اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ
قالَ أميرُ الْمُؤْمِنينَ الاْ مامُ علىّ بن أَبِي طالِب عَلَيهِمَا السَّلَامُ)؛
امیرالمؤمنین امام علی بن ابی طالب (علیہما السلام) نے فرمایا:
1. فتنوں سے دوری کی ضرورت
"كُنْ فِى الْفِتْنَةِ كَابْنِ اللَّبُونِ لَا ظَهْرٌ فَيُرْكَبَ وَلَا ضَرْعٌ فَيُحْلَبَ؛ [1]
فتنوں میں دوسالہ اونٹ کی مانند رہو جس کے پاس نہ تو سواری کے لئے پیٹھ ہے اور نہ دودھ دینے کے لئے پستان"۔
2۔ پانچ موقعوں پر دعا
"إغْتَنِمُوا الدُّعاءَ عِنْدَ خَمْسَةِ مَواطِنَ: عِنْدَ قِرائَةِ الْقُرْآنِ، وَعِنْدَ الاْذانِ وَعِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ وَعِنْدَ الْتِقاءِ الصَفَّيْنِ لِلشَّهادَةِ وَعِنْدَ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، فَاِنَّهُ لَيْسَ لَها حِجابٌ دوُنَ الْعَرْشِ؛ [2]
پانچ مواقع کو دعا اور حاجت مانگنے کے لئے غنمیت سمجھو: تلاوت قرآن کے وقت، اذان کے وقت، بارش کے وقت، جہاد فى سبيل اللّہ کے دوران اور مظلوم کی پریشان حالی اور دعا کے دوران۔ ان اوقات میں دعا کے سامنے کوئی رکاوت نہیں ہوتی"۔
3۔ علم خوبصورت ورثہ اور ادب حسین زیور
أَلْعِلْمُ وِراثَةٌ كَريمَةٌ، وَالاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ وَالْفِكْرَةُ مِرآةٌ صافِيَةٌ وَالاْعْتِذارُ مُنْذِرٌ ناصِحٌ وَكَفى بِكَ اَدَباً تَرْكُكَ ما كَرِهْتَهُ مِنْ غَيْرِكَ؛ [3]
علم قیمتی میراث ہے اور ادب؛ خوبصورت زیور ہے، تفکر صاف و شفاف آئینہ اور معذرت خواہی متنبہ کردینے والی خیرخواہ ناصح ہے اور تمہارے با ادب ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو کچھ اپنے لئے ناپسند کرتے ہو دوسروں کے بارے میں بھی روا نہ رکھو"۔
4۔ حق ہمیشہ تروتازہ ہے
"اَلْحَقُّ جَديدٌ وَإنْ طالَتِ الاْيّامُ وَالْباطِلُ مَخْذُولٌ وَإنْ نَصَرَهُ اقْوامٌ؛ [4]
حق اور حقیقت تمام حالات میں جدید اور تازہ ہے خواہ اس پر مدتیں ہی کیوں نہ گذری ہوں اور باطل ہمیشہ پست اور بے بنیاد [اور فرسودہ] ہے خواہ کثیر لوگ اس کی حمایت ہی کیوں نہ کرتے ہوں"۔
5۔ دنیا طلبی کے تین مقاصد
"اَلدُّنْيا تُطْلَبُ لِثَلاثَةِ آَشْياء اَلْغِنَى وَالْعِزِّ وَالرّاحَةِ فَمَنْ زَهِدَ فيها عَزَّ وَمَنْ قَنَعَ إسْتَغْنى وَمَنْ قَلَّ سَعْيُهُ إسْتَراحَ؛ [5]
دنیا اور اس کے اموال تین اہداف کے لئے طلب کئے جاتے ہیں: بے نیازی اور عدم احتیاج، عزت و شوکت کے لئے اور راحت و آسائش؛ جو زاہد ہے وہ محترم اور معزز ہے، جو قناعت پیشہ ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے؛ اور جو خود کو مشقت اور تکلف میں نہ ڈالے وہ راحت و آسائش میں ہے"۔
6۔ میں عرب میں سے چالاک ہوتا اگر ۔۔۔
"لَوْلاَ الدّينُ وَالتُّقى ، لَكُنْتُ اَدْهَى الْعَرَبِ؛ [6]
