اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ :
پیر

27 مئی 2013

7:30:00 PM
423800

امریکہ اور شامی دہشتگرد

شام کے بارے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس

ابنا: شام میں بحران کے شدّت اختیار کرجانے اور اس ملک میں خانہ جنگی کے وسیع ہوجانے کے ساتھ ہی ، مغربی ممالک نے اپنے عرب اتحادیوں کو ساتھ لیکر شام میں سرگرم مسلح مخالفین کی بھرپور حمایت شروع کردی ہے ۔ اس درمیان فرانس ، برطانیہ اور امریکہ نے ترکی ، قطر اور سعودی عرب کے ہمراہ ملکر بظاہر دعوی کیا ہے کہ وہ شام کے بحران کے خاتمے کے لئے آمادہ ہیں ، لیکن ساتھ ہی ساتھ شام کے حکومت مخالفین کی مالی اور ہتھیاروں کی فراہمی اور جنگی تربیت دینے کے شعبوں میں بھرپور مدد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔قرائن و شواہد سے نشاندہی ہوتی ہے کہ یورپی یونین کے بعض ممالک خاصطور پر برطانیہ اور فرانس نے اپنے امریکی اور عرب اتحادیوں کے ہمراہ شام کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے سازش تیار کرلی ہے اور اس حوالے سے اپنا کام شروع کردیا ہے ، اور ان اقدامات کو مسلح دھشت گردوں کی ہر لحاظ سے مدد کرنے کے دائرے میں آگے بڑھا رہے ہیں ۔ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ دو ممالک یعنی برطانیہ و فرانس حالیہ مہینوں میں یورپی یونین کی جانے سے شام مخالف پر عائد ہتھیاروں کی پابندی کے باقاعدہ خاتمے کے خواہاں تھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک نے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اس حوالے اپنے دباؤ کو بڑھا ہوگا ۔ قابل ذکر ہے کہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اس قبل ہونے والے اجلاس میں شام کے حکومت مخالفین کو ہتھیاروں کی ترسیل کے جاری رکھے جانے پر مبنی برطانیہ اور فرانس کی تجویزوں کی اس یونین کے بعض دیگر ارکان نے مخالفت کی تھی ۔ شام کے حکومت مخالفین کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کے لئے یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس گذشتہ روز منعقد ہوا ، برطانیہ کے وزیر خارجہ ویلم ھیگ نے اس اجلاس کے انعقاد سے قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر شام کے حکومت مخالفین کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی کو منسوخ نہ کیئے جانے کے حوالے سے یورپی یونین کے ارکان میں اتفاق نہ ہوا تو اس یونین کا ہرایک ملک انفرادی اعتبار سے فیصلہ کرنے میں آزاد ہوگا ۔ اس اجلاس کے انعقاد کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یورپی یونین نے عملی طور پر شام کے حکومت مخالفین پر ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی اٹھالی ہے اور شام کی حکومت پر سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ برطانوی وزیر خارجہ ویلم ھیگ نے یورپی یونین کے بروسلز میں ہونے والے اجلاس کے اختتام پر شام کے حکومت مخالفین کے لئے ہتھیاروں کی پابندی کے اٹھائے جانے خبر دی ، اس درمیان برطانوی وزیر خارجہ نے دعوی کیا کہ لندن اس وقت شام کے مخالفین کو ہتھیار ارسال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ آسٹریا کے وزیر خارجہ مائیکل اشپینڈ لگر نے اس اجلاس کے بعد کہا کہ شام کے حکومت مخالفین کے لئے ہتھیاروں کی ترسیل کے حوالے یورپی یونین میں باہمی اتفاق کی کوشیشیں بے نتیجہ رہیں ہیں ، آسٹریا کے وزیر خارجہ نے شام کے مخالفین کو ہتھیاروں کی فراہمی پرمبنی برطانیہ اور فرانس کی درخواست کی شدید الفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ یورپی یونین اس بارے میں متفقہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ شام کے حکومت مخالفین کے لئے ہتھیاروں کی ترسیل کے حوالے سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ برطانیہ و فرانس ، شام کے متحدہ قومی محاذ کو مراعات دینے کے خواہاں ہیں ، جبکہ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ آسٹریا ، سوئیڈن اور جمہوریہ چک جیسے دوسرے ممالک اس کام کے شدید مخالف ہیں ۔ یورپی یونین کی جانب سے شام کے مخالفین کے لئے ہتھیاروں کی فراہمی پر سے پابندی کا اٹھایا جانا ایسے میں ہے کہ یہ یونین امریکہ کے ساتھ ملکر یہ دعوی کررہی ہے ، وہ جنیوا ٹو اجلاس کے انعقاد کے ذریعے شام کے بحران کے سیاسی راہ حل کی خواہاں ہے ۔ حقیقت امر یہ ہے کہ مغربی ممالک نے شام کے بحران کے آغاز سے ہی شام کے حکومت مخالفین کی حمایت کی ہے اور یہ ممالک شام کی قانونی حکومت کی سرنگونی کے خواہاں رہے ہیں اور یہی بات بحران شام کے سیاسی راہ حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