اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

8 اپریل 2024

9:10:26 PM
1450129

طوفان الاقصی؛

امریکہ اور اسرائیل سمجھ گئے ہیں کہ کہ ایران کا رد عمل یقینی ہے / چھ مہینے جنگ کے بعد صہیونیوں آشفتہ حالی / ہرمیس ڈرون کا مارگرایا جانا، لبنانی مقاومت کی دفاعی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ سید حسن نصراللہ

سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے شہید جنرل زاہدی کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: امریکی اور اسرائیلی جانتے ہیں کہ ایران کا رد عمل آنے والا ہے / امریکی حکومت کو اپنی ناکامی کا احساس ہو گیا ہے / ایرانی قونصلیٹ پر حملہ، حالیہ برسوں کے دوران، شام پر صہیونی ریاست کی سب سے بڑی اور شدید جارحیت ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سیکریٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ نے حزب اللہ کی طرف سے ـ شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کے قونصل سیکشن پر غاصب صہیونی ریاست کے میزائل حملے میں جام شہادت نوش کرنے والے ـ شہید جنرل زاہدی اور ان کے شہید ساتھیوں کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

اگر ہم شہید جنرل زاہدی کے اقدامات کے حقائق کو آشکار کر دیں تو ان لوگوں کی شناخت بھی ظاہر ہوجائے گی جن کی شناخت کو ظاہر نہیں کرنا چاہئے اور یوں ہم دشمن کی کامیابی میں اضافہ کریں گے اور دوسری طرف سے اگر ہم ان حقائق کو واضح نہ کریں تو ممکن ہے کہ شہید کا حق ادا کرنے میں کوتاہی سے دوچار ہوجائیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی 1982ع‍ میں لبنان پر صہیونی جارحیت کے بعد ان دو ممالک میں حاضر ہوئی۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) ان دنوں بقید حیات تھے اور  اور ایران پر صدام کی مسلط کردہ جنگ جاری تھی۔ ان دنوں سپاہ پاسداران محاذوں پر تھی لیکن لبنان میں صہیونیوں کی آمد کے بعد وہ بھی جارحین سے دو بدو لڑنے کے لئے شام اور لبنان میں آگئے۔

ایرانی فورسز شام میں الزبدانی کے مقام پر تعینات ہوئیں لیکن حالات کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہؤا کہ سپاہ پاسداران کے کچھ افسران اور اراکین عوامی مزاحمت کی حوصلہ افزائی، جنگی تجربے کی منتقلی، مشاورت، تربیت اور لاجیسٹک حمایت کے لئے یہیں تعینات رہیں۔ یہ لوگ لبنان کے جنتا نامی علاقے میں آگئے اور پہلا تربیتی کیمپ قائم ہؤا۔

سنہ 2011ع‍ میں شام میں کچھ واقعات رونما ہوئے تو ایرانی مشیران اور مقاومتی تحریکوں اور تنظیموں کی فورسز اس ملک میں حاضر ہوئیں۔ لگتا تھا کہ شام کے واقعات خطے میں مقاومت کو نقصان پہنچائیں گے۔

شام پر صہیونی ریاست کا سب سے بڑا حملہ

غاصبوں نے ایرانی قونصلیٹ کو نشانہ بنایا اور ایرانی فوجی مشیران شہید ہو گئے، جبکہ ان کی یہاں موجودگی بالکل معمول کے مطابق اور بین الاقوامی عرف کے عین مطابق تھی۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نے دمشق میں ایرانی قونصلیٹ کے کردار پر بحث و مباحثہ کیا۔

دمشق میں، ایرانی قونصلیٹ میں، ایرانی مشیروں پر حملہ حالیہ برسوں میں شام پر اسرائیل کی سب سے بڑی اور شدید جارحیت سمجھی جاتی ہے۔ اس حملے کا سبب یہ تھا کہ غاصب صہیونی ریاست کو شام کی جنگ میں شکست ہوئی ہے، جس میں اسرائیل کا بڑا کردار تھا۔

شام میں ایرانی مشیروں کی موجودگی سب سے زیادہ اور قانونی جنگ ـ یعنی دشمن کے ساتھ جنگ ـ کا حصہ ہے۔ ایرانی مشیروں پر حملے میں دو نئے نکتے بھی ہیں:

1۔ یہ ایرانی سرزمین پر پہلا حملہ ہے اور یہ ایران پر براہ راست حملہ سمجھا جاتا ہے۔

2۔ دوسرا مسئلہ دہشت گردانہ کاروائی کی سطح ہے، کیونکہ جنرل زاہدی ایران اور لبنان میں موجود ایرانی مشیروں کے سربراہ تھے۔

