اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
جمعرات

28 مارچ 2013

7:30:00 PM
403933

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکریٹری سیاسیات کے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو

الیکشن کے حوالے سے اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری سیاسیات کا کہنا تھا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کے اندر اہل تشیع اور اہل سنت کا وہ مشترکہ اتحاد وجود میں آئے، جس کے نتیجہ میں پاکستان میں موجود وہ تمام لوگ جو وطن عزیز کے لئے اپنا اچھا اور مثبت کردار ادا کرسکیں، ان لوگوں کو فعال کیا جائے۔ سنی تحریک اور صاحبزادہ فضل کریم صاحب اس حوالے سے بہت اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

سید ناصر عباس شیرازی اس وقت مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکریٹری سیاسیات ہیں، انہیں اس عہدے پر کام کرتے ہوئے فقط تین ماہ ہوئے ہیں لیکن دن رات کی انتھک محنت اور مسلسل جدوجہد کی بدولت آج ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں ایم ڈبلیو ایم سے سیاسی اتحاد کرنا چاہتی ہیں۔ اس وقت الیکشن قریب ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ اسلام ٹائمز نے ناصر عباس شیرازی سے عملی سیاسی میں حصہ لینے اور عام انتخابات میں کس کس سے سیاسی اتحاد ہوسکتا ہے، کے بارے میں جاننے کیلئے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔اسلام ٹائمز: اس وقت آپ کی انتخابی حکمت عملی کیا ہے اور الیکشن میں کتنے امیدوار کھڑے کرنے جا رہے ہیں۔؟ناصر عباس شیرازی: اس وقت چونکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کاغذات جمع کروانے کی ڈیڈ لائن آچکی ہے اور ہمارے پاس محدود وقت ہے، لہٰذا ہم تمام دوسری سرگرمیوں کو چھوڑ کر ممبران کے کاغذات اور ان کی جانچ پڑتال کے مرحلے میں سے گزر رہے ہیں۔ اس وقت تک جو میرے پاس معلومات موجود ہیں، ان کے مطابق پنجاب سے تقریباً 100 امیدوار ہمارا ٹکٹ لے چکے ہیں۔ آئندہ دو دنوں میں پاکستان کے دیگر علاقے کوئٹہ، کراچی و گلگت بلتستان میں یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ ہم پورے پاکستان سے اپنے امیدوار کھڑے کر رہے ہیں اور مجلس وحدت مسلمین انتخابات میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ ہم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ ملک سے 70 امیدوار کھڑے کریں گے، لیکن اب ان کی تعداد بڑھ گئی ہے اور تقریباً 100 امیدوار ہیں، جو ہمارے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کی کس سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ بات چل رہی ہے۔؟ناصر عباس شیرازی: ہم نے کچھ اصول وضع کیے ہوئے ہیں اور ان میں سے بنیادی ترین پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کا جو بھی ساتھ دیتا ہے اور حتیٰ کہ جو دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو پاکستان میں کھلے عام کارروائی کا موقع ملتا ہے۔ اسی طرح ہم اس گروہ کو جو پاکستان میں بیرونی ممالک کے مفادات کے لیے کام کرتا ہے، ایسے لوگوں کو ہم سیاسی طور پر شکست دیں گے۔ ہم پاکستان میں دہشت گردوں کو تنہا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا بنیادی ہدف بھی یہی ہے کہ دہشت گرد سیاسی طریقے سے پارلیمنٹ میں نہ جا سکیں۔ پس اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کسی بھی سیاسی پارٹی سے الائنس کرسکتے ہیں، سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ جو جماعتیں بھی دہشت گردوں کی مخالف ہیں، ہم ان کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ ہماری کسی خاص جماعت کے ساتھ عملی طور پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی۔اسلام ٹائمز:سنی اتحاد کونسل کے ساتھ سیاسی اتحاد کی بات چیت چل رہی تھی، اس حوالے سے بات کہاں تک پہنچی۔؟