اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اسلام ٹائمز
ہفتہ

2 اپریل 2011

7:30:00 PM
234486

مرزا اسلم بیگ: ایران ناقابل شکست؛ بحرین میں پڑوسیوں کی مداخلت سوچی سمجھی سازش

پاکستان کے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے کہ ایران ناقابل شکست ہے اور بحرین میں مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے فوجی مداخلت انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے / پڑوسیوں کی مداخلت سوچی سمجھی سازش ہے۔

سابق چیف آف آرمی اسٹاف مرزا سلم بیگ نے کہا ہے کہ پڑوسی ممالک کی بحرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مفاد پرست طاقتوں کی ایما پر کرائی گئی ہے، تاکہ سنی اور شیعہ ممالک کو آپس میں لڑا کر عالم اسلام کی طاقت کو پارہ پارہ کیا جا سکے، یہی وہ نیا سازشی کھیل ہے جو مسلم امہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے شروع ہو چکا ہے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، قومی اور بین الاقوامی سیاست پر ان کے بے لاگ اور جاندار تبصرے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے ملکی اور بین الاقوامی صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو لیا ہے، جو قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش خدمت ہے۔ اسلام ٹائمز:جنرل صاحب پاکستان کو بنے تریسٹھ سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن قوم ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائی کہ قائد کا ویژن کیا تھا، لوگوں کو کنفیوز کیا جا رہا ہے، آیا پاکستان کے قیام کا مقصد ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا یا اسلامی فلاحی ریاست بنانا مقصود تھا۔؟ مرزا اسلم بیگ:پاکستانی قوم کا سب سے بڑا المیہ قول و فعل کا تضاد ہے۔ ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن اکثر مسلمان نہیں کیونکہ ستر فیصد سے زیادہ پاکستانی نہ قرآن پڑھ سکتے ہیں اور نہ نماز پڑھنا جانتے ہیں اور انہیں میں سے اکثر لوگ جب حکمران بنتے ہیں اور اہم عہدوں پر فائض ہوتے ہیں تو ان کے عمل و کردار کا رخ اسلامی جمہوری پاکستان کی سوچ سے مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں سیکولرزم کا پرچار ہو رہا ہے، قومی قدریں پامال ہو رہی ہیں اور ہر طرح کی برائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہم یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے جبکہ قلعے کے نیچے سے زمین کھسکتی جا رہی ہے اور قلعے کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ یہ بڑی خطرناک صورت حال ہے۔ پاکستان کا آئین قوم کے "نظریہ حیات" کا تعین کرتا ہے۔ جس کی تشریح یوں ہے:”ایک جمہوری نظام کا قیام جس کی بنیادیں قرآن و سنہ کے اصولوں پر قائم ہوں۔“ یہ”نظریہ حیات“ پاکستانی قوم کی فکری، سیاسی، معاشرتی، نظریاتی اور عملی زندگی کا تعین کرتا ہے۔ اس کے دو اہم اجزاء ہیں۔ ایک ہے ” طرز حکومت“ جو موجودہ دور کے جمہوری طرز حکومت سے عبارت ہے اور دوسرا ”اسلامی نظریہ“ ہے جو اس جمہوری نظام کے عدل و انصاف، اخلاقیات اور قومی معاملات کے تقاضے پورا کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے قائداعظم نے 22 اکتوبر 1939ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے اپنے ایمان و عقیدہ اور نظریات کا واضح اعلان کیا: ”مسلمانو؛ میں نے بہت کچھ دیکھا ہے، دولت، شہرت اور آرام و راحت کے بہت لطف اٹھائے، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سر بلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کے میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا حق ادا کر دیا۔ میں آپ سے اس کی داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا اپنا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا اور میرا خدا یہ کہے کہ جناح بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے، مسلمان جئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے علم کو بلند رکھتے ہوئے مرے۔" قائد کے اس خطاب سے واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا، اب بھی کسی شخص کا ذہن قائد کے ویژن کے حوالے سے کلیئر نہیں تو وہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ اسلام ٹائمز:جنرل صاحب گروہی تقسیم اور دہشتگردی کے اصل اسباب کیا سمجھتے ہیں اور اس کے پیچھے کیا سوچ کار فرما ہے۔؟ مرزا اسلم بیگ:جی گروہی تقسیم نہ صرف ماضی میں مسلم ممالک میں اندرونی تصادم کا بڑا سبب رہی ہے بلکہ آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ خصوصاً گذشتہ تیس سالوں سے بیرونی قوتوں نے ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس لعنت کے اثرات سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں افغانستان، عراق، ایران، فلسطین، لبنان اور پاکستان سرفہرست ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں بحرین اس تصادم کا شکار ہوا ہے، جہاں عالمی طاقتوں نے سازشوں کا ایک نیا کھیل شروع کر دیا ہے۔ وہ کھیل کیا ہے، اسے سمجھنا ضروری ہے۔ اگر اس مسئلے کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو آپ پر عیاں ہو گا کہ باقاعدہ ایک سازشی منصوبے کے تحت، دو مرکزی طاقتوں، یعنی پختون پاور اور شیعہ پاور کے درمیان تصادم کے ذریعے مسلم امہ کو کمزور کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے، جس کے سبب پورے ایشیا میں سلامتی کے حوالے سے نئے خدوخال مرتب ہو رہے ہیں اور اس خطے پر اپنی عملداری قائم کرنے کی غرض سے عالمی طاقتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے نئے سازشی کھیل میں مصروف ہیں۔ اس طرح یہ خطہ عالمی طاقتوں کے مابین مفادات کے تحفظ کی وسیع تجربہ گاہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ان دو طاقتوں یعنی پختون پاور اور شیعہ پاور کو بجا طور پر (Sectarian Tectonic Plates) کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے جو اگر باہمی رابطے اور تعاون کی راہ اختیار کریں تو عالم اسلام کیلئے امن وبھائی چارے کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ اور اگر انہیں آپس میں ٹکرا دیا گیا تو بڑی تباہی آئے گی اور اسلامی دنیا کا اتحاد ناممکن ہو جائے گا، اور یہی ان سازشوں کا مقصد ہے جن پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ شیعہ اور سنی اختلافات غیرملکی جارحیت، ریاستی دہشت گردی اور سازشوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں، مثلاً 1980ء میں افغانستان پر روسی جارحیت اور قبضہ 1980ء سے 1988ء تک افغانوں کی روس کے خلاف آٹھ سالہ جنگ آزادی، ایران اور عراق کے مابین 1980ء سے 1988ء تک لڑی جانے والی خونیں جنگ 1991ء کی پہلی خلیجی جنگ، 1992ء سے 2001ء تک افغانستان کی خانہ جنگی، امریکہ اور اتحادیوں کا افغانستان پر قبضہ، 2003ء میں عراق کے خلاف امریکہ کی جارحیت اور قبضہ 2006ء میں لبنان کے خلاف اسرائیل کی جنگ اور فلسطین و کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی اور ظالمانہ جنگیں ہیں جن کے سبب ساٹھ لاکھ سے زائد معصوم مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا جبکہ لاکھوں زخمی و معذور کر دیے گئے ہیں۔ گذشتہ تیس سالوں سے جاری عالمی طاقتوں کی انہی ناانصافیوں، ظالمانہ جنگوں اور ریاستی دہشت گردیوں کو لگام دینے کیلئے مشیعت ایزدی نے اسلامی مدافعتی قوت پیدا کی، جس کے سبب یہ دو طاقتیں وجود میں آئی ہیں۔ اسلام ٹائمز:جنرل صاحب آپ نے دو مرکزی طاقتوں، یعنی پختون پاور اور شیعہ پاور سے متعلق بات کی، آپ کی اس سے کیا مراد ہے اور ان دونوں طاقتوں کی سرحدیں کہا تک ہیں۔؟ جنرل اسلم بیگ:جی پختون پاور کا اکثریتی مرکز پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ پختون آبادی والے علاقے ہیں جن میں 42 ملین پاکستانی اور 71 ملین افغانی پختون آباد ہیں۔ اس کے اثرو رسوخ کا دائرہ کراچی سے کوہ ہندوکش تک پھیلا ہوا ہے۔ صرف کراچی میں چالیس لاکھ پختون آباد ہیں۔ یہ طاقت ”اسلامی مزاحمتی قوت“ کا مرکزی جز ہے جو اب تک ناقابل شکست ہے۔ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور پوری دنیا اس کی پہنچ میں ہے کیونکہ ”اسے دنیا کے ستر ممالک کے جہادیوں کی حمایت حاصل ہے۔