اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : اردونیوز
منگل

6 فروری 2024

11:10:52 PM
1435854

پاکستان کو ’ہیلنگ ٹَچ‘ کی سخت ضرورت ہے... پاکستانی سینیٹر مشاہد حسین سید

پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات اور طویل سیاسی تجربہ رکھنے والے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’اس وقت ملک کو دہشت گردی اور معیشت کے بحران کا سامنا ہے اور سیاسی طور پر منقسم پاکستان کو دستِ شفا یا ’ہِیلنگ ٹَچ‘ کی ضرورت ہے۔‘

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ بحوالہ اردو نیوز

مشاہد حسین سید نے سعودی صحافی فہیم الحامد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک انوکھا الیکشن ہے۔ پاکستان کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔ الیکشن میں شامل سیاسی جماعتیں تقسیم ہیں۔ یہ ایک ’مفلوج پاکستان‘ ہے۔ اس بات چیت میں سینیئر تجزیہ کار سرور باری بھی موجود تھے۔

مشاہد حسین سید نے پاکستان کو درپیش چیلنجز معاشی مسائل، امن امان کی صورتِ حال اور بحرانوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’گذشتہ چھ برسوں میں (2017 سے 2024 تک) ہمارے چھ وزرائے اعظم تھے۔ میں تو اسے ’سافٹ کُو‘ [نرم بغاوت] کہتا ہوں، ایک حکومت آتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ ان مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی ایک شخص، حکومت یا ادارہ یہ مسائل حل نہیں کر سکتا، یہ صورتِ حال مشترکہ لائحہ عمل کی متقاضی ہے جس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘

’سیاسی جماعتوں کو ’رولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے‘

مشاہد حسین سید کے مطابق ’دہشت گردی کا مقابلہ ہو، معاشی بحران ہو، یا ہیلنگ ٹَچ دینا ہو، تمام سیاسی جماعتوں کو ’رُولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے ورنہ یہ اقتدار یا کرسی کے لیے نہ ختم ہونے والی دوڑ بن جاتی ہے۔‘

انتخابی امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار سرور باری نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا سب سے بڑا معاملہ ایک ایسی اشرافیہ ہے جو خود کوئی اتفاق رائے کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی عوام کو ترقی میں کوئی حصہ دینا چاہتی ہے۔‘

 انہوں نے پاکستان میں شرح خواندگی کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان تعلیم کے لحاظ سے خطے میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں شرح خواندگی 70 فیصد سے زیادہ ہے اور پاکستان میں ابھی تک 58 فیصد ہے۔ اگر خواتین کی شرح خواندگی دیکھیں تو وہ بہت ہی کم ہے۔‘

’کچھ علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب، بلوچستان اور دیہی سندھ میں خواتین کی شرح خوانگی 20/30 فیصد سے بھی کم ہے۔ کہیں کہیں تو 10 فیصد بھی ہے۔‘

’پاکستانی اشرافیہ کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں‘

سرور باری نے ’ہیلنگ ٹچ‘ کی ضرورت کے مشاہد حسین سید کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’اشرافیہ اپنے ہی کسانوں اور مزدوروں پر ظلم کرتی رہی تو پاکستان میں کوئی ’ہیلنگ ٹچ‘ آ نہیں سکتا۔ پاکستان کے کل رجسٹرڈ ووٹرز میں سے کسی بھی حکومت کے پاس 18 فیصد سے زیادہ ووٹ بینک نہیں تھا۔‘

’پاکستان کی اشرافیہ کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ عوام کو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن 90 فیصد عوام کا گورننس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘

’یہ ایک مسلسل خلا ہے جسے کوئی بھی ایسی نئی حکومت پُر کر سکتی ہے جو ایک نیا اور متقفہ نعرہ دے۔ توقع ہے کہ عوام اس کے پیچھے چلیں گے۔‘

فہیم الحامد نے کہا کہ ماضی میں جو ہو گیا، اس پر پاکستانی عوام اور فیصلہ ساز دوبارہ نہیں رونا چاہتے، وہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، آپ کے خیال میں اس کا کیا حل ہے؟ پاکستان کو درپیش مسائل کا حال کیا ہے؟

