اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ :
منگل

7 مئی 2013

7:30:00 PM
417158

مسئلہ فلسطین کےحل کےلئے چین کی کوششں

مشرق وسطی ميں ساز باز کےعمل کے احیاء کے لئے امریکی اقدامات کے بعد بحران فلسطین کے حل کے لئے نئی کوششیں شروع ہوگئي ہیں۔ اس تناظر میں گذشتہ چنددنوں کے دوران چین ، صیہونی وزيراعظم نتن یاھو اور فلسطینی صدر محمود عباس کامیزبان رہا ہے۔

ابنا: موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بحران فلسطین کےحل کے لئے چین کی ثالثی کرنے کی کوشش چار تجاویز پرمبنی سازباز منصوبے کے تناظر میں ہے جس پر علاقے کےصحافتی اور سیاسی حلقوں میں بڑے پیمانے پرردعمل سامنے آیا ہے۔اس سلسلے میں چین کے صدر شی جی پینگ نے فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس سے ملاقات میں چین کی چارنکاتی تجاویز پیش کیں اور ان تجاویز کو مشرق وسطی میں قیام امن کالازمہ قرار دیا۔انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں کےاندر واپسی ، بیت المقدس کو فلسطین کے دارالحکومت کے عنوان سے تسلیم کیاجانا، صیہونی کالونیوں کی تعمیر کا سلسلہ بند کرنا اور ایک دوسرے کی سیکورٹی، اور امن واستحکام کے تحفظ کے لئے طرفین کےدرمیان منظم تعاون اور امن کےمقابلے میں زمین کےمنصوبے پرمکمل عمل درآمد ، چینی صدر کا چار نکاتی منصوبہ ہے ۔چینی صدر کے چار نکاتی منصوبے پر ایک نگاہ ڈالنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ بنیادی طور پر بحران فلسطین کےحل کے لئے چین کی تجاویز کوئي نئی بات نہیں ہے اور درحقیقت چین کی تجاویزکا ایک بڑا حصہ بحران فلسطین کے حل کے لئے مختلف ساز باز منصوبوں کاچنیدہ حصہ ہے جو اب تک پیش کئے جاچکے ہیں۔بحران فلسطین کے لئے چین کی کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ چین مغربی حکومتوں اور علاقے کی ان عرب حکومتوں کےزیراثر سازشی اقدامات کےزيراثر آگیا ہے جو وہ  فلسطین کےسلسلے میں کر رہے ہیں سیاسی تجزیہ نگاروں اور فلسطینی رائے عامہ کا خیال ہے کہ بحران فلسطین کے لئے چین کامنصوبہ کوئي جامع منصوبہ نہيں ہے اور اس منصوبے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی مکمل بحالی کےلئے لازمی ظرفیت موجود نہیں ہے ۔ چین کےمنصوبے میں قابل غور نکتہ ، فلسطینی آوارہ وطنوں کی وطن واپسی اور فلسطینی قیدیوں کی آزادی کاکوئي ذکر نہيں ہے۔جبکہ چین کےمنصوبے میں فلسطینیوں کو یہ ہدایت کی گئي ہے کہ وہ غاصب صیہونی حکومت کی سیکورٹی کی کوشش کریں اس کا مطلب صیہونیوں کی جارحیت کےسامنے فلسطینیوں کوکسی بھی طرح کی استقامت سےروکنا ہے۔دوموضوع یعنی بیت المقدس کوفلسطینیوں کے دارالحکومت کےطور پر تسلیم کرنا اور فسلطینی علاقوں میں صیہونی حکومت کی کالونیوں کی تعمیر کےعلاوہ چین کی تجاویز کا اہم حصہ صرف صیہونیوں کےمفادات کےحصول اور علاقے میں اس غاصب حکومت کوقانونی حیثیت دینے پرمبنی ہے۔بحران فلسطین کےحل کےلئے ایک جامع اور آزاد منصوبے کی ضرورت ہے جس میں فلسطینی عوام کےتمام مفادات کالحاظ کیا گیا ہو ۔اس سلسلے میں توقع ہے کہ چین کوایک عالمی طاقت کی حیثیت سے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن بھی ہے، مشرق وسطی کےعلاقے کے معاملات میں  فلسطینی عوام کے حقوق کے اثبات کےلئے مثبت اورآزاد کردار ادا کرناچاہئے کہ جس میں بیجنگ حکام کی کامیابی کی صورت میں چین کی علاقائی اورعالمی پوزیشن مضبوط ہونے کی زمین ہموار ہوگي ۔

.....

/169