اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

2 فروری 2024

6:23:40 AM
1434451

ایران کی خلائی ترقی پر یورپ کی ناراضگی قابل فہم ہے + تصاویر

عرصہ قبل جب ایران نے اپنے دفاعی میزائلوں ـ بالخصوص شہاب کلاس میزائلوں ـ کو متعارف کرایا تو مغربی ممالک نے دیکھا کہ ایک نئی علاقائی اور بین الاقوامی طاقت ابھر آئی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، محمدجواد اخوان نے اپنے مضمون میں لکھا:

خبر یہ تھی کہ ایران نے قائم سیٹلائٹ کیریئر کے ذریعے اپنا ایک سیارچہ زمین کے مدار میں تعینات کیا تو تین یورپی ممالک "برطانیہ، فرانس اور جرمنی"  نے اس اقدام کی مذمت کی، اور کہا کہ ان کی مذمت کا سبب یہ ہے کہ قائم سیٹلائٹ کیریئر کی فنی خصوصیات دور مار میزائلوں کی ٹیکنالوجی سے مماثلت رکھتی ہیں!

مذمت کا یہ جواز کہ "سیٹلائٹ کیریئیر اور دورمار بلیسٹک میزائل کی نوعیت ایک جیسی ہے"، مغرب کے مکرر در مکرر بہانوں میں سے ایک ہے۔ عرصہ قبل جب ایران نے اپنے دفاعی میزائلوں ـ بالخصوص شہاب کلاس میزائلوں ـ کو متعارف کرایا تو مغربی ممالک نے دیکھا کہ ایک نئی علاقائی اور بین الاقوامی طاقت ابھر آئی ہے۔

کم فاصلے، درمیانی فاصلے اور طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل، روایتی ہتھیار ہیں، چنانچہ ان کی مخالفت کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ حتی اگر ہم سلامتی کونسل کی سابقہ ظالمانہ قراردادوں کو بھی نظر میں رکھیں، تو پہلی بات یہ کہ قراردادیں اسلحے کی منتقلی اور فروخت کے بارے میں تھیں، جو ناقابل نفاذ تھیں اس لئے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی مقامی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے وہی قراردادیں بھی اکتوبر 2023ع‍ میں کالعدم اور غیر معتبر ہو گئیں۔

میزآئل، ڈرون سمیت، ایران کی دفاعی ٹیکنالوجیز کی ترقی ایران کی سلامتی کے ڈاکٹرائن کا جزو ہے، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ تسدیدی صلاحیت (Deterrence capability) ہے۔ یہ ڈاکٹرائن ایران کی قومی سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؛ مقصد تمام خطروں کو اس آب و خاک سے دور رکھنا ہے۔ ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کی کیفیت اور کمیت اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی ضروریات اور درپیش خطروں سے نمٹنے کے تقاضوں کے عین مطابق ہے چنانچہ سیاسی اور سفارتی دباؤ اس حوالے سے کسی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتا۔ ایران کے میزائلوں کی رینج کا تعین تہران میں ہوتا ہے، اور کوئی بھی غیر ملکی طاقت اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔

مغرب کو یاد ہوگا کہ ایک عشرہ قبل جب جامع ایٹمی معاہدے سے قبل کے مذآکرات ہو رہے تھے، تو وہ اس معاہدے کے سانچے میں ہی ایران کے میزآئل پروگرام کو محدود کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ یہاں تک کہ مغرب نوازوں نے ایران کے خلائی پروگرام کو بھی [جو ایک پرامن غیر عسکری پروگرام ہے] محدود کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ مغرب اور نہ ہی مغرب نواز اپنی اس کوشش میں کامیاب نہيں ہو سکے، اور ایران کے دفاعی پروگرام اور پرامن خلائی پروگرام کو فروغ ملا، اور مغرب کا آج کا غم و غصہ اس قابل قدر ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔

بہرحال خلائی پروگرام میں عظیم پیشرفت سے امریکہ اور مغربی یورپ کی آشفتہ حالی قابل فہم ہے۔ اس مغربی غصے کی سب سے آسان فہم تہہ یہ ہے کہ ایران نے دفاعی دفاعی صلاحیت کی وہ سطح حاصل کر لی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی اس سے بھی اوپر کی سطح یہ ہے کہ ایران ایسی خلائی قوت بن گیا ہے جو خلائی ٹیکنالوجی کی بے شمار حصولیابیوں کو عوام کی روزمرہ زندگی ـ بشمول معیشت، مواصلات، زراعت، موسمیات، نقشہ سازی اور معدنیات کی تلاش نیز [سب سے بڑھ کر] بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے دشمن کی نقل و حرکت پر نگرانی ـ کے میدانوں میں بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ دشمن کو ناراض ہی ہونا چاہئے۔

دشمن کے لئے یہ حقیقت اور بھی باعث پریشانی ہے کہ خطے اور دنیا میں کوئی بھی چیز اسلامی جمہوریہ ایران کے سیارچوں کی گہری نظروں سے مخفی نہیں رہ سکے گی اور حالیہ مہینوں میں بھی ایران کے دشمنوں نے ان صلاحیتوں کی برکتوں کا مشاہدہ کر لیا ہے۔ یہ ان کی ناراضگی کا سبب ہی تو ہے۔

اس سے بھی آگے، یورپیوں کے غم و تشویش کا اصل سبب ایران کی تیز رفتار سائنسی ترقی اور بڑھتی ہوئی سائنسی اور فنی طاقت ہے اور جو چیز انہیں مزید ناراض کرتی ہے یہ ہے کہ وہ گاجر اور لاٹھی پالیسی کے مختلف النوع ہتھکنڈوں سے ایران کی فنی صلاحیتوں کا راستہ نہیں کر سکے ہیں۔ ملک کے اندر کے مغرب نواز کمزو پر گئے ہیں، جو لوگ امریکہ کو دنیا کا نمبردار سمجھتے تھے اور اس کی خوشنودی کو پہلا مقصد سمجھتے تھے، وہ عرصہ ہؤا کہ جمہوری انداز سے، اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، وہی جو ترقی کی رفتار تو کم کرنے میں مؤثر رہے تھے مگر اس ترقی کا راستہ نہیں روک سکے ہیں۔ پورا ماجرا یہ ہے کہ ایرانی قوم نے معاصر شاعر "علی اکبر آزادی 'گلشن'،"، (متوفی 1974ع‍) کے اس شعر کا مفہوم بخوبی سمجھ لیا ہے کہ:

برو قوی شو اگر راحت جهان طلبی

که در نظام طبیعت ضعیف پامال است

 ترجمہ:

اگر دنیاوی آسودگی چاہو تو قوی [اور مضبوط] بنو

کیونکہ نظام قدرت میں جو کمزور ہوتا ہے اسے روندا جاتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110