اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

2 فروری 2024

9:23:51 AM
1434473

طوفان الاقصی؛

اردن میں خفیہ امریکی اڈے "ٹاور 22" پر ڈرون حملے کے چار روز

اردن میں ایک بالکل خفیہ امریکی اڈہ، ٹاور-22، چار روز قبل ایک ڈرون حملے کا نشانہ بنا تو امریکہ نے بہت شرو و غل مچایا، ڈھینگوں اور شیخیوں سے کام لیا، کہ وہ مقاومت پر حملے کرے گا۔ اس نے انتہائی سنگین حملوں کی دھمکیاں دیں لیکن ابھی تک ایسا انتقامی حملہ کرنے کا فیصلہ نہیں کر سکا ہے کہ جس کے بعد اسے ایک نئی اور دکھوں بھری دلدل میں نہ دھنسنا پڑے!

 اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، سینٹکام کے کمانڈروں نے ابتداء میں ایران کی ڈرون قوت کا یکسر انکار کر دیا تھا لیکن دو سال قبل سینٹکام کے کمانڈر نے اعتراف کیا کہ ایران کی ڈرون اور میزائل صلاحیت نے 75 سالہ امریکی بالادستی کو چیلنج کر دیا ہے۔

ایران کی اس صلاحیت کا ایک چھوٹا سا اظہار یوکرین کی جنگ میں اس وقت ہؤا جب روس نے ایران سے خریدے ہوئے ڈرونز کے ذریعے یوکرین کی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔

اس سے بڑا دھچکا امریکہ کو یہ جان کر ہؤا کہ لبنان سے یمن اور عراق تک، مقاومت اسلامی نہ صرف ڈرون طیاروں اور میزائلوں سے لیس ہے بلکہ میزائل اور ڈرون خود تیار بھی کرتی ہے۔

مختلف النوع ڈرون طیاروں اور میزائلوں نے جنگ غزہ کے چار مہینوں میں ایلات، حیفا اور اشدود کی صہیونی تزویراتی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا اور ایلات کی تو بالکل چھٹی کر دی اور غاصبوں کے معاشی استحکام پر ضربیں لگا دیں۔

بعدازاں مقاومت نے صہیونی جرائم میں برابر کے شریک امریکہ کے ناجائز فوجی اڈوں کو 170 سے زیادہ مرتبہ، نشانہ بنایا۔ تازہ ترین اور پیچیدہ ترین ڈرون حملہ اردن میں بالکل خفیہ امریکی اڈے "ٹاور-22" پر ہؤا جس میں 4 امریکی فوجی ہلاک اور 40 زخمی ہوئے۔

یہ امریکیوں کے لئے انٹیلی جنس، سیکورٹی اور فوجی لحاظ سے اتنا بڑا دھچکا تھا کہ انہیں کہنا پڑا: ہمارے ریڈار سسٹم نے حملہ آور ڈرون کو "اپنا" سمجھا اور اسے اپنے اڈے میں آنے دیا! مقاومت نے البتہ صرف جزوی نقصان پہنچانے کا فیصلہ کیا تھا ورنہ تو اس خفیہ اڈے میں، جس کا شاید اردنی حکومت کو بھی علم نہیں تھا، 300 امریکی فوجی تعینات تھے!

امریکہ چاہے تو تناؤ کو کم کرے چاہے اس میں شدت لائے، لیکن حقیقت وہی ہے جو فارن پالیسی میگزین نے لکھا اور وہ یہ کہ امریکہ کا مفاد اسی میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اپنی نفری اور زد پذیر اڈوں میں کمی کر دے۔ یہی تجویز واشنگٹن پوسٹ میں ڈیوڈ اگنیٹس (David Ignatius) نے بھی دی۔

ٹاور-22 میں 4 امریکیوں کی ہلاکت ڈیموکریٹ حکومت کے لئے یقینا ہولناک ہے جو ریپبلکن حریفوں کی طرف کی لعنت ملامت کا باعث بنی ہے لیکن پہلی بات یہ ہے کہ چار ہلاکتیں مقاومتی تحریکوں کے درجنوں شہیدوں کے مقابلے میں ناچیز ہیں جنہیں امریکہ نے عراق اور شام میں قتل کر دیا ہے، جن کے بدلہ اسے چکانا پڑے گا؛ دوسری بات یہ کہ ریپبلکن ٹرمپ انتظامیہ بھی مقاومت کے مقابلے میں شکست کھا گئی تھی، اس نے شام پر حملے کا اعلان کیا لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہی۔

یہ کہ کیا امریکہ عقل و ہوش کے ناخن لے کر کشیدگی کم کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اپنی حماقتوں کی فہرست میں ایک نئی حماقت کا اضافہ کرتا ہے، اس کا جواب وقت دے گا۔

بایں حال، امریکیوں نے رجز خوانیوں اور شیخیوں کے باوجود اب تک اپنی ممکنہ انتقامی کاروائی کے نتائج کو بھانپ لیا ہے اور چار دن گذرنے کے باوجود اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایسے کسی حملے کی صورت میں متحدہ مقاومت تحفظات اور سرخ لکیروں کو بالائے طاق رکھ کر اس کے فوجی اڈوں اور فوجی بیڑوں اور فوجی نفری نیز اس کے معاشی مفادات کو بلا تکلف نشانہ بنائے گی۔

یہی مشکل حساب و کتاب ہی چار روزہ امریکی تحمل کا راز ہے۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بحران کے نئے مرحلے کے آغاز کے ساتھ مقاومت کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جائے گا اور امریکیوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: محمد ایمانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔

110