ایرانی رد عمل کی آہٹ

تخمینوں اور اندازوں سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ دشمن ایرانی قونصلیٹ پر حملوں کے حوالے سے اپنے اندازوں میں غلطی سے دوچار ہؤا ہے، اور یہ مسئلہ ایران کے موقف اور اس ملک کے متوقعہ رد عمل میں  نمایاں ہو گیا ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور پوری دنیا نے یہ پیغام وصول کر لیا ہے کہ ایران کی طرف سے رد عمل درپیش ہے اور یہ اس ملک کا حق ہے۔

دشمن نے اعلانیہ جنگ کا اعلان کر دیا ہے اور ایرانی فورسز پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے اور اسی اثناء میں ایرانی مشیروں نے خطے کی سطح پر عظیم خدمات سر انجام دی ہیں، اور صہیونی ان کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔

اس حملے کا سبب یہ ہے کہ صہیونی خطے کی سطح پر مشیر پاسداروں کا کردار سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دشمن نے اعلان کیا کہ ان حملوں کا مقصد شام سے ایرانی مشیروں کو نکال باہر کرنا ہے، لیکن اس مقصد کے لئے جاری ہونے والے خون کے باوجود وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اور وہ فلسطین اور لبنان کی مقاومت کی پشت پناہی کے لئے شام میں جمے ہوئے ہیں۔

البتہ یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ ایران ہی شام میں فیصلے کرتا ہے اور ایران نے جنگ کے دوران جو مدد کی ہے اس کا مقصد یہ تھا کہ سیاہ دل، دہشت گرد اور صہیونی علاقے پر مسلط نہ ہونے پائیں۔ یہ مسئلہ ایک مقدس فریضہ ہے۔

لبنان سے الحاج محمد رضا زاہدی کا تعلق 1998ع‍ سے شروع ہؤا

شہید الحاج محمد رضا زاہدی ان دوسرے نوجوانوں کی طرح تھے جو انقلاب اسلامی کا ستون سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے نوجوانی سے بڑی ذمہ داریاں سنبھالیں اور یہ ذمہ داریاں میدان جنگ نے ان کے سپرد کی تھیں۔ وہ جنگ کے زخمیوں میں سے تھے، اور جن برسوں میں وہ ہمارے ساتھ تھے، یہ زخم انہیں ستاتے رہتے تھے۔ الحاج زاہدی کا تعلق لبنان سے، سنہ 1998ع‍ سے شروع ہؤئا، جس وقت شہید الحاج قاسم سلیمانی قدس فورس کے کمانڈر تھے جنہوں نے انہیں خطے میں سپاہ کا کمانڈر مقرر کیا۔

ہمارے ساتھ الحاج زاہدی کے دور کا عروج سنہ 2000ع‍ سے شروع ہؤا اور یہ دور چار سال تک جاری رہا اور جنوبی لبنان کی آزادی کے بعد اس علاقے کی تعمیر نو اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری کے حوالے سے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ سنہ 2008ع‍ میں الحاج عماد مغنیہ کی شہادت کے بعد، شہید زاہدی لبنان واپس آئے اور اس زمانے میں ان کی اس علاقے میں واپسی کے حوالے سے اجماع پایا جاتا تھا اور سنہ 2014ع‍ ـ یعنی چھ سال کے عرصے ـ تک یہیں رہے۔ وہ سنہ 2020ع‍ میں لبنان پلٹ آئے اور شہادت کے لمحے تک یہیں رہے۔ انھوں نے اپنی مبارک حیات کا 14 سالہ عرصہ ہمارے درمیان گذارا اور ہمارے بہترین یار و یاور، حامی اور مشیر تھے اور پوری قوت کے ساتھ ہمارے ساتھ رہتے تھے۔

شہید زاہدی مہاجر الی اللہ تھے۔ انھوں نے اپنے گھرانے کو چھوڑ دیا ہے اور ہمارے پاس رہتے تھے اور زیادہ تر اوقات اپنی زوجہ کے ساتھ، اپنے اعزہ اور اقارب سے دور تھے۔

شہید زاہدی ایک مجاہد اور جان سے گذرنے والے انسان تھے جو شب و روز مقاومت کی خدمت میں مصروف عمل رہتے تھے، بہت منکسر المزاج، خیرخواہ، ناصح، سنجیدہ اور محنتی تھے اور ہمارے درد و رنج سے غمگین ہو جاتے تھے اور ہماری خوشیوں میں خوش رہتے تھے۔

الحاج محمد رضا زاہدی کا شوق شہادت

شہید زاہدی نے آخری ملاقات میں مجھ سے کہا کہ "میں اس بار شہادت کے لئے آیا ہو، لہٰذا مجھے محاذ جنگ اور جنوبی لبنان سے جانے سے نہ روکنا"؛ کیونکہ میں اس کے باوجود کہ وہ طوفان الاقصیٰ کے پہلے دن سے ہی محاذ جنگ جانا چاہتے تھے، لیکن میں نے انہیں منع کیا تھا۔

شہید زاہدی الحاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ہمارے پاس آئے اور کہا کہ "میں اپنی ذمہ داری نبھانا چاہتا ہوں، لیکن مجھے امید ہے کہ شہید ہو جاؤں اور الحاج قاسم سے جا ملوں" اور وہ برادران سے چاہتے تھے کہ ان کے لئے شہادت کی دعا کریں۔ یہ ہمارے کمانڈروں کی خصوصیت ہے؛ وہ کامیابی کے حصول کے لئے اقدام کرتے ہیں، اور یہ ایک پروگرام ہے جو ذاتی بھی ہے اور امت کے لئے بھی ہے، لیکن شہادت اللہ کا دیدار اور جنت میں پہنچنے کا پروگرام ہے جو ایک شخصی اور ذاتی کامیابی بھی ہے۔

جنگ کے چھ ماہ بعد صہیونیوں کی آشفتہ حالی

اسرائیل کو اس خطے میں اپنی سب سے بڑی جنگ کا سامنا ہے۔ صہیونی خود کہتے ہیں کہ چھ مہینوں سے جاری جنگ کے بعد ہم اپنے نصف سے زائد قیدیوں کو واپس نہیں لا سکے ہیں، رفح میں داخل نہیں ہو سکے ہیں، اور غزہ کے اطراف میں اب بھی خطرے کے سائرن بجتے ہیں [اور ہمارے ٹھکانوں پر فلسطینی مقاومت کے حملے جاری ہیں] اور ہمارے زیادہ سے زیادہ افسروں اور جوانوں کی ہلاکت کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔

اسرائیلیوں کی اپنی باتیں اسرائیل کی شکست کو نمایاں کر رہی ہیں۔ صہیونی اخبار معاریف کی تازہ ترین سروے رپورٹ کے مطابق، 62 فیصد صہیونی نوآبادکار اس جنگ اور اس کے نتائج سے ناراض اور 29 فیصد راضی ہیں اور 9 فیصد نہیں جانتے کہ راضی ہیں یا ناراض!

نیتن یاہو حقائق سے دور ہے۔ پوری دنیا اس سے کہہ رہی ہے کہ تم ہار گئے ہو، ٹرمپ نے کہا ہار گئے ہو، اسرائیلی کہتے ہیں ہم ہار گئے ہیں لیکن نیتن یاہو نے اتوار [7 اپریل 2024ع‍] کو کہہ دیا کہ "میں جنگ میں کامیاب ہو گیا ہوں!"۔ حقائق سے بالکل ناواقف دوسرا شخص صہیونی وزیر دفاع یوآو گالانٹ ہے جو چند روز قبل غزہ کے اطراف میں جاکر حماس کی نابودی کے بارے میں ڈینگے مار رہا تھا لیکن اس کے چند ہی گھنٹے بعد انہیں خان یونس میں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی فوجوں کو خوار و ذلیل ہو کر علاقے سے بھاگنا پڑا۔

صہیونی نیتن یاہو سے کہتے ہیں کہ:

چھ مہینوں سے کہہ رہے ہو کہ ہم اپنے قیدیوں کو آزاد کرائیں گے، لیکن ناکام رہے ہو؛ غزہ میں چھ مہینوں سے ہمارے فوجی مارے جا رہے ہیں اور زخمی ہو رہے ہیں؛ چھ مہینوں سے حماس کی نابودی کے دعوے کر رہے ہو لیکن حماس نابود نہیں ہوئی ہے، چھ مہینے ہوئے اور اسرائیل کو اقتصادی اور سماجی لحاظ سے بدترین صورت حال کا سامنا ہے،

امریکی حکومت کو اپنی شکست کا احساس ہو گیا ہے

ہم اسرائیل پر دباؤ کے حوالے سے امریکیوں کی صلاحیت کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے تھے وہ بائیڈن ـ نیتن یاہو کے حالیہ ٹیلی فونک رابطے سے واضح ہو گیا ہے، کیونکہ امریکی حکومت کو اپنی شکست کا احساس ہو گیا۔ مقبوضہ علاقوں میں نیتن یاہو پر صہیونی ریاست کے اندر ہونے والی تنقیدوں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر امریکہ حمایت نہ کرے تو اس [نیتن یاہو] کے پاس گولہ بارود بھی نہیں رہے گا اور پھر وہ نہ غزہ کے خلاف لڑ سکے گا اور نہی لبنان کے خلاف۔

