اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، اقوام
متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے منگل کے روز
بعض ذرائع ابلاغ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا: گذشتہ دو دنوں کے دوران ایران
اور امریکہ کے درمیان پیغامات کا تبادلہ نہیں ہؤا ہے، لیکن اس کے باوجود، یہ اسلامی
جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی ہے کہ جو بھی ایرانی سرزمین یا ایران کی سرحدوں سے
باہر ایرانی مفادات اور شہریوں پر حملہ کرے گا اس کو فیصلہ کن اور طاقتور جواب
جواب دیا جائے گا۔
کچھ ذرائع نے دعوی کیا تھا کہ واشنگٹن نے ایران کو پیغام دیا ہے کہ امریکہ وسیع پیمانