اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

23 جون 2013

7:30:00 PM
433259

ابنا کی استاد فاطمی نیا کے ساتھ خصوصی گفتگو

مہدویت کے بارے میں شبہات اور ان کے جوابات

ابنا کے نمائندوں نے ولادت با سعادت امام زمانہ علیہ السلام کی مناسبت سے حجۃ الاسلام و المسلمین سید استاد فاطمی نیا کے ساتھ مہدویت کے سلسلے میں پائے جانے والے چند شبہات کے سلسلے میں گفتگو کی ہے جو اپنے قارئین کے لیے پیش کرتے ہیں۔

ابنا: منجی عالم بشریت کے ظہور پر عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو تمام ادیان عالم کے اندر پایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ اہلسنت کی اکثریت بھی شیعوں کی طرح مہدویت کی معتقد ہے بعض لوگ اس سلسلے میں کچھ شبہات پیدا کرتے ہیں مثلا یہ کہ اہلسنت کی معتبر کتابوں جیسے صحیح بخاری میں مہدویت کے بارے میں کوئی حدیث بیان نہیں ہوئی ہے۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پہلی بات یہ ہے کہ ایسے بہت سارے مسائل اور حقائق  پائے جاتے ہیں جو صحیح بخاری میں ذکر نہیں ہوئے ہیں جبکہ دوسری معتبر کتابوں میں بیان ہوئے ہیں اور علمائے اہلسنت ان کتابوں کو بھی معتبر سمجھتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہی طے ہے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں بیان نہیں ہوا اس کا کوئی اعتبار نہیں تو علمائے اہلسنت کو بقیہ کتابیں ترک کر دینا چاہیے جبکہ ایسا نہیں ہے، وہ صحیح بخاری کے علاوہ دیگر پانچ کتابوں کوبھی معتبر قرار دیتے ہیں۔لہذا اگر صحیح بخاری میں مہدویت کے بارے میں حدیثیں بیان نہیں ہوئیں تو یہ بات عقیدہ مہدویت کو کمزور بنانے کی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے کہ دوسری صحیح اور معتبر کتابوں میں اس سلسلے میں کثرت سے روایات موجود ہیں۔ابنا: کیا یہ بات کہ جو چیز صحیح بخاری میں بیان نہیں ہوئی وہ معتبر نہیں ہے اہل سنت کے علماء کے درمیان بھی رائج ہے؟بخاری کے پاس حدیث کو کتاب ’’صحیح‘‘ میں نقل کرنے کا اپنا معیار تھا جو ان سے ہی مخصوص تھا اسے ’’ شرائط بخاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ بخاری میں حدیث ذکر نہ کرنے کی وجہ دو چیزیں تھیں:اول: وہ حدیثیں جو بخاری کے معیار اور ان کے شرائط کے مطابق نہیں تھیں۔دوم: وہ حدیثیں جو بخاری کے معیار اور شرائط کے مطابق صحیح تھی لیکن پھر بھی انہوں نے نقل نہیں کیا۔اسی وجہ سے حاکم نیشاپوری جو اہلسنت کے بزرگ علماء میں سے ہیں اور بہت زیادہ احترام کے حامل ہیں نے ’’ المستدرک علی الصحیحین‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ انہوں نے المستدرک میں ان روایات کی جمع آوری کی ہے جو بخاری اور مسلم کے معیار کے مطابق صحیح تھیں لیکن انہوں نے اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کیا۔ابنا: مہدویت کے بارے میں کسی ایسی حدیث کو بیان کریں جو مستدرک میں ذکر ہوئی ہے۔جی ہاں، حاکم نے ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ کی چوتھی جلد کے ۴۶۴ ویں صفحے پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ... ثم تطلع الرايات السود من قبل المشرق؛ ... إذا رأيتموه فبايعوه و لو حبواً علی الثلج فانه خليفة الله المهدي." ۔۔۔ اس کے بعد سیاہ علم مشرق کی طرف سے نمودار ہوں گے ۔۔۔ جب تم انہیں دیکھو تو ان کی بیعت کرو اگر چہ تمہیں سینہ کے بل برف پر چلنا پڑے اس لیے کہ وہ خلیفہ خدا مہدی ہیں۔حاکم نیشاپوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ حدیث بخاری اور مسلم کے معیاروں کے مطابق صحیح ہے۔یہ حدیث ایک نمونہ کے طورپر تھی جو مستدرک میں بیان ہوئی ہے ورنہ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں اس کتاب میں بہت ساری حدیثیں موجود ہیں۔ابنا: ابن خلدون نے بھی مہدویت کے بارے میں شبہات پیدا کئے ہیں اور اس سلسلے میں موجود روایات کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے شبہہ کا آپ کیسے جواب دیں گے؟۔ ابن خلدون نے اپنی کتاب ’’ مقدمہ‘‘ میں مسئلہ مہدویت کو بیان کر کے شبہات پیدا کئے ہیں کہ جو صرف شبہے ہیں ان پر کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں صرف اپنی دشمنی اور عناد کا اظہار کیا ہے لہذا علمائے اہل سنت نے ان کا جواب دے دیا ہے۔