اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

27 اپریل 2024

9:03:20 PM
1454595

ساؤ پاؤلو میں سیمینار "اسلام؛ مکالمے اور زندگی کا مذہب"؛

ائمۂ معصومین (علیہم السلام) مکالمے کے پیشوا تھے / پوری انسانیت کے لئے مسلمانوں کا احساس ذمہ داری۔ آیت اللہ رمضانی

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) نے کہا: ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کو مکالمے کے پیشوا تھے، ہمارے ائمہ اور ہمارے دینی راہنما ـ جیسے امام صادق اور امام رضا (علیہما السلام) ـ عیسائیوں اور زرتشتیوں سمیت سے بات چیت کرتے تھے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سیمینار "اسلام؛ مکالمے اور زندگی کا مذہب" برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو میں منعقد ہؤا جس میں جنوبی امریکہ کی علمی اور مذہبی شخصیات نے شرکت۔ اس سیمینار کے مہمان خصوصی عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی تھے۔

ائمۂ معصومین(ع) مکالمے اور تبادلہ خیال کے پیشوا

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی آیت اللہ رمضانی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے تشیع کی نظر میں علم کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: علم ہر خیر اور خوبی کی جڑ ہے؛ اس کے مقابلے میں جہل اور نادانی ہے جو ہر شر اور بدی کی جڑ ہے۔ حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا: "مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ كانَ لِغَيْرِهِ أَعْرَفَ وَمَنْ جَهِلَ نَفْسَهُ كانَ بِغَيْرِهِ أَجْهَلَ؛ اگر انسان اپنے آپ کو صحیح طور سے پہچانے تو دوسرے انسانوں کو بھی خوب پہچانے گا اور جو اپنے آپ کو نہ پہچانے دوسروں کو بالکل نہیں پہنچان سکے گا"۔ ہم سب کو حکم ہے کہ اپنے آپ کو پہچانیں؛ "إعرِف نَفسَكَ"۔ ارسطو نے اپنی اکیڈمی میں لکھا تھا: "اپنے آپ کو پہچانو، کیونکہ خودشناسی بنی نوع انسان کی نشوونما کا راز ہے، اور یہ سبب بنتی ہے کہ انسان بقیہ تمام انسانوں کے حوالے سے بھی احساس پیدا کرے"۔

انھوں نے کہا: امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نمایاں خصوصیات کے مالک ہیں جن میں سے ایک "عدالت" ہے۔ میری تجویز ہے کہ

لبنان کے مشہور عیسائی مفکر جارج جورداق (George Jordac) کی کتاب "صوت العدالۃ الانسانیۃ" (انسانی عدالت کی آواز The Voice of Human Justice) کا ہسپانوی اور پرتگالی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے۔ جارج جورداق حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام کے عاشق و دلدادہ ہیں۔ انسانوں کے بارے میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا ایک قول ہے کہ "لوگوں کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور دوسرا گروہ خلقت میں تمہارے ساتھ یکسان ہیں"۔

آیت اللہ رمضانی نے ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کو مکالمے کے پیشوا قرار دیا اور کہا: ہمارے ائمہ اور ہمارے دینی راہنما ـ جیسے امام صادق اور امام رضا (علیہما السلام) ـ عیسائیوں اور زرتشتیوں سمیت سے بات چیت اور تبادلہ خیال کرتے تھے۔ چنانچہ ہمیں بھی باہمی مکالمے کا اہتمام کرنا چاہئے، ایک دوسرے کو سمجھنا چاہئے، ایک دوسرے کا ادراک کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔ اسلام، پرامن زندگی کو فروغ دیتا ہے۔ انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اسلام رابطوں کو فروغ دینے پر زور دیتا ہے۔؛ اپنے آپس سے رابطہ و تعلق، دوسروں سے تعلق، خدائے متعال سے تعلق اور فطرت سے تعلق۔

ان کا کہنا تھا اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء کا مشن انسانوں کو حسی اور مادی زندگی سے نکالنا تھا۔ ہم صرف اس دنیا کے لئے خلق نہیں ہوئے، کیونکہ ہم سب اس دنیا کو کسی دن چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اس دنیا سے رخصت ہونا، فنا اور نیست ہونے کے مترادف نہیں ہے۔ [مرنے کا مطلب ملک عدم کی طرف جانا نہیں ہے]، بلکہ اس کا مطلب ایک وسیع تر دنیا میں زندگی بسر کرنا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے حوالے سے ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔

مسلمین تمام انسانوں کے حوالے سے ذمہ داری رکھتے ہیں

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) نیوز اسمبلی نے مزید کہا: رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مروی ہے کہ "مَنْ سَمِعَ رَجُلاً یُنادِی یا لَلْمُسْلِمِینَ فَلَمْ یُجِبْهُ فَلَیْسَ بِمُسْلِم؛ اگر کسی نے ایک انسان کی فریاد سنی جو مسلمانوں سے مدد مانگ رہا ہو، اور اس کی مدد نہ کی اور اجابت نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ اس روایت کے مطابق، اگر ایک غیر مسلم ـ خواہ و عیسائی ہو خواہ یہودی، یا حتی کہ ملحد ہو ـ جو ظلم کا شکار ہؤا ہے، اور وہ ایک مسلمان سے مدد مانگے، اور وہ مسلمان مدد کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود اس غیر مسلم کو جواب نہ دے اور اس کی مدد نہ کرے، تو بنیادی طور پر مسلمان نہیں ہے۔

سیکریٹری جنرل نے مزید کہا: میں ایک مضمون میں پڑھ رہا تھا کہ دنیا میں ایک ارب بچے سو‏ء تغذیہ (Dystrophy) کا شکار ہیں، اگر عدالت ہو تو دنیا میں کوئی بھی غذائی قلت سے دوچار نہیں ہوگا، محبت اور عقلیت انسانوں کے درمیان رائج ہوگی، تمام انبیاء الہی نے انسان کو عدالت کی طرف بلایا ہے۔ دینی راہنما، علماء، اور دینی مفکرین آج کے زمانے میں "عدل کی بنیاد پر امن کے قیام" میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہم عدالت، معنویت (روحانیت)، امن و آشتی، روا داری اور عقلیت کے اضلاع کو ملا کر اسی دنیا میں جنت قائم کر سکتے ہیں۔

آیت اللہ رمضانی نے آخر میں کہا: میرا پیغام یہ ہے کہ بات چیت، مذاکرہ اور مکالمہ، انسانی جوہر کی طرف توجہ کی خاطر، تمام ادیان و مذاہب کا جوہر ہے۔ انسان کا جواب کرامت اور وقار و عظمت ہے اور کرامت تک پہنچنے کے لئے عدالت اور عقلیت و معنویت کا ہونا ضروری ہے تاکہ بنی نوع انسان عدالت اور آزادی کا مزہ چکھ سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110