اگر دینداری اور تقوائے الٰہی کا لحاظ رکھنا واجب نہ ہوتا تو میں عرب کے درمیان سب سے زیادہ چالاک و ہوشیار شخص میں ہوتا (مگر دین اور تقوائے الٰہی سیاست بازی کی راہ میں رکاوٹ ہے)۔
7۔ علم کا مقام اور اس کے لوازمات
"اَلْمُلُوكُ حُكّامٌ عَلَى النّاسِ وَالْعِلْمُ حاكِمٌ عَلَيْهِمْ وَحَسْبُكَ مِنَ الْعِلْمِ انْ تَخْشَى اللّهَ وَحَسْبُكَ مِنَ الْجَهْلِ انْ تَعْجِبَ بِعِلْمِكَ؛ [7]
بادشاہ عوام پر حکومت کرتے ہیں اور علم بادشاہوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ علم میں تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ خدا کا خوف کرو؛ اور تمہارے جہل کے اثبات کے لئے یہی کافی ہے کہ تم اپنے علم و دانش پر فخر کرو"۔ (خوف خدا علم کا ثبوت اور علم و دانش پر تفاخر جہل کی علامت ہے)۔
8۔ شک کے چار شعبے
"... وَالشَّكُّ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَى التَّمَارِى وَالْهَوْلِ وَالتَّرَدُّدِ وَالِاسْتِسْلَامِ فَمَنْ جَعَلَ الْمِرَاءَ دَيْدَناً لَمْ يُصْبِحْ لَيْلُهُ وَمَنْ هَالَهُ مَا بَيْنَ يَدَيْهِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ وَمَنْ تَرَدَّدَ فِى الرَّيْبِ وَطِئَتْهُ سَنَابِكُ الشَّيَاطِينِ وَمَنِ اسْتَسْلَمَ لِهَلَكَةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ هَلَكَ فِيهِمَا۔۔۔؛ [8]
اور شک کی چار شعبے ہیں: کلام میں جدل - خوف و ہراس – دو دلی اور تذبذب – اور زمانے کے حوادث کے سامنے سرتسلیم خم کرنا؛ پس جو شخص اپنی زندگی میں جدل اور نزاع کو اپنی عادت بنائے گا کبھی بھی شبہات کی ظلمتوں سے خارج نہ ہوگا؛ اور جو شخص کسی چیز سے خائف ہوجائے مسلسل پسپائی کی حالت میں رہے گا؛ اور جو شخص تردد اور دودلی کا شکار ہوگا شیطان کے پیروں تلے روندا جائے گا؛ اور جو شخص حوادث زمانہ کے مقابل سرتسلیم خم کرے گا اور دنیا اور آخرت کی تباہی کو اپنا مقدر سمجھے گا دونوں جہان اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
9۔ اولاد کی بیماری
"فِى الْمَرَضِ يُصيبُ الصَبيَّ، كَفّارَةٌ لِوالِدَيْهِ؛ [9]
بچے کی بیماری والدین کے گناہون کا کفارہ ہے"۔
10۔
سیاہ کشمش کی خصوصیات
"الزَّبيبُ يَشُدُّ الْقَلْبِ، وَيُذْهِبُ بِالْمَرَضِ، وَيُطْفِىءُ الْحَرارَةَ وَيُطيِّبُ النَّفْسَ؛ [10]
سیاہ كشمش قلب کو تقویت پہنچاتا ہے بیماریوں کو برطرف کرتا ہے، بدن کی حرارت کو ختم کردیتا ہے اور روح و نفس کو پاک و طیب بنا دیتا ہے"۔
11۔ اطفال کے لئے انار کا فائدہ
"أَطْعِمُوا صِبْيَانَكُمُ الرُّمَّانَ فَإنَّهُ أَسْرَع لِأَلسُنَّتِهِمْ؛ [11]
اپنے بچوں کو انار کھلاؤ؛ کیونکہ یہ ان کی زبان کو جلد کھو دیتا ہے (اور وہ جلدی بولنا شروع کرتے ہیں)۔
12۔ شب جمعہ کنبے کے لئے پھل لانا
"أَطْرِقُوا أَهَالِيكُمْ فِي كُلِّ لَيْلَةِ جُمُعَةٍ بَشِيْئَ مِنَ اَلْفَاكِهَةِ كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمُعَةِ؛ [12]
ہر شب جمعہ اہل و عیال کے لئے کچھ پھل (یا مٹھائی وغیرہ) لے کر آیا کرراپنے اہل و عیال پر وارد ہوجاؤ تا کہ یہ امر جمعے کے روز ان کی شادمانی کا باعث ہو"۔
13۔ نوافل واجب کو نقصان نہ پہنچائیں
"۔۔۔ لَا قُرْبَةَ بِالنَّوَافِلِ إِذَا أَضَرَّتْ بِالْفَرَائِضِ؛ [13]
مستحب [اور سنتی] اعمال ـ اگر واجبات کو نقصان پہنچائیں ـ تو ان سے انسان کو خدا کی قربت عطا نہیں ہوگی"۔
14۔ دو حالتوں پر بھروسہ نہ کرو
"لاَيَنْبَغِي لِلْعَبْدِ اَنْ يَثِقَ بِخَصْلَتَيْنِ العافِيَةِ وَالْغِنَى بَيْنَا تَرَاهُ مُعَافاً إِذْ سُقِمَ وَبَيْنَا تَرَاهُ غَنِيّاً إِذِ افْتَقَرَ؛ [14]
مناسب نہیں ہے کہ انسان زندگی میں دو خصلتوں [اور دو کیفیات] کا بھروسہ کرے: عافیت اور تندرستی کا اور دولتمندی اور تونگری کا؛ کیونکہ کیونکہ تم تندرستی کی عالم میں اچانک بیماریوں سے دوچار ہوسکتے ہو اور تونگری کی حالت میں غربت و ناداری کا شکار ہوسکتے ہو۔ (یعنی تندرستی اور دنیا کی دولت کسی سے وفا نہیں کرتی)"۔
15۔ ریاکار شخص کی چار نشانیاں
"لِلمُرَائي أرْبَعُ عَلَامَاتٍ: يَكسَلُ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ وَيَنشَطُ إِذَا كَانَ فِي النَّاسِ، وَيَزِيدُ فِيالْعَمَلِ إِذَا اُثنِيَ علَيْهِ وَيَنقُصُ مِنْهُ إذَا لَمْ يُثْنَ عَلَيهِ؛ [15]
ریاکار شخص کی چار نشانیاں ہیں: تنہائی میں سست اور کاہل ہوتا ہے اور لوگوں سامنے چست وچالاک ہوتا ہے۔ جب لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں عمل میں اضافہ کرتا ہے اور جب اس کی تعریف نہیں ہوتی تو کام چوری کرتا ہے"۔
16۔ دشمن کا لباس مت پہنو
"اَوْحَى اللّهُ تَبارَكَ وَتَعَالَى إلَى نَبيٍّ مِنَ الَأنْبياءِ، قُلْ لِقَوْمِكَ لَا يَلْبِسُوا لِبَاسَ أَعْدَائِي وَلَا يَطْعَمُوا مَطَاعِمَ أعْدَائِي وَلَا يَتَشَكَّلُوا بِمَشاكِلِ أَعْدَائِي فَيَكُونُوا أَعْدَائِي؛ [16]
خداوند تبارک و تعالىٰ نے اپنے نبیوں میں سے ایک نبی پر وحی نازل فرمائی کہ: اپنی امت سے کہو کہ وہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنیں اور میرے دشمنوں کا کھانا نہ کھائیں اور میرے دشمنوں کے ہم شکل ہونے سے پرہیز کریں ورنہ تو وہ بھی میرے دشمن ہونگے"۔
17۔ افکار، قلوب، حواس اور اعضاء کے امام
"اَلْعُقُولُ أئِمَّةُ الافْكارِ وَالاْفْكارُ أئِمَّةُ الْقُلُوبِ وَالْقُلُوبُ أئِمَّةُ الْحَواسِّ وَالْحَواسُّ أئِمَّةُ الاْعْضاءِ؛ [17]
انسانوں کی عقلیں ان کے افکار اور سوچوں کے راہبر و امام ہیں، افکار دلوں کے امام ہیں، قلوب حواس کے امام ہیں اور حواس اعضاء و جوارح کے امام ہیں"۔
18۔ سالار بنو یا پھر قیدی
"تَفَضَّلْ عَلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ اميرُهُ، وَاسْتَغْنِ عَمَّنْ شِئْتَ فَانْتَ نَظيرُهُ وَافْتَقِرْ إلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أسيرُهُ: [18]