ناصر عباس شیرازی: اس وقت ہمارے لیے کوئی بھی چیز واضح نہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کے اندر اہل تشیع اور اہل سنت کا وہ مشترکہ اتحاد وجود میں آئے، جس کے نتیجہ میں پاکستان میں موجود وہ تمام لوگ جو وطن عزیز کے لئے اپنا اچھا اور مثبت کردار ادا کرسکیں، ان لوگوں کو فعال کیا جائے۔ سنی تحریک اور صاحبزادہ فضل کریم صاحب اس حوالے سے بہت اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس اتحاد سے دہشت گردوں کو ایک کاری ضرب لگے گی۔ پس ہماری خواہش ہے کہ اس پر مزید کام کیا جائے۔ عملی طور پر سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان اور اسلام دشمن کے لیے یہ سرزمین تنگ کر دی جائے اور محب وطن قوتوں کے کام کرنے کے امکانات بڑھتے جائیں۔اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم اپنا سیاسی منشور کب تک پیش کرے گی۔؟ناصر عباس شیرازی: ہم 7 اپریل سے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے جا رہے ہیں، اس کے بعد انشاءاللہ ہم اپنا منشور بھی پیش کر دیں گے۔ اس پر کام جاری ہے۔اسلام ٹائمز: متحدہ دینی محاذ نے اپنے منشور میں صدر مملکت سے لے کر تمام ادارے اور ان کے سربراہان و چاروں صوبائی وزرائے اعلٰی اور عہدیداروں کیلئے سنی العقیدہ ہونا لازمی قرار دیا ہے۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟ناصر عباس شیرازی: میرا ایک سوال ہے کہ کیا ملک میں غیر ملکی اشاروں پر کام کرنے والی قوتوں اور دہشت گردوں کو روکا جانا چاہیے یا پھر اس بندے کے عقیدے پر اسٹینڈ لینا چاہیے۔؟ بدقسمتی سے انہوں نے عقیدے پر اسٹینڈ لیا ہے جبکہ غیر ملکی اشاروں پر کام کرنے والوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ایشو کو غیر ایشو بنایا جا رہا ہے اور غیر ایشو کو جان بوجھ کر ایشو بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ پاکستان میں جتنے بھی مکاتب فکر ہیں، اگر وہ مسلمان ہیں تو کوئی بھی اعلٰی عہدوں پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے پالتو، عربوں کے پالتو ایجنٹ، ان اداروں کے سربراہ بن جائیں، لیکن سنی عقیدے کے علاوہ کوئی اور عقیدہ رکھنے والے لوگ سربراہ نہ بن سکیں۔ یہ طالبانی سوچ ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ لفظ سنی پر اہل سنت نے خود بڑا شدید احتجاج کیا ہے۔ ان دہشت گردوں کا سنی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اس لفظ سنی کی بھی حرمت اور استحصال ہے۔اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم نے بہت سی جگہوں پر سیاسی جلسوں کا اعلان کیا ہے، حیدرآباد میں کامیاب جلسہ ہوا۔ آگے کی کیا حکمت عملی ہوگی۔؟ناصر عباس شیرازی: حیدرآباد کے جلسے نے سندھ کے اندر وڈیرا شاہی کو للکارا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین میں وڈیرے نہیں، سرمایہ دار نہیں، یہ غریب پارٹی ہے کہ جس نے ملک میں اتنا بڑا جلسہ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ لوگ اپنے موجودہ نظام سے تنگ ہیں اور لوگ اپنے موجودہ حکمرانوں سے بھی باغی ہیں۔ لوگ مجلس وحدت مسلمین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کے ساتھ جانے کو تیار ہیں۔ یہ باتیں سندھ کی سیاست کے لیے نیک شگون ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے لیے بھی ایک بہت اچھی فضاء بنی ہے اور لوگوں نے بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اکیس اپریل کو کراچی کے نشتر پارک میں جبکہ 31 اپریل کو ملتان کی سرزمین پر اور اسی طرح پھر بھکر اور آخر میں پھر مینار پاکستان میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوگا۔ یہ جلسے سیاسی حوالے سے بہت اہم ہیں۔ ہم عوامی بیداری اور تحرک کو انشاءاللہ آگے بڑھائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔/242