اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

12 دسمبر 2024

10:38:26 AM
1513213

شام پر صہیونی-ترکی-امریکی یلغار؛

استاد معظم آیت اللہ العظمیٰ امام خامنہ ای سے چند نکتے مقاومت اور شام کے بارے میں

"استاد نے فرمایا: یہ تو یہ کام معقول تھا، نہ ہی رائے عامہ اسے قبول کرتی ہے کہ ایک فوج یہاں سے اٹھ کر چلی جائے اور ان کی فوج کی جگہ لڑے"۔ / محاذ حق بین الاقوامی قواعد اور رائے عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے، اور اپنے مقصد اور موقف کو آگے بڑھاتا ہے۔ دیکھئے کہ کیا آپ بھی ان روشوں کو سمجھتے تھے آج تک؟

  اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا |  

عزیز دوستو!

"تبیین" یہ ہے کہ جو کچھ واقع ہؤا ہے اور کوشش ہو رہی ہے کہ آنکھوں سے اوجھل رہے، اس کو جہاں تک ہم دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں، بیان کریں۔

تو اگر آپ نے جنگ کی خرابیوں اور جرائم وغیرہ کو ـ جو دوسرے بھی بیان کرتے ہیں ـ بیان کیا ـ جو کہ امور کی ظاہری صورت ہے ـ اور قصے کے خفیہ پہلؤوں، گہرائیوں اور "باطنِ امور" اور دو محاذوں کی حکمت عملیوں پر بحث سے گریز کیا تو آپ نے جہاد تبین میں کردار ادا نہیں کیا ہے۔ تلاش و جستجو کریں اور خفیہ اور ان کہے پہلؤوں کو بیان کریں، اس کے لئے آپ کو گہرے، وسیع اور تزویراتی زاویۂ نگاہ کی ضرورت ہے، مشق کریں، محنت کریں اور اس زاویۂ نگاہ کو حاصل کریں۔

میرے بھائیو!

جو کچھ شام میں ہؤا "جو کچھ شام میں وقوع پذیر ہؤا ہے، مشترکہ امریکی ـ صہیونی منصوبے کا نتیجہ ہے"، ہمیں اپنے اندر پس پردہ ہاتھ کی شناخت کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ دیکھئے رہبر انقلاب اسلامی نے اس نکتے کے اثبات کے لئے ان ہی معلومات کی طرف توجہ دلائی جو ہم سب کے آنکھوں کے سامنے بھی تھیں، نہ کہ میدان میں کسی خفیہ نکتے کی طرف۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم میدان [یعنی جنگ اور اس کی جہتوں، مقاصد اور حکمتوں] کو نہیں سمجھتے، اور ذمہ دار حکام اور کمانڈرز بھی ہمیں نہیں بتاتے، وہ آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

پیارے دوستو!

جس شخص نے "وجودی جنگ" کا ایک لفظ رہبر معظم سے سن لیا ہے اور اس پر ظاہر بینانہ تجزیوں کا سہارا لیتا ہے؛ غائرانہ نگاہ سے دیکھ لے:

"محاذ مقاومت"

محاذ مقاومت ایک سخت آلہ (اور ہارڈویئر) نہیں ہے جو ٹوٹ جاتا ہے یا ڈھا جائے کا نابود ہوجائے۔ مقاومت ایک ایمان ہے، ایک تفکر ہے، ایک قلبی اور حتمی عزم و ارادہ ہے، مقاومت ایک مکتب ہے، ایک اعتقادی مکتب ہے۔ جو چیز کچھ لوگوں کے ایمان کو تشکیل دیتی ہے ـ وہ ایک معاہداتی قضیہ نہیں ہے، کہ میں کہہ دوں کہ یہ لوگوں کا ایمان کیوں ہے ـ یہ ایمان و اعتقاد دباؤ آنے سے نہ صرف کمزور نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے"۔