جس کے ساتھ چاہو نیکی کرو؛ اس کے امیراور حاکم بن جاؤ گے؛ اور جس سے چاہو بے نیاز ہوجاؤ؛ اس ہم پلہ ہو جاؤگے؛ جس سے چاہو مدد مانگو، تم اس کے ہاتھوں میں قیدی بن جاؤگے"۔
19۔ سب سے بڑی عزت اور سب سے بڑی ذلت
"اَعَزُّ الْعِزِّ الْعِلْمُ؛ لِأَنَّ بِهِ مَعْرِفَةُ الْمَعَادِ وَالْمَعَاشِ وَأَذَلُّ الذُّلِّ الْجَهْلُ؛ لِأَنَّ صَاحِبَهُ اَصَمُّ اَبْكَمُ اَعْمَىٰ حَيْرَانُ؛ [19]
سب سے بڑی عزت علم ہے کیونکہ علم کے ذریعے معاد اور معاش کی پہچان حاصل ہوتی ہے؛ اور سب سے بڑی ذلت جہل و نادانی ہے کیونکہ جاہل اور نادان شخص ہمیشہ بہرے پن، گونگے پن اور اندھے پن اور حیرانی و پریشیانی سے دوچار رہتا ہے"۔
20۔ علماء کے ساتھ مؤانست کی فضیلتیں
"جُلُوسٌ سَاعَةٍ عِنْدَ العُلَمَاءِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادَةِ أَلْفِ سَنَةٍ وَالنَّظَرُ إلَى الْعَالِمِ أَحَبُّ إِلَى اَللَّهِ مِن اعْتِكَافِ سَنَةٍ فِي البَيتِ الحَرَامِ وَزِيَارَةُ العُلَمَاءِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ سَبْعِينَ طَوَافاً حَوْلَ الْبَيْتِ وَأَفْضَلُ مِنْ سَبْعِينَ حَجَّةً وَعُمْرَةً مَبْرُورَةً مَقْبُولَةً وَرَفَعَ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ دَرَجَةً وَأنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ الرَّحْمَةَ وَشَهِدَت لَهُ الْمَلَائِكَةُ أنَّ الْجَنَّةَ وَجَبَتْ لَهُ؛ [20]
ساعت بھر علماء کی مصاحبت [جو انسان کو مبدأ و معاد سے روشناس کراتے ہیں] - خدا کے نزدیک ایک ہزار سال کی عبادت سے محبوب تر ہے؛ عالم کی طرف توجہ سے دیکھنا ایک سال کی نفلی عبادت اور بیت اللہ میں ایک سال تک اعتکاف سے بہتر ہے؛ علماء کی زیارت اور ان کا دیدار خانۂ خدا کے 70 طوافوں سے بہتر ہے اور 70 مرتبہ [مستحب] حج اور عمرہ مقبولہ سے بہتر ہے؛ اور خداوند متعال علماء کی زیارت کرنے والے شخص کے درجے کو 70 گنا بلند کر دیتا ہے اور اس پر اپنی رحمت اور برکت نازل فرماتا ہے اور ملائکہ گواہی دیتے ہیں کہ وہ جنتی ہے"۔
21۔ اگر زندگی باقی ہو رزق بھی ملے گا
"يَابْنَ آدَمَ، لا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذي لَمْ يَأْتِكَ عَلَى يَوْمِكَ الَّذِى أنْتَ فِيهِ فَإنْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أجَلِكَ فَإنّ اللّهَ فِيهِ يَرْزُقُكَ؛ [21]
اے فرزند آدم! اگلے دن کے غم کا اپنے آج کے دن کے غموں میں اضافہ اگلے دن کے غموں کا آضافہ مت کرنا؛ کیونکہ اگر تمہاری عمر اس دنیا میں باقی ہو تو خدائے متعال تمہیں رزق عطا کرتا رہے گا"۔
22۔ انسان کی قدر و قیمت، بہادری اور صداقت کے معیار
"قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَى قَدْرِ هِمَّتِهِ وَصِدْقُهُ عَلَى قَدْرِ مُرُوءَتِهِ وَشَجَاعَتُهُ عَلَى قَدْرِ أَنَفَتِهِ وَعِفَّتُهُ عَلَى قَدْرِ غِيْرَتِهِ؛ [22]