ابنا: اہلسنت کی طرف سے دئے گئے جوابات میں کوئی ایک نمونہ کے طور پر پیش کر سکتے ہیں؟جی ہاں، مصر کی یونیورسٹی کے استاد شیخ علی منصور ناصف نے ’’ جامع الاصول من احادیث الرسول (ص)‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے کہ جو صحاح ستہ کا مجموعہ ہے۔ وہ اس کتاب کی پانچویں جلد کے صفحہ نمبر ۳۴۱ پر لکھتے ہیں:  "و قد روی أحاديث المهدي جماعة من خيار الصحابة و أخرجها أكابر المحدثين كـ«ابي داود» و«الترمذي» و«ابن ماجة» و«الطبراني» و«أبي يعلی» و«البزاز» و«الإمام أحمد» و«الحاكم» رضي الله عنهم اجمعين و لقد اخطأ من ضعف احاديث المهدي كلها كـ«ابن خلدون» و غيره".’’ بتحقیق مہدی سے متعلق احادیث کو بزرگ صحابہ نے روایت کیا ہے اور بڑے بڑے محدثین جیسے ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی، ابو یعلی، براز، امام احمد بن حنبل اور حاکم نے انہیں استخراج کیا ہے لہذا ابن خلدون جیسوں کی یہ خطا تھی جو انہوں نے ان احادیث کو ضعیف بنانے کی کوشش کی۔بعض اہلسنت امام زمانہ (ع) کو امام حسن مجتبی(ع) کی نسل سے سمجھتے ہیں۔ کیا یہ شبہہ بھی قابل توجہ ہے؟نہیں، بعض اہلسنت کی کتابوں میں یہ تحریف ملتی ہے لیکن یہ اس بات کو بیان کرنے والی روایات ان روایات کے مقابلہ میں بہت کم اور تحریف شدہ ہیں جو امام زمانہ (ع) کو امام حسین علیہ السلام کی نسل سے بیان کرتی ہیں جو حد تواتر میں ہیں۔ابنا: اس شبہہ کی اصلی وجہ کیا ہے؟اس طرح کی تحریفات بعض کتابوں کو چھپواتے وقت وجود میں لائی گئی ہیں جیسے کتاب ’’ فتوحات مکیہ‘‘ تالیف ابن عربی کے چھپے ہوئے نسخے میں امام زمانہ (ع) کے بارے میں گفتگو کو ناقص بیان کیا ہے اور اس طرح کی تحریف کی گئی ہے جبکہ اس کتاب کے اصلی یعنی خطی نسخے میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی اور بزرگ علمائے اہلسنت نے بھی اس اصلی نسخے سے پوری بات کو نقل کیا ہے۔مثال کے طور پر عبد الوہاب بن احمد بن علی الحنفی شعرانی کہ جن کا سلسلہ نسب محمد حنفیہ سے ملتا ہے جو ایک فقیہ اور عارف شخص تھے اور ان کی بہت ساری تالیفات ہیں، ان کی ایک کتاب ہے الیواقیت و الجواھر‘‘ جو فتوحات مکیہ کا خلاصہ ہے۔ شعرانی کے پاس فتوحات مکیہ کا خطی نسخہ تھا اور انہوں نے امام زمانہ (ع) کے بارے میں اس کتاب سے نقل کیا ہے: " واعلمو انه لابد من خروج المهدي ـ علیه السلام ـ لکن لا یخرج حتی تمتلئ الأرض جوراً و ظلماً فیملؤها قسطاً و عدلاً، و لو لم یکن من الدنیا إلا یوم واحد طوّل الله تعالی ذلك الیوم حتی بلی ذلك الخلیفة و هو من عترة رسول الله صلی الله علیه و سلم من ولد فاطمة رضی الله عنها، جده الحسین بن علي بن ابي طالب و والده حسن العسکری ابن الإمام علی النقی (بالنون) ابن محمد التقی (بالتاء) ابن الإمام علي الرضا ابن الإمام موسی الکاظم ابن الإمام جعفر الصادق ابن الإمام محمد الباقر ابن الإمام زین العابدین ابن الإمام الحسین ابن الإمام علی بن ابی طالب رضی الله عنه".’’ جان لیں یقینا مھدی(ع) ظہور کریں گے ۔ لیکن وہ اس وقت تک ظہور نہیں کریں گے جب تک زمین ظلم و جور سے بھر نہیں جاتی، پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور اگر دنیا کا ایک دن باقی بچا ہو تو خدا اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا تاکہ یہ خلیفہ خدا ظہور کرے اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی نسل سے ہوں گے، فاطمہ زہرا کی اولاد میں سے ہوں گے اور ان کے جد حسین بن علی بن ابی طالب اور ان کے والد امام حسن العسکری بن امام علی النقی بن امام محمد التقی بن امام موسی الکاظم بن امام جعفر الصادق بن محمد الباقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہوں گے‘‘۔اس روایت میں انہوں نے کس قدر دقت کے ساتھ پورا شجرہ نسب آخر تک بیان کیا ہے۔ابنا: کوئی اور مورد بھی ایسا ہے؟جی ہاں، بعینہ یہی بات مصر کے عالم شیخ حسن العدوی الحمزاوی متوفیٰ ۱۱۳۳ ھ،ق نے کتاب مشارق الانوار کے صفحے ۱۸۷ میں فتوحات مکیہ سے نقل کیا ہے۔ لیکن توجہ رہے کہ کتاب مشارق الانوار جو مصر میں چھپی ہے وہ صحیح نہیں ہے( اس میں تحریف کی گئی ہے) یہ بات اس کتاب کے خطی نسخے میں موجود ہے۔

