رخ کریں۔ہمیں بنیادی علاج کرنے کی ضرورت ہے۔
...........
242