ہر شخص کی قدر و قیمت اس کی ہمت کے برابر ہے اور ہر شخص کی شجاعت، بہادری قوت اس کے احسان کے برابر ہے اور ہر شخص کی صداقت اور راست بازی اس کی جوانمردی، وقار اور مروت کی برابر ہے اور ہر شخص کی پاک دامنی اور عفت اس کی غیرت کے برابر ہے"۔
23۔ مؤمن بھائی کا جھوٹا پینا
"مَنْ شَرِبَ مِنْ سُؤْرِ أَخِيهِ تَبَرُّكاً بِهِ، خَلَقَ اللّهُ بَيْنَهُما مَلِكاً يَسْتَغْفِرُ لَهُمَا حَتَّي تَقُومَ السَّاعَةُ؛ [23]
جو کوئی اپنے مؤمن بھائی کا جھوٹا [بچا کھجا پانی] تبرّک کے عنوان سے پی لے، خدائے متعال ایک فرشتہ مامور فرمائے گا تا کہ وہ ان دونوں کے لئے قیامت کے روز تک طلب مغفرت کرتا رہے"۔
24۔ دو آدمیوں کی بھلائی / توبہ کی شرط
"لَا خَيْرَ فِي اَلْعَيْشِ إِلَا لِرَجُلَيْنِ رَجُلٍ يَزْدَادُ فِي كُلِّ يَوْمٍ خَيْراً أَوْ رَجُلٍ يَتَدَارَكُ سَيِّئَةً بِالتَّوْبَةِ وَأَنَّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ وَاَللَّهِ لَوْ سَجَدَ حَتَّى يَنْقَطِعَ عُنُقُهُ مَا يَقْبَلُ اَللَّهُ ذَلِكَ مِنْهُ إِلاَّ بِوَلاَيَتِنَا أَهْلَ اَلْبَيْتِ أَلاَ وَمَنْ عَرَفَ حَقَّنَا وَرَجَا اَلثَّوَابَ فِينَا وَرَضِيَ بِقُوتِهِ وَسَتْرِ عَوْرَتِهِ وَدَانَ بِمَحَبَّتِنَا فَهُوَ آمِنٌ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ؛ [24]
کوئی خیر و بھلائی نہیں دنیا کی زندگی میں سوائے دو آدمیوں کے لئے: ایک وہ جو ہر روز نیکیوں اور کار خیر میں اضافہ کرتا رہتا ہے یا وہ شخص جو اپنی برائی کا ازالہ توبہ و استغفار سے کرتا ہے؛ لیکن کہاں ہوگی اس کے لئے توبہ؟ اللہ کی قسم! اگر وہ اتنا طویل سجدہ بجا لائے کہ اس کی گردن کٹ جائے، اللہ اس کی توبہ قبول نہیں کرے گا سوا اس کے کہ وہ ہم اہل بیت کی ولایت ایمان رکھتا ہو، جان لو کہ جو ہمارے حق کو پہچانے، اور ہماری پیروی میں ثواب کی امید رکھے، اور اپنے روزی پر قانع و کفایت شعار ہو، اور اتنے لباس پر اکتفا کرے کہ اس کے بدن کے چھپے ہوئے حصوں کو ڈھانپ دے، اور ہماری محبت کا اقرار کرتا ہو تو وہ قیامت کے دن محفوظ رہے گا"۔
25۔ یہ انسان! تکبر کیونکر کرتا ہے؟
"عَجِبْتُ لِاِبْنِ آدَمَ أوَّلُهُ نُطْفَةٌ وَآخِرُهُ جيفَةٌ وَهُوَ قائِمٌ بَيْنَهُما وِعاءٌ لِلْغائِطِ، ثُمَّ يَتَكَبَّرُ؛ [25]
حیرت ہے مجھے اس شخص سے جس کا آغاز ایک کا آغاز نطفہ تھا اور اس کی انتہا لاش ہے اور وہ ان دو (نطفے اور لاش) کے درمیان کھڑا ہے اور جس نے اپنے آپ کو گندگی کا برتن بنا رکھا ہے مگر اس کے باوجود تکبر کرتا اور بڑائی جتاتا ہے!"۔
26۔ ادھار سے خبردار
"إيّاكُمْ وَالدَّيْنَ فَإنّهُ هَمُّ بِاللَّيْلِ وَذُلُّ بِالنَّهارِ؛ [26]
ادهار سے بچ کے رہو کیونکہ یہ راتوں کو غم و اندوہ اور دن کے وقت ذلت اور خواری کا باعث بنتا ہے"۔
27۔ اس عالم کا حشر جو اپنا چھپا کر رکھے!