بائیڈن نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے امدادی کارکنوں کے قتل کی بنا پر نیتن یاہو پر دباؤ ڈالا ہے اور اس سے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرے۔ اس کے بعد صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف کو ناحال بریگیڈ کا کمانڈر برخاست کرنا پڑا اور جنوبی بریگیڈ کے کمانڈر کی سرزنش کی اور ناحال بریگیڈ کے ایک کمانڈر کو سزا دی؛ یہ مسئلہ فوجی حوالے سے بہت بڑا ہے۔

نیتن یاہو پر بائیڈن کے دباؤ کا سبب

یہ واقعات امریکہ کی مذمومیت کا باعث ہیں کیونکہ امریکہ نے صرف امدادی کارکنوں پر حملے پر رد عمل ظاہر کیا اور 30000 سے زائد فلسطینیوں کی شہادت پر ان کے کان پر جوں تک بھی نہ رینگی اور انھوں نے نیتن یاہو کو لائق سرزنش نہ سمجھا۔ آج کہا جا رہا ہے کہ امریکی ڈیموکریٹ جماعت جنگ غزہ پر موجودہ انتظامیہ کے موقف کی وجہ سے انتخابات میں کئی ریاستوں کے ووٹ کھو جائے گی۔ چنانچہ بائیڈن نے نتین یاہو پر دباؤ ڈآلنا شروع کیا کہ وہ قاہرہ میں مقاومت کے ساتھ کسی سمجھوتے پر پہنچے اور غزہ کے لئے امدادی سامان کی ترسیل کو ممکن بنائے۔

یقینا غزہ میں جنگ بندی کا اعلان نیتن یاہو، بن گویر، اسموٹرچ کے لئے ذاتی شکست ہے اور لیکوڈ پارٹی کے لئے جماعت شکست۔ کیونکہ ان سے اس شکست کی وجہ سے تفتیش ہوگی۔ بائیڈن کے ٹیلیفونک رابطے کے بعد، اتوار کو نیتن یاہو نے کل [اتوارکو] کہہ دیا کہ اس نے اپنے فوجیوں کو غزہ سے واپس بلایا ہے اور صرف ایک بریگیڈ کو غزہ میں رہنے دیا ہے۔ اور تزویراتی تجزیہ کار اور مبصرین نیتن یاہو کے اس اقدام سے حیرت زدہ ہو گئے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ حماس نے فلسطینی جماعتوں نیز محور مقاومت کی نمائندگی میں، غزہ سے صہیونی فوج کے انخلاء اور غزہ کے شمال اور جنوب میں رابطہ ممکن بنانے کی شرط متعین کی ہے۔ ممکن ہے کہ نیتن یاہو نے مذاکرات میں اس شرط کے شرط لازم میں بدلنے سے پہلے ہی، اس شرط کو قبول کر لیا ہے اور اسی بنا پر غزہ سے پسپا ہو گیا ہو۔

صہیونیوں کے ہرمیس ڈرون کا مارگرایا جانا، لبنانی مقاومت کی دفاعی صلاحیت کا ثبوت

ہم نے ایک بہت مہنگے اور جدید قسم کے صہیونی ڈرون ہرمیس [یا ایلبٹ ہرمیس 900 (Elbit-Hermes900)] طیارہ مار گرایا، حالانکہ یہ ڈرون صہیونی صنعت کا "فخر" کہا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد اس طیارے کی فوجی اور تجارتی قدر ختم ہو گئی، ہم البتہ یہ نہیں بنائیں کہ ہم نے اس ڈرون کو گرانے کے لئے کونسا ہتھیار استعمال کیا۔

دشمن نے کہا کہ اس ڈرون کا مار گرایا جانا، صہیونیوں کے نزدیک سرخ لکیر پار کرنے کے مترادف ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ "کس نے کہا ہے کہ ہم تمہاری سرخ لکیروں کو پار نہیں کریں گے؟

یہ کاروائی اس لئے اہم ہے کہ ہم نے ہرمیس ڈرون کو جنگ کے آگلے مورچوں میں گرا دیا اور دشمن اب مقاومت لبنان کی فضائی دفاعی صلاحیتوں کو بہتر سمجھ سکے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110