اس پر سرور باری باری کا کہنا تھا کہ ’میں یہ کہوں گا کہ سب سے پہلے پاکستان کی حکومت اور حکمران اشرافیہ آئین کے مطابق لوگوں کے مسائل حل کرے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل تین کہتا ہے کہ ریاست ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کرے گی۔‘

پاکستان کی خارجہ پالیسی بالخصوص دیگر برادر ممالک سے تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہی کہہ رہا ہوں کہ ہمیں پاکستانی معاشرے اور اس کی معیشت پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور ہمیں بین الاقوامی تعلقات میں اپنا کردار کم کرنا چاہیے۔‘

’اس نکتے پر ممکن ہے مشاہد صاحب کو مجھ سے اختلاف ہو، اس پر ہم بحث کر سکتے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام پر انٹرنیشنل سیاست نہیں مسلط کر سکتے۔‘

میزبان فہیم الحامد نے پاکستان کی خارجہ پالیسی بالخصوص سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے تعلقات کے مستقبل کی جہتوں پر مشاہد حسین سید کے سامنے سوال رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی ایک ملک کی اندرونی قوت کی توسیع ہوتی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

’پاکستان خطے کے ممالک کو جوڑ سکتا ہے‘

مشاہد سید نے کہا کہ ’اگر ہمارے ملک کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ ٹھیک نہیں ہیں تو آپ دوسرے ممالک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ میرے خیال میں پاکستان تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں یہ خطے کو جوڑنے میں بہت اچھا کردار ادا کر سکتا ہے۔ علاقائی سطح پر معاشی روابط استوار کرنا سب سے اہم ہوگیا ہے اور اس کے لیے ہماری پوزیشن موزوں ہے۔‘

’جو افغانستان میں ایڈونچر تھا اور جو افغان پالیسیاں تھیں، میں ان کا بہت دیر سے ناقد تھا۔ جب میں ’دی مسلم‘ اخبار میں صحافی کے طور پر کام کر رہا تھا، اس وقت بھی میں اس پالیسی کا ناقد تھا کیونکہ ہم نے غلطیاں کیں، ان کے معاملات میں مداخلت کی اور حکومتیں مسلط کیں، اب وقت بدل چکا ہے، پوری دنیا بدل گئی ہے، ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہت اچھے روابط رکھنے چاہییں۔‘

’ہمیں معاشی روابط پر توجہ دینی چاہیے‘

’چین کے علاوہ ہمارے چار پڑوسیوں میں سے تین کے ساتھ مسائل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پاک چائنا اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے ذریعے اپنے روابط بہتر بنائیں، اپنی لوکیشن کے اعتبار سے ہم اقتصادی طور پر ایک ابھرتے ہوئے گریٹر ساؤتھ ایشیا کو دیکھ رہے ہیں جس میں چین، خیلجی ممالک، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔یہ ہمارا ہدف ہونا چاہیے کہ ہم معاشی روابط پر فوکس کریں اور پرانی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔‘

’ہیلنگ ٹَچ کی پورے خطے کو ضرورت‘

مباحثے کے دوسرے مہمان تجزیہ کار سرور باری نے کہا کہ ’میں مکمل طور پر مشاہد حسین صاحب سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہم پاکستان میں اور اس خطے میں پرامن مستقبل دیکھنے کے لیے پرامید ہیں۔ ‘

’اگرچہ غزہ میں جنگ ہو رہی ہے لیکن میرے خیال میں یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے کیونکہ یورپ اور شمالی امریکہ میں سول سوسائٹی کا (جنگ بندی کے لیے) اپنی حکومتوں پر کافی دباؤ ہے۔‘

’مشاہد حسین نے جو پاکستان کے لیے ’ہیلنگ ٹچ‘ کی بات کی ہے، اس ’ہیلنگ ٹچ‘ کے پورے خطے کو ضرورت ہے۔ امن کا قیام پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ لوگوں کی ترقی اسی سے مشروط ہے۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110