"إِنّ الْعالِمَ الْكاتِمَ عِلْمَهُ يُبْعَثُ أَنْتَنَ أهْلِ الْقِيامَةِ رِيحاً تَلْعَنُهُ كُلُّ دابَّةٍ مِنْ دَوابِّ الاْرْضِ الصِّغارِ؛ [27]
وه عالم اور دانشور جو ـ حقائق بیان کرنے کے حوالے سے ـ اپنا علم دوسروں سے چهپا کر رکهے قیامت کے دن بدترین بدبو کے ساتھ محشور ہوگا یہاں تک کہ زمین کے تمام چهوٹے موجودات سے پر لعنت و نفریں کریں کے"۔
28۔ حق بولو ہر حالت میں اور ان لوگوں سے دور رہو
"يَا كُمَيْلُ قُلِ الْحَقَّ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَوَادِدِ الْمُتَّقينَ وَاهْجُرِ الفاسِقينَ وَجَانِبِ المُنافِقينَ وَلَا تُصاحِبِ الخائِنينَ؛ [28]
اے کمیل! هر حالت میں حق کی بات کرو اور حق کا دفاع کرو، پرهیزگاروں کے ساتھ مصاحبت و ہم نشینی جاری رکھو اور فاسقین اور گناہگاروں سے دوری اختیار کرو اور منافقین سے کناره کشی اختیار کرو اور خائنین کے ساتھ مصاحبت سے اجتناب کرو"۔
29۔ رفیق راہ اور پڑوسی کے بارے میں پیشگی معلومات
امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے بیٹے حسن مجتبی (علیہ السلام) کو لکھا:
"سَلْ عَنِ الرَّفِيقِ قَبْلَ الطَّرِيقِ وَعَنِ الْجَارِ قَبْلَ الدّارِ؛ [29]
سفر پر جانے قبل راستے کے لئے مناسب رفیق تلاش کرو، گھر لینے سے قبل پڑوسیوں کا حال پوچھو کہ وہ کیسے لوگ ہیں"۔
30. تفاخر بے عقلی ہے
"إِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ دَليلٌ عَلَى ضَعْفِ عَقْلِهِ؛ [30]
اپنے اوپر فخر انسان کی کم عقلی کی دلیل ہے"۔
31۔ دنیا کی محبت خطاؤں اور مصائب کا سرچشمہ
"أيُّهَا النّاسُ! إيّاكُمْ وحُبَّ الدُّنْيا؛ فَإِنَّها رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ وَبَابُ كُلِّ بَلِيَّةٍ وَقِرانُ كُلِّ فِتْنَةٍ وَدَاعِي كُلِّ رَزِيَّةٍ؛ [31]
اے لوگو! دنیا کی محبت سے بچ کر رہو کیونکہ یہ ہر خطا اور انحراف کی جڑ ہے اور ہر بلا اور آزمائش کا دروازہ ہے اور ہر فتنے اور آشوب کو نزدیک کرتی ہے اور ہر مصیبت کو ساتھ لاتی ہے"۔
32۔ نشے کی قسمیں
السُّكْرُ أَرْبَعُ السُّكْراتِ: سُكْرُ الشَّرابِ وَسُكْرُ الْمالِ وَسُكْرُ النَّوْمِ وَسُكْرُ الْمُلْكِ؛ [32]
مستى اور نشے کی چارقسمیں ہیں: شراب کا نشہ (اور مستی)، مال و دولت کا نشہ (اور مستی)، نیند کا نشہ (اور مستی) اور حکمرانی کا نشہ (اور مستی)"۔
33۔ زبان درندہ ہے
"أَللِّسَانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ؛ [33]
زبان ، درندہ ہے جو اگر آزاد (اور بے قابو) ہو تو جسم و ایمان پر شدیدترین گھاؤ لگا دیتی ہے"۔
34۔ مظلوم کو انصاف ملنے کا دن
"يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظَّالِمِ أَشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ؛ [34]
