اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

22 اکتوبر 2013

8:30:00 PM
475025

سنی عالم کے ساتھ ابنا کی کھری کھری باتیں؛

سنی عالم دین: تمام منازعات میں علی حق پر تھے/ شامی تکفیریوں کے بارے مختلف رائے

اہل بیت(ع) کی محبت اہل سنت کے ایمان کا جزء ہے/ "لولا علي لہلک عمر" درست ہے/ علی اور صحابہ کے درمیان تمام تنازعات میں علی حق پر تھے/ سات شیعوں کو مار کر جنت جانے کا عقیدہ رکھنے والے خارج از اسلام ہیں/ اہل بیت(ع) کی شان میں گستاخی کرنے والے مرتد ہیں/ ہم حضرت علی اور اہل بیت(ع) کی فضیلت بیان کرنے میں کی نسبت حساسیت نہیں رکھتے/ اسلام میں جہاد النکاح کا وجود نہيں ہے۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق مولوی علی احمد اسلامی المعروف "مولوی نذیر احمد" نے ابنا کے ساتھ نہایت صاف صاف انداز میں گفتگو کی ہے جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے:تعارف: مولوی علی احمد سلامی المعروف "مولوی نذیر احمد" 1949 کو صوبہ سیستان و بلوچستان، ضلع سرباز، تحصیل کیشکور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سرباز کے مولانا تاج محمد بزرگ زادہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کئے اور اس کے بعد پاکستان جا کر مفتی اعظم مفتی محمد شفیع، مولانا محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا شمس الحق اور مولانا سبحان محمود سے علم حاصل کیا اور دینی تعلیمات مکمل کردیں نیز ساتھ ساتھ کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں پوسٹ گریجویشن کی۔ وہ مجلس خبرگان قیادت میں سیستان و بلوچستان کے نمائندے اور عالمی مجمع تقریب بین المذاہب الاسلامیہ کی شورائے عالی (سپریم کونسل) کے رکن مذاہب اسلامی یونیورسٹی میں حنفی فقہ و قوانین فیکلٹی کے رکن نیز حوزہ علمیہ دارالعلوم زاہدان کے استاد ہیں۔ ان کی تالیفات میں "تاریخ اسلام"، "دعوت و تبلیغ کے اصول"، "رسول اللہ(ص) اور صحابہ کے زمانے کی مثالی خواتین"، "تین ہم سفر"، "آداب شریعت کے سائے میں زندگی کی کیفیت"، "واقعہ کربلا کا تاریخی تناظر" اور "ایک تحفہ خواتین کے لئے" خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ نیز انھوں نے بین الاقوامی فورموں میں پندرہ علمی مقالات بھی پیش کئے ہیں۔ ان موضوعات کی بنا پر مولوی علی احمد اسلامی ایران کے اہل سنت کے پائے کے بڑے علماء اور ممتاز اہل دانش میں شمار ہوتے ہیں اور اہل سنت کے تمام فقہی اور اعتقادی اصولوں پر عبور کامل رکھتے ہیں چنانچہ اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ نے مجلس خبرگان کے اجلاس کے موقع پر ان کی خدمت میں حاضر ہوکر دو موضوعات پر ان کے ساتھ گفتگو کی ہے:1۔ حضرت علی(ع) اہل سنت کی نظر میں2۔ تکفیریوں اور سلفیوں کے نظریات کا ایک جائزہ۔تاکہ تحفہ ہو قارئین و صارفین کے لئے عید اللہ الاکبر عید غدیر کے موقع پے۔ سوال: کم معلومات رکھنے والے نوجوانوں کہ لئے یہ جاننا بہت دلچسپ ہے کہ ہمارے امام اول کے بارے میں اہل سنت کی رائے کیا ہے؟ چنانچہ مہربانی فرما کر تاریخ کی اس عظیم الشان شخصیت کے بارے میں اہل سنت کی رائے بیان فرمائیں۔ جواب: بسم الله الرحمن الرحیم و به نستعین. اگر اجازت دیں تو میں اہل بیت رسول (ص) کی شان میں اہل سنت کی رائے بیان کروں اور اس کے بعد ہم علی(ع) تک پہنچیں۔ ابنا: بسم اللہ سوال: اہل بیت(ع) کی محبت ہمارے ایمان کا جزء ہے اور ہم اس موضوع پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم اپنی نمازوں میں رسول اللہ(ص) اور اہل بیت رسول(ص) پر درود بھیجتے ہیں؛ یہ درود ہماری صحاح میں ثبت ہوا ہے اور ہم اس کے بغیر نماز کو ناقص سمجھتے ہیں۔ جو صلوات ہم بھیجنا واجب سمجھتے ہیں اور اس پر یقین رکھتے ہیں وہ کچھ یوں ہے: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ"۔ ہم ہر نماز جماعت، فرادی اور نماز شب و تہجد میں یہ دعا پڑھتے ہیں اور یہ درورد رسول خدا(ص) اور آل رسول(ص) پر بھیجتے ہیں۔ نیز اہل سنت کی نماز جمعہ کے خطبوں میں جہاں خطبہ عربی میں پڑھا جاتا ہے یہ الفاظ اور کلمات پڑھے جاتے ہیں "الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة وفاطمة سيدة نساء اهل الجنة" وہ الفاظ ہیں جو خطباء ادا کرتے ہیں اور اہل سنت سامعین انہیں سنتے ہیں اور ان پر یقین و اعتقاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو المیہ کربلا میں رونما ہوا اور امام حسین(ع) شہید ہوئے، اہل سنت کے حقیقی علماء اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور کربلا میں امام حسین(ع) کی حمایت و تمجید میں اہل سنت نے مقالات شائع کئے ہیں۔ اس سلسلے میں برصغیر کے علمائے اہل سنت جیسے "ابوالاعلی مودودی"، "ابوالکلام آزاد"، اور پاکستان کے سابق مفتی اعظم "مولانا محمد شفیع" نے کتابیں لکھیں۔ مولانا محمد شفیع نے ایک کتاب لکھی ہے بعنوان "شہید کربلا"، اور اس کے دیباچے میں لکھا ہے: "کربلا کے المئے پر نہ صرف لوگ روئے بلکہ اس پر ماہتاب و آفتاب اور چاند اور سورج اور آسمان روئے"۔ میں نے بھی وہ تمام آراء اکٹھی کرلی ہیں جو اہل سنت اور اہل تشیع نے واقعہ کربلا کے اسباب فراہم کرنے والے فرقے کی مذمت میں بیان کی ہیں اور یہ فرقہ خوارج کے گمراہ فرقے کے ساتھ فکری طور پر ہمآہنگ ہے؛ نیز وہ باتیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقدامات کی حمایت میں سامنے آئی ہیں اور اخبارات اور مقالات اور کتب کے ضمن میں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے اکثر کی زبان اردو ہے جنہیں ایک کتاب کے ضمن میں اشاعت کا پروگرام ہے اور اس کتاب کا نام ہے"واقعہ کربلا کا تناظر"۔ سوال: حضرت امیرالمؤمنین(ع) کی شان میں؟ جواب: آپ(ع) کی عبادت بہت نمایاں تھی؛ آپ(ع) کی شجاعت بہت نمایاں تھی، آپ(ع) کا تقوی نمایاں تھا؛، آپ(ع) کی شخصیت نمایاں تھی اور ہمارے صحیح منابع اور مصادر میں یہ سب موجود ہے۔ حضرت علی(ع) رسول اللہ(ص) کے داماد ہیں اور رسول اللہ(ص) کی نسل علی اور فاطمہ زہراء سے چلی ہے۔ سادات سب فاطمہ زہراء اور علی کے فرزند ہیں۔ ہم ان سب حقائق کو تسلیم کرتے ہیں۔ آنحضرت(ع) کے علم کے بارے میں رواائی منابع میں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "انا مدينة العلم وعلي بابها"؛ (میں علم کا شہر ہوں اور علي اس کا دروازہ ہیں)؛ نیز فرمایا: "علي اقضاكم" (علي تم میں سے سب سے بہتر فیصلے کرنے والے ہیں)، اور ایک موقع پر فرمایا: "اقضاهم علي ابن ابي طالب"۔ یعنی قضاوت اور فیصلے کرنے میں اصحاب میں ماہرترین اور عالمترین حضرت علی(ع) تھے۔ خیبر کا درواز حضرت علي(ع) نے کھولا اور رسول اللہ(ص) نے ایک روز قبل فرمایا: کل میں پرچم ایسے فرد کے حوالے کرنے والا ہوں کہ وہ خیبر کو فتح کرے گا۔ اصحاب سب منتظر تھے کہ کل پرچم ان کے سپرد کیا جائے لیکن صبح رسول اللہ(ص) فرمایا کہ علي کو بلاؤ۔ اصحاب نے کہا کہ علی(ع) آشوب چشم ميں مبتلا ہیں۔ رسول اللہ(ص) نے مبارک لعاب دہن کو علی(ع) کی آنکھوں پر لگایا اور آپ(ع) کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور پرچم کو ہاتھ میں لیا اور قلعہ خیبر کو فتح کیا۔ یہ حضرت علی(ع) کی شجاعت کا مظہر ہے۔ سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت 55 " إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ" حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے نماز کی حالت میں اپنی انگشتری سائل کو عطا فرمائی؛ کیا آپ اس پر یقین رکھتے ہیں؟ جواب: اس کے بارے میں کئی تفسیریں پائی جاتی ہیں۔ اس کا ایک مصداق شاید آپ(ع) ہوں یا شاید اس کے دوسرے مصادیق ہوں۔ اگر مصداق واقعی علی(ع) ہوں تو اس میں کوئی حرج نہيں ہے اور اس پر ہمیں غصہ نہیں آتا؛ کیونکہ حضرت علی(ع) اس مقام کے لائق ہیں۔ نیز سورہ ہل اتی میں جہاں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: "وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً"؛ بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی، حضرت زہرا اور ان کے فرزند حسن و حسین روزہ رکھے ہوئے تھے اور افطار کے وقت ایک مسکین آیا، ایک روز ایک یتیم آیا اور تیسرے روز ایک اسیر آیا اور انھوں نے اپنے افطار کا کھانا محتاجوں کو دیا؛ یہ تفسیری روایات ہیں اور بعض لوگوں نے دوسری تفاسیر پیش کی ہیں اور دوسرے مصادیق ذکر کئے ہیں۔ اگر فرض کریں کہ مصداق علی(ع) ہوں تو ہمارے حساسیت کا سبب نہیں ہے۔ وہ لوگ حساسیت پیدا کرتے ہیں (اور الرجک ہوجاتے ہیں) جو خدا نخواستہ حضرت علی(ع) کے فضل اور عظمت و بزرگواری کو برداشت نہ کرسکتا ہو۔ ہم اگر حضرت علی اور اہل بیت کی فضیلت بیان کریں تو خوش ہوا کرتے ہیں اور ہم اس حوالے سے کوئی حساسیت اور ناچاقی (friction) نہیں کرتے۔ سوال: لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جو اہل سنت کہلواتے ہیں، فضائل اہل بیت(ع) سے خوش نہیں ہوتے بلکہ وہ منکر ہیں اور حتی کہ اللہ کی پناہ، توہین اور بےحرمتی کرتے ہیں۔ اس شخص کے بارے میں آپ کے ہاں شرعی حکم کیا ہے جو حضرت علی(ع) یا اہل بیت عصمت و طہارت(علیہم السلام) کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں؟ جواب: میں یقین کامل کے ساتھ آپ سے کہتا ہوں کہ جو بھی سنی اہل بیت (ع) کی توہین کرے نہ صرف اہل سنت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مرتد اور اسلام سے خارج ہے۔ سوال: اہل سنت کے متعدد منابع و مصادر ـ جیسے محمود بن عبداللہ الآلوسی کی تفسیر "روح المعانی"، ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ، امام شافعی کی الحافی، حنفی القندوزی کی "ینابیع المودہ" اور درجنوں دیگر کتب میں ہے کہ جناب عمر نے کہا: "لولا علی لهلك عمر"۔ ایک سنی عالم و صاحب دانش کی حیثیت سے آپ اس کے بارے میں کیا فرمانا چاہیں گے؟ جواب: بعض قضایا میں حضرت عمر نے ایک مسئلے کا فیصلہ کیا جو غلط تھا چنانچہ حضرت علی جو ان کے قریب تھے، نے انہیں متوجہ کرایا کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایسا ہے اور حضرت عمر نے فورا قبول کیا اور فرمایا: "لولا علی لهلك عمر"؛ یعنی اگر علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا۔ سوال: کیا یہ جناب عمر پر حضرت علی(ع) کی علمی فوقیت و ارجحیت کا ثبوت نہیں ہے؟ جواب: کیوں نہیں؛ اس حقیقت کے سب معترف ہیں اور ناممکن ہے کہ کوئی سنی اس موضوع کو قبول نہ کرتا ہو۔ سوال: ہمارے پاس ایک روایت ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ "علي مع الحق والحق مع علي"، آپ بھی اس بات کو مانتے ہیں؟ جواب: ہاں! اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی اور صحابہ کے درمیان رونما ہونے والے تمام تنازعات میں حضرت علی حق پر تھے؛ جیسے حضرت علی اور معاویہ کے درمیان اختلاف اور آپ(ع) کا حضرت عائشہ کے ساتھ اختلاف۔ سوال: پس آپ کا اعتقاد نہیں ہے کہ صحابہ معصوم ہیں؟ جواب: ابتدا میں مجھے صحابی کی صحیح تعریف کرنے دیں۔ ہمارے مذہب کے مطابق صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ(ص) کو دیکھا ہو اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ یہ صحابی معصوم نہیں ہے لیکن محترم ہے۔ صحابہ کے مختلف درجات اور مراتب ہیں لیکن ان کی حرمت ہمارے لئے محفوظ ہے۔ سوال: کیا آپ تمام صحابہ کی نسبت حضرت علی(ع) کی برتری اور ارجحیت کو تسلیم کرتے ہیں؟ جواب: ہاں! سابقہ سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ رسول خدا نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں سے بہترین فیصلے کرنے والے علی ہیں۔ ہم نماز جمعہ کے خطبوں میں کہتے ہیں "اقضاهم علي" اقضا اسم تفضیل ہے یعنی قاضی ترین۔ قضاوت علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہذا جب حضرت علی اقضا یعنی قاضی ترین ہیں، اعلم بھی ہیں یعنی صحابہ کے عالم ترین فرد ہیں۔ البتہ ہم کہتے ہیں یہ دوسرے صحابہ دوسرے معاملات میں مہارت رکھتے تھے مث