ابنا: اگر اجازت دیں تو کچھ مختصر سوالات اپنے نوجوانوں کی معلومات میں اضافہ کے لیے پیش کریں۔۔ جی پوچھیے۔ابنا: کیا امام زمانہ(ع) جزیرہ خضرا یا جسے مثلث برمودا بھی کہا جاتا ہے وہاں پر زندگی گزار رہے ہیں؟اس بات کی کوئی معتبر دلیل نہیں ہے۔ابنا: کیا امام زمانہ (ع) کے سپاہی صرف ۳۱۳ افراد ہی ہوں گے؟بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امام زمانہ (ع) کے ۳۱۳ مخصوص صحابی ہوں گے کہ جن میں سے ہر کوئی ایک خاص خصوصیت کا حامل ہو گا۔ابنا: کیوں روایات میں امام زمانہ (ع) کے قیام کو امام حسین (ع) کے قیام سے تشبیہ دی گئی ہے اور آپ کو امام حسین علیہ السلام کے قیام کو آگے بڑھانے والا کہا گیا ہے؟اس لیے کہ ان دونوں قیام کا مقصد حق کی سربلندی ہے اور دونوں کا کام علم کی نشر و اشاعت اور جہالت کی نابودی ہے۔ابنا: مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟اگر امام امام زمانہ (ع) کے بارے میں ہمارا مطالعہ دقیق اور عمیق ہو گا تو ہم آسانی سے جھوٹے دعویداروں کو پہچان لیں گے۔ علاوہ بر ایں، خداوند عالم بھی جھوٹوں کو رسوا کرتا ہے۔ابنا: عصر غیبت میں منتظرین (خاص طور پر جوانوں) کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟عصر غیبت میں منتظرین کی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کریں۔ خاص طور پر نوجوان جن کا باطن پاکیزہ ہو ہے اگر وہ اپنے فرائض پر عمل کریں گے تو یقینا نتیجہ خیز ہو گا۔ابنا: آپ کے نہایت شکرگزار ہیں جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔ آخر میں اگر کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے تو بیان کیجیے۔میں اپنے جوانوں سے یہ کہوں گا کہ عصر غیبت میں ہمارے جوان علمائے حق سے دور نہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۴۲