اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

28 جون 2011

7:30:00 PM
250502

امام خامنہ ای: بعثت، ایک نئے انسان کی تعمیر کا پیغام ہے

وحی کی باتیں انسان کو زندگي، کیف و نشاط اور بیداری و آگہی عطا کرتی ہیں، وحی کی باتیں، معرفت کا چراغ ہیں جو انسان کو خالص حقائق سےآشنا بنا دیتی ہیں۔ ہر عہد اور ہر زمانے کا انسان اس جاوداں نور سے روشنی حاصل کر کے، اپنے اندر معنویت کی نئی جوت جگا سکتا ہے اور پھر ترقی و کمال کی اعلیٰ معراج طے کر سکتا ہے۔

رجب المرجب27 کو ہجرت سے 13 سال قبل، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت، شرک، ناانصافی، نسلی قومی و لسانی امتیازات، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنی میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کواز سر نو زندہ و تابندہ کر کے عالم بشریت کو توحید، معنویت، عدل و انصاف اورعزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ ”خبر دار ! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کواس کا شریک قرار نہ دینا تا کہ تم نجات و فلاح حاصل پاسکو“۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اورلوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت جودر حقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کے پھلے پھولنے کا دور ہے، آپ سب کو مبارک ہو۔ آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پرامن پیغامات اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے۔اس گفتگو میں، ہم اسی موضوع کا جائزہ لیناچاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پیغمبر اسلام کی بعثت آج کے انسانوں کےلئے کن پیغامات کی حامل ہے۔ اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ختمی مرتبت محمد مصطفیٰ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسانوں کو کس چیز کی دعوت دی ہے؟ دراصل انسان کے یہاں بعض خواہشیں اور فطری میلانات موجود ہیں، یہ فطری میلانات خود انسان کے وجود میں ودیعت ہوئے ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر اچھائيوں کی طرف رغبت اور پسند، تحقیق و جستجو کا جذبہ یا اولاد سے محبت وہ انسانی خصوصیات ہیں جن کو اس کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ظاہر ہے دنیا میں آنے والا ہر وہ انسان کہ جس نے فطرت کی آواز پر لبیک کہی ہو حقیقی اور زندہ جاوید انسان بن جائےگا کیونکہ یہ وجود انسانی خواہشات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت، انسان کی فطری ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے اوراس نے ایمان و معرفت، آگہی و بیداری اور برادری و انسان دوستی کے چراغ روشن کئے ہیں۔ لہذا رسول خدا (ص) کی بعثت کا دن انسانی زندگي میں ایک عظيم انقلاب اور تجدید حیات شمار ہوتا ہے۔ وہ انقلاب جو آپ (ص) نے بر پا کیا ہے انسان کو خود اپنے اور اپنے برے اعمال کے خلاف جدوجہد پرآمادہ کرتا ہے اور جو بھی رسول خدا  (ص) کے روشنی بخش پیغامات کو سنتا ہے اپنی اورکائنات کی حقیقی شناخت حاصل کرلیتا ہے اور پھر خود کو ہی عدل و انصاف کی عدالت میں کھڑا پا کر اپنے وجود میں ایک نئے انسان کی تعمیر پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ خصوصیات صرف مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں کہ وہ آدمی کو ایک خالص مادی اور دنیوی سانچے سے نکال کر سچائی اورانصاف کی معنوی دنیا تک پہنچا دیتا ہے اور ایک نفس پرست کوانصاف پسند نیکوکار انسان میں تبدیل کردیتا ہے۔ مذہب انسان کی حیات کے لامتناہی چشمے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اوروحانی و معنوی دنیا کی باتیں اس کے دل و جان میں جگہ بنالیتی ہیں۔ وحی کی باتیں انسان کو زندگي، کیف و نشاط اور بیداری و آگہی عطا کرتی ہیں، وحی کی باتیں، معرفت کا چراغ ہیں جو انسان کو خالص حقائق سےآشنا بنا دیتی ہیں۔ ہر عہد اور ہر زمانے کا انسان اس جاوداں نور سے روشنی حاصل کر کے، اپنے اندر معنویت کی نئی جوت جگا سکتا ہے اور پھر ترقی و کمال کی اعلیٰ معراج طے کر سکتا ہے۔ قرآن کریم میں انبیاء(ع) کی بعثت کا فلسفہ، انسان کی تعلیم و تربیت، عدل و انصاف کے قیام، تاریکیوں سے رہائی اور جبر و استبداد سے انسان کو آزادی دلانا بتایا گیا ہے۔ سورۂ انفال کی 24 ویں آيت میں بھی بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گيا ہے جو معاشروں کو ترقی عطا کر کے تقاضوں کی تکمیل کی راہ دکھاتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے اے ایمان لانے والو ! خدا اور اس کے پیغمبر (ص) کی دعوت پر لبیک کہو وہ جب بھی تم کو اس پیغام کی طرف بلائیں جو تمہارے لئے سرچشمۂ حیات ہے۔ بعض لوگ تصور کرتے ہیں کہ جہالت، تاریخ کے محض کسی خاص دور کے مخصوص ہے اور اس کو دور جہالت کا نام دیا گيا ہے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جس میں انسان، انسانیت کی حدوں سے دور ہوجاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے وہ جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتا ہے اور دنیا اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوئی ہو۔ اس وقت بھی، دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور افغانستان و عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جو المیہ بپا کیا ہے کیا اس کو عصر حاضر کے انسان کی جہالت، خود غرضي اور وحی پن کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اور آيا وہ مظالم جو فلسطین کے مظلوم عوام اور بچوں پر ڈھائے جارہے ہیں انسانی علم و تمدن کا ثمرہ کہلا سکتے ہیں؟ یا اس کے جہل اور اقتدار طلبی کا نتیجہ ہیں!! بلاشبہ دنیا کو انسانیت و معرفت کے دائرے میں ایک نئے انقلاب اور تبدیلی کی ضرورت ہے، وہ انقلاب جو 1400 سال قبل، خدا کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شروع کیا تھا اور جس کے راہنما پیغامات آج بھی اضطراب و بے چینی کے شکار انسان کو عدل و انصاف اوراخلاق کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ (ص) کے پیغامات میں ہمیشہ زندگي اور تازگي موجود رہی ہے۔ ایک مسلمان عالم و دانشور کے بقول : جس طرح ایک درخت کے لئے پہلے انسان کسی مناسب زمین پر بیج ڈالتا ہے اور پھر پودا ٹہنیوں اور پتیوں میں تبدیل ہو کر جب بڑھتا ہے تو پھول اور پھل وجود میں آتے ہیں اور اس میں ویسے ہی دانے اگتے ہیں کہ جیسے بیج کی صورت میں انسان نے زمین کے حوالے کئے تھے۔ اسی شکل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغام کا ایک دائرہ ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ہمیشہ اس سے پھول اور پھل اگتے رہتے ہیں۔ بہر حال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ بعثت ہر سال اس اہم حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ اسی روز سے اپنے اندر ایک دوسرے انسان کی تعمیر شروع کردے اور عشق خدا و رسول (ص) کی روشنی میں سچائی اور معنویت کی راہ پر قدم بڑھانے کے لئے تیار ہو جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔/110