ظالم کے خلاف مظلوم کو انصاف ملنے کا دن اس دن سے کہیں شدید اور سخت ہے جب ظالم نے مظلوم پر ستم روا رکھا تھا"۔
35. قرآن میں سب اگلا پچھلا اور آج
"فِى الْقُرْآنِ نَبَأُ مَا قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنِكُمْ؛ [35]
قرآن میں گذرنے والوں کے احوال اور آنے والوں کی خبریں اور تماارے لئے فرائض و احکام، موجود ہیں"۔
36۔ قرآن کے تین حصے
"نَزَلَ اَلْقُرْآنُ أَثْلاَثاً: ثُلُثٌ فِينَا وَفِي عَدُوِّنَا وَثُلُثٌ سُنَنٌ وَأَمْثَالٌ وَثُلُثٌ فَرَائِضُ وَأَحْكَامٌ؛ [36]
قرآن تین حصوں میں نازل ہؤا ہے: ایک تہائی حصہ ہم اہل بیت عصمت وطہارت اور ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے؛ ایک تہائی ایک تہائی اخلاقیات اور امثال و حِکَم کے بارے میں ہے اور ایک تہائی واجبات اور احکام الٰہی کے بارے میں"۔
37۔ قابو پاؤ تو معاف کرو
"إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْهُ شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْهِ؛ [37]
جب اپنے دشمن پر قابو پاؤ تو اس پر طاقت اور غلبے کے شکرانے کے طور پر، اسے معاف کر دو"۔
38۔ مردوں اور عورتوں کا جہاد
"كَتَبَ اللهُ الْجِهادَ عَلَى الرِّجالِ وَالنِّساءِ فَجِهادُ الرَّجُلِ بَذْلُ مَالِهِ وَنَفْسِهِ حَتَّى يُقْتَلَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَجِهَادُ الْمَرْأَةِ أنْ تَصْبِرَ عَلَى مَا رَأى مِنْ أذَى زَوْجِها وَغَيْرَتِهِ؛ [38]
خدائے متعال نے جہاد مردوں اور عورتوں پر واجب کیا ہے؛ تو مرد کا جہاد، یہ ہے کہ وہ اپنے مال اور جان سے گذرجائے یہاں تک کہ خدا کی راہ میں ماراجائے اورعورت کا جہاد یہ ہے کہ وہ مرد پر وارد ہونے والی تمام سختیوں اور صدموں اور اس کی غیرت پر صبر کرے"۔
39۔ حادثات میں مردوں کا جوہر جاگ جاتا ہے
"فَي تَقَلُّبِ الأْحْوَالِ عُلِمَ جَوَاهِرُ الرِّجَالِ؛ [39]
[حوادث و واقعات اور] حالات کی تبدیلیوں اور تغیّرات کے دوران افراد کا جوہر جانا جاتا ہے [اور ان کی فطرت کی حقیقت پہچانی جاتی ہے]"۔
40. یہاں شاہد، قاضی بھی ہے
"اِتَّقُوا مَعَاصِيَ اللّهِ فِي الْخَلَواتِ فَإِنَّ الشَّاهِدَ هُوَ الْحَاكِمُ؛ [40]
خلوت اور تنہائی میں بھی خدا کی معصیتوں اور نافرمانیوں سے پرہیز کرو کیونکہ خدا جو تمہارے اعمال و کردار کا شاہد و گواہ ہے؛ وہی حاکم و قاضی بھی ہے"۔ (جس کے لئے دیگر گواہوں کی ضرورت نہیں اور وہاں دنیاوی عدالتوں کی طرح کسی کو شک کا فائدہ دے کر بری نہیں کیا جاتا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حواله جات:
1۔ نہج البلاغہ، حکمت 1۔
2۔ شیخ صدوق، الأمالى، ص97؛ علامہ مجلسی، بحارالا نوار، ج90، ص 343، ح 1.
