اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

2 اکتوبر 2013

8:30:00 PM
469020

شام کی استقامت اور امریکہ کی پسپائی پر ایک نظر

تسنیم خبر ایجنسی نے سپاہ پاسداران کی بری فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور سے شام کے مسئلے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ اس انٹرویو میں شام کے مجوزہ حملے سے امریکہ کی پسپائی کے اسباب و عوامل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔

اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ کی رپورٹ کے مطابق سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی بری فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد پاکپور نے تسنیم خبر ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور تسنیم خبر ایجنسی نے ان کے ساتھ ایک انٹرویو ترتیب دیا جس کا اردو ترجمہ ابنا کی جانب سے قارئیں کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ امریکے کے غلط اندازے شام پر حملے کے موقف سے پسپائی کی اصل وجہتسنیم: امریکہ قبل ازیں جب بھی کسی ملک کے خلاف اعلان جنگ کرتا قطعی طور پر حملہ کیا کرتا تھا لیکن شام کے مسئلے میں اس نے اپنے قطعی حملے سے پسپائی اختیار کی کیوں اور کیسے؟جواب: موقف میں اس تبدیلی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ سب سے پہلے جس چیز کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے وہ علاقے کے حالات اور شام کے بحران کے بارے میں امریکہ کے غلط اندازے اور تخمینے تھے؛ ان کا خیال تھا کہ ان دھمکیوں کو ذرائع کی زینت بنایا جائے تو شامی افواج حوصلے ہار جائے گی اور وہ ہتھیار ڈالے گی۔ دوسرا نکتہ امریکہ کی ماحول سازی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس ماحول سازی کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملا سکیں گے لیکن وہ اپنے عوام اور سرکاری اداروں کو بھی اپنے ساتھ نہ ملاسکے۔ امریکی بین الاقوامی اتحاد نہ بنا سکے اور حتی کہ امریکہ کے حلیف بھی ایک طرح سے اس حملے کے خلاف تھے۔ دہشت گرد امریکہ کے لئے وبال جان بن جائیں گے/ شام پر ہر قسم کے حملے کا نتیجہ الٹا نکلے گا امریکیوں نے حالیہ ایک برس کے دوران شامی افواج کی کامیابیوں کے پیش نظر ان دھمکیوں کے ذریعے شام کی اندرونی صلاحیتوں اور فوج کی قوت کو توڑنے کا ارادہ کیا تھا لیکن جب انھوں نے شامی افواج کی مسلسل پیشقدمی کو دیکھا اور دیکھا کہ دنیا کا ماحول اچانک بدل گیا ہے اور امریکہ کے علاقائی حلیف اور شام کے اندر دہشت گرد اپنے مستقبل کے بارے میں شک و تردد میں مبتلا ہوئے ہیں تو امریکہ میدان میں آیا تا کہ انہیں حوصلہ دے سکے لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلا۔ یہ کہ امریکہ شام پر حملہ کرے گا یا نہیں کرے گا اس کا تعلق مستقبل سے ہے لیکن یہ یقینی ہے کہ شام پر ہر قسم کا حملہ امریکہ کے لئے الٹے نتائج پر ختم ہوگا۔  امریکیوں نے جہاں بھی کسی حکومت یا دھڑے کی حمایت کے لئے مداخلت کی ہے بعد میں وہی حکومت اور وہی دھڑا اس کے کے لئے مصیبت کا باعث بنا ہے۔ انھوں نے روس کے خلاف طالبان کو جنم دیا اور انہیں ہتھیار دیئے اور تربیت دی اور بعد میں وہی لوگ ان کے لئے وبال بن گئے۔ اس وقت بھی شام میں امریکہ اور اس کے علاقائی حلیف جن دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں، انہیں ہتھیار اور نقد امداد دیتے ہیں اور بعض مواقع پر حتی ان کی کمانڈ ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں، یہ دہشت گرد ان ہی کے گلے پڑ جائیں گے اور ان کے لئے بہت خطرناک مشکل میں تبدیل ہونگے۔   امریکیوں کو یقین ہے کہ شام میں ہونے والے کشت و خون میں جس فریق کے لوگ بھی مریں ان کے مفاد میں ہے؛ اگر شامی افواج مریں تو یہود و نصاری کے محاذ کے مقابلے میں مزاحمت محاذ کمزور ہوگا اور اگر تکفیری مریں پھر بھی ان ہی کے مفاد میں ہے لیکن وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں کہ وہ اس طرح علاقے اور دنیا میں تکفیری تفکر کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس تفکر کا فروغ نہ ان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی دنیا کے مفاد میں۔ شام کو دفاع کے لئے بیرونی کمک کی ضرورت نہيں ہے تسنیم: اگر امریکہ اپنے چند متحدین کے ساتھ شام پر حملہ کرے اور سعودی عرب اور ترکی بھی اس کا ساتھ دیں تو شام کی فوجی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا شام کی حکومت کو ضرورت ہوگی کہ کوئی ملک محسوس انداز سے اس کی مدد کو آئے؟ شامی اپنا دفاع کرسکتے ہیں انہيں کسی بھی ملک کی عسکری موجودگی کی ضرورت نہيں ہے۔ 2 سال اور 7 مہینوں سے شامی افواج لڑ رہی ہیں اور اپنی مزاحمتی قوت کا ثبوت دے چکی ہیں اور یہی فوجی قوت شام پر بیرونی زمینی حملے کے سامنے رکاوٹ بنی۔ وہ اپنے حملے کے انجام سے باخبر تھے اسی وجہ سے انھوں نے بہانہ بنایا کہ ان کا حملہ محدود ہوگا اور دعوی کیا کہ ان کا مقصد شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کے گوداموں کی نگرانی کرنا ہے۔ یقینی طور پر چند فضائی حملوں کے نتیجے میں شام کی حکومت اور فوج زوال پذیر نہیں ہوتی۔ کنھوں نے دہشت گردوں کو طیارہ شکن اور ٹینک شکن میزائلوں سمیت ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس کیا ہے کہ شامی افواج اور مزاحمت فورسز کے خلاف برسرپیکار ہوں لیکن اس کا انہيں کوئی فائدہ نہيں ملا ہے اور انہيں مستقبل میں کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ تسنیم: سپاہ پاسداران نے کئی ماہ قبل ایک اہم بیان دیا تھا اور امریکیوں کو بھی خبردار کیا تھا کہ شام میں سیرین گیس پہنچائی گئی ہے؛ آپ کب اور کیسے اس مسئلے سے آگاہ ہوئے اور کیا امریکیوں نے اس انتباہ کو توجہ دی؟ ان کا طرز عمل متضاد ہے۔ سپاہ کے بیان سے قبل کہ دہشت گردوں نے شامی افواج کے خلاف کیمیاوی گیس استعمال کی ہے لیکن بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں نے توجہ نہ دی۔ امریکہ کی حالیہ نقل و حرکت پیشگی منصوبے کے تحت تھی۔ کمیاوی ہتھیاروں کا فتنہ اٹھانے سے قبل امریکی ذرائع ابلاغ شام پر حملے کے لئے بہانے کی تلاش میں تھے۔ وہ رائے عامہ کو اپنی جانب متوجہ کرانا چاہتے تھے؛ لیکن وہ اس تجزیئے میں خطا کے مرتکب ہوئے اور شکست سے دوچار ہوئے۔ سپاہ بھی یہی کہتی ہے کہ اگر سیرین گیس یا دوسرے ہتھیاروں کو شام میں استعمال کیا گیا ہے تو یہ دہشت گردوں کے بیرونی حامیوں نے ان تک پہنچائے ہیں اور یہ دہشت گرد ہیں جنہوں نے کمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ اسلامی مزاحمت کے ہمدرد ذرائع میں اہم مسائل کی کمزور کوریج تسنیم: آج شام محاذ مزاحمت کا اگلا مورچہ ہے اور یقینی طور پر شام کے میدان جنگ میں عسکری جھڑپوں سے بھی زیادہ مؤثر ابلاغی جنگ ہے جو جاری ہے۔ امریکہ اور صہیونیت کے خلاف اسلامی محاذ مزاحمت کے ہمدرد ذرائع ابلاغ کے فن و ہنر سے متعلق اداروں کے کردار کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ آج کے زمانے میں ذرائع ابلاغ نفسیاتی جنگ کے اہم ترین وسائل سمجھے جاتے ہیں۔ ہم دفاع مقدس کے دوران اس اوزار سے بخوبی استفادہ نہیں کرسکے؛ اور انقلاب کے بعد تاکیدات کے باوجود زیادہ کامیاب کردار ادا نہیں کرسکے۔ مثال کے طور پر بعض فلمیں بنائی گئی ہيں جو حقائق سے بہت دور ہیں۔ ہمیں ان مسائل کو حل کرنا پڑے گا۔ ہمارے ذرائع میں نگرانی کا کام کمزور ہے۔ مثال کے طور پر بعض اوقات ایک فلم بنائی جاتی ہے جس کا کوئی بھی موضوع دفاع مقدس اور مزاحمت کے ساتھ ہمآہنگ نہيں ہے؛ یا کوئی خبر شائع کی جاتی ہے جو ہمارے عسکری محاذ کی پوزیشن اور ہمارے سیاسی روابط کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ ذرائع کو بھی اپنی ابلاغی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہئے لیکن دوسری طرف سے ہمارے حساس مسائل کی طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی ذرائع ابلاغ میں اور ثقافتی مصنوعات میں جنگ اور مزاحمت اور ہمارا انقلاب، مظلوم ہیں۔ ہم 34 برسوں سے مقدس مزاحمت اور مقدس دفاع میں مصروف ہیں لیکن ہم اپنے عوام اور اپنے مجاہدین کی عظمتوں اور شجاعتوں و جوانمردیوں کی صحیح عکاسی نہیں کرسکے ہیں اور ان کی صحیح تصویر کشی نہیں کرسکے ہیں۔ شام میں بھی مزاحمت محاذ کو اسی مسئلے کا سامنا ہے گوکہ یہاں آٹھ سالہ دفاع کے سلسلے میں مظلومیت کچھ کم ہے لیکن شام کے حقائق سے حتی علاقے کے لوگ بھی باخبر نہيں ہیں۔ ............/٭۔٭