محاذ حق کے بارے میں وجود ی جنگ کا ادراک کرنے کے لئے محاذ حق کے سلسلے میں گہری نگاہ کا محتاج ہے۔ اگر آپ اسے نہیں سمجھیں کے تو نہیں سمجھ سکیں گے کہ محاذ حق کے لئے وجودی خطرہ کیا ہے؟ اگر آپ کی سمجھ میں کوئی چیز آئی ہے تو دیکھ لیں کہ کہ کیا یہ آپ کے تخیلات نہیں ہيں؟

ہر نقصان اور ہر ثلمہ [اور دراڑ] "وجودی خطرہ" نہیں کہلاتا۔ مغربی گنتارے (abacus)ں کے ذریعے حق کی حقیقت کا حساب و کتاب نہیں کیا جا سکتا۔

میرے بھائیو!

ایران کے لڑنے کی روش سیکھ لیجئے:

"یہ تو یہ کام معقول تھا، نہ ہی رائے عامہ اسے قبول کرتی ہے کہ ایک فوج یہاں سے اٹھ کر چلی جائے اور ان کی فوج کی جگہ لڑے"۔

محاذ حق بین الاقوامی قواعد اور رائے عامہ کو ملحوظ رکھتا ہے، اور اپنے مقصد اور موقف کو آگے بڑھاتا ہے۔ دیکھئے کہ کیا آپ بھی ان روشوں کو سمجھتے تھے آج تک؟

عزیزو!

مقاومت کا اصل رویہ اور نقطۂ نظر یہی عوامی نشوونما، بالیدگی اور عوام کا حرکت میں آنا ہے۔ شام کے معاملے میں اہم ترین مشکل یہی تھی کہ حکومت نے عوامی رضاکار فورس کو تحلیل کر دیا، اور اس اقدام کا سبب وہاں کی حکومت میں استقامت اور ثابت قدمی کی روح ماند پڑ چکی تھی اور حکام نے دشمن پر اعتماد کیا، دشمن کے وعدوں کا یقین کیا، سفارت خانے دوبارہ کھولنے والے خلیجی عربوں کے فریب میں آ گئے۔ شام میں ایران کی تزویراتی حکمت عملی یہی عوام اور نوجوانوں کی اٹھان ہے، خواہ اس پر وقت کیوں نہ لگے۔ دیکھئے، نظر دوڑایئے اپنے آس پاس، کیا آپ بھی اسی تزویراتی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں؟ یا نہیں بلکہ آپ نے بھی معاشی، اور فوجی مسائل کو اس مسئلے کی جڑ قرار دیا ہے؟

بزرگوارو! 

"ملت ایران اپنی فوج پر، اپنی سپاہ پر فخر کرتی ہے، مباہات کرتی ہے۔ مسلح افواج اور مسلح اداروں کے اعلی حکام [پر فخر کرتی ہے"۔

جا کر دیکھئے اگر آپ نے اپنے فوجی کمانڈروں کی توہین کی، ان کی نسبت بداعتمادی پھیلا دی، ان کے اقدامات اور برتاؤ کو فیک، فریب اور شیخی، قرار دیا ہے تو توبہ کیجئے۔ جاکر دیکھئے کہ آپ نے کس طرح دوسروں کے دلوں میں تشویش بھر دی ہے، اور اس بے سند و ثبوت نفسیانی احساس کو ان کے دلوں میں جگہ دلائی، دیکھئے آپ کا یہ احساس رہبر معظم کے کے رویے سے کس قدر مختلف ہے۔ تصحیح کیجئے اپنی نگاہوں کی؛ توبہ کیجئے۔

نکتے اور بھی ہیں مگر اس سے زیادہ گنجائش نہیں تھی اس مختصر تحریر میں۔ یہ ہمارے رہبر حکیم اور ہم سب کے استاد ہیں، ان کے سائے میں ہم نشو و نما پا سکتے ہیں۔ قدردان ہونا چاہئے ہمیں ان کا۔

۔۔۔۔۔

تحریر: حجت الاسلام علی مہدیان

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔

110