3۔ شیخ طوسی، الأمالى، ج1، ص114؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج1، ص169۔
4 شیخ حر العاملی، وسائل الشیعہ، ج25، ص 434، ح 32292.
5۔ ملا محسن فیض کاشانی (محمد بن شاہ مرتضی)، الوافى، ج4، ص402۔
6۔ سید محسن العاملی، أعيان الشّيعۃ، ج1، ص350؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج41، ص150۔
7۔ شیخ طوسی، الأمالى، ج1، ص55؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج2، ص48۔
8۔ نہج البلاغہ، حکمت31۔
9۔ علامہ مجلسی، بحار الا نوار، ج5، ص317؛ بحوالہ شیخ صدوق، ثواب الا عمال۔
10۔ شیخ طوسی، الأمالى، ج 1، ص 372، علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 63، ص 152۔
11۔ شیخ طوسی، الأمالى، ج1، ص372؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج63، ص155۔
12۔ شیخ صدوق، الخصال، ص391؛ ابن فہد الحلی، عدۃ الداعی، ص85، ص1؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج101، ص73۔
13۔ نہج البلاغہ، حکمت 39۔
14۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج69، ص68۔
15۔ ابن ابی الحدید المعتزلی، شرح نہج البلاغہ، ج2، ص180؛ ملا محسن فیض کاشانی، محجّۃ البیضاء، ج5، ص144؛ ورام بن ابى فراس (مسعود بن عیسی)، تنبيه الخواطر نزہۃ النواظر، ص195۔
16۔ محدث نوری (میرزا حسین بن محمد تقی)، مستدرک الوسائل : ج 3، ص210۔
17۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج1، ص96۔
18۔ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج70، ص13۔
19۔ حسین بن محمد الحلوانی، نزہۃ الناظر و تنبیہ الخاطر، ص70۔
20۔ ابن فہد الحلی، عدۃ الداعی، ص75؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج1، ص205۔
21۔ نہج البلاغہ میں "فَإنْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أجَلِكَ فَإنّ اللّهَ فيهِ يَرْزُقُكَ" کی بجائے "فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللَّهُ فِيهِ بِرِزْقِكَ"، مذکور ہے: نہج البلاغہ، حکمت 267؛ الحلوانی، نزہۃ الناظر و تنبيہ الخاطر، ص52.
22۔ الحلوانی، نزہۃ الناظر و تنبیہ الخاطر، ص46۔
23۔ شیخ مفید، الاختصاص، ص189۔
24۔ الدیلمی، (حسن بن محمد)، ارشاد القلوب، ج1، ص182۔
25۔ شیخ حر العاملی، وسائل الشیعہ، ج1، ص 334۔
26۔ شیخ حر العاملی، وسائل الشیعہ، ج18، ص316۔
27۔ شیخ حر العاملی، وسائل الشیعہ، ج16، ص270۔
28۔ ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص120؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج77، ص271۔
29۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 31؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج 76، ص 155۔
30۔ ثقۃ الاسلام کلینی، اصول کافى، ج1، ص27؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج1، ص161۔
31 ابن شعبہ الحرانی، تحف العقول، ص152؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج78، ص54۔
32۔ شیخ صدوق، الخصال، ج2، ص 170؛ علامہ مجلسی، بحارالا نوار، ج73، ص142۔
33۔ شیخ محمد عبدہ، شرح نہج البلاغہ، ج3، ص165۔
34۔ فیض الاسلام (سید علی نقی اصفہانی آل محمد دیباج)، شرح نہج البلاغہ، ص1193۔
35۔ فیض الاسلام، شرح نہج البلاغہ، ص1235۔
36۔ ثقۃ الاسلام، کلینی، اصول کافى، ج2، ص627۔
37۔ نہج البلاغہ، حکمت 11۔
38۔ شیخ حر العاملی، وسائل الشیعہ، ج15، ص23۔
39۔ نہج البلاغہ، حکمت 217۔
40۔ شیخ محمد عبدہ، شرح نہج البلاغہ، ج3، ص324۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110