“ گذشتہ تیس سالوں کے عرصے میں اسی طاقت نے دنیا کی دو سپر طاقتوں اور NATO کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ سابق امریکی صدر کے سکیورٹی کے مشیر ڈیوڈ کیلکولن (David Kilkullen)کے بقول ”پختون پاور کو ختم کرنا بڑا ضروری ہے کیونکہ خطے میں امریکی عزائم کیلئے یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔“ شیعہ پاور کے مراکز ایران، عراق اور بحرین ہیں۔ جس کا پھیلاﺅ لبنان، سعودی عرب، افغانستان اور پاکستان تک ہے۔ جہاں شیعہ اقلیت آباد ہے۔ ایران اور عراق کی جنگ (1980-88) کا بنیادی مقصد شیعہ اور سنی مسلمانوں میں تفریق اور نفرت پیدا کر کے عالم اسلام کی طاقت کو متحد ہونے سے روکنا تھا۔ عراق پر تو مغربی طاقتوں نے قبضہ کر لیا لیکن ایران ابھی تک ناقابل شکست ہے جسے پڑوسی سنی ممالک کیلئے مستقل خطرے کی علامت بنا کرپیش کیا جا رہا ہے، تاکہ مسلمان ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی خلیج کو وسیع کیا جاسکے۔ دوسری طرف گذشتہ سات سالوں کے دوران مغربی ممالک نے سنی ممالک کو 51 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا فوجی ساز و سامان فروخت کیا ہے۔ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب، مصر، اردن اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک شامل ہیں جو اسلحہ خرید کر نام نہاد "شیعہ پاور" کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے تیاری کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز:جنرل صاحب بحرین کی تازہ صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس وقت بحرین میں عوام کی اکثریت جو ایک جابر سلطان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں لیکن دوسری جانب سعودی عرب نے اپنی فوجیں وہاں اتار دیں ہیں کیا یہ دوسرے ملک میں مداخلت نہیں۔؟ جنرل ریٹائرد اسلم بیگ:بحرین میں شیعہ آبادی اکثریت میں ہے جن پر سنی اقلیت کی حکمرانی ہے۔ بحرین کی حفاظت کیلئے سعودی عرب کی زیرقیادت خلیجی فوج کے دستے بھیجے جا چکے ہیں جو بحرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ ایران نے اس عمل کو ”قابض فوجوں کی جارحیت “ کا نام دیا ہے جبکہ امریکہ نے اس معاملے پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ”بیرونی فوجوں کا داخلہ جارحیت نہیں ہے۔“ بحرین میں شیعہ اکثریت کی زیرقیادت احتجاج کرنے والوں کا مقصد دو سو سال سے قائم سنی حکمرانی کے دور کا خاتمہ کرنا ہے جبکہ پڑوسی ممالک کی بحرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مفاد پرست طاقتوں کی ایما پر کرائی گئی ہے، تاکہ سنی اور شیعہ ممالک کو آپس میں لڑا کر عالم اسلام کی طاقت کو پارہ پارہ کیا جا سکے۔ کیونکہ گذشتہ تیس سالوں سے عراق اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات گروہی سطح تک محدود رہے ہیں” لیکن اب شیعہ اور سنی قوموں کو باہم لڑانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔“ یہی وہ نیا سازشی کھیل ہے جو مسلم امہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے شروع ہو چکا ہے۔ اسلام ٹائمز:جنرل صاحب پاکستان میں غیرملکی مداخلت کس حد تک ہے۔ دوسرا یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشگردی کے نام پر پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کی گئی ہے آپ کے مطابق یہ پرسپشن کس حد تک درست ہے۔؟ ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ:پاکستان اور افغانستان میں کارفرما امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں، افغانستان میں موجود بھارتی اور یورپی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ملی بھگت سے جنگ کو پاکستان کی جانب دھکیلنے میں کامیاب ہوئی ہیں جس کے سبب 2005ء سے پاکستانی فوج اپنے ہی قبائلیوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکی اور اتحادی فوجوں کی مدد کیلئے ایک لاکھ کے قریب اضافی فوج پاک افغان سرحد پر متعین کر رکھی ہے۔ اس طرح ”پاکستان نادانستہ طور پر پختون پاور کو تباہ کرنے کے جرم کا حصہ بن چکا ہے“ جو ایک سنگین غلطی ہے۔ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ اس کی آڑ میں سازشی قوتوں کا خطے میں اپنی برتری قائم کرنے کیلئے ایک خطرناک کھیل کا حصہ بن جانا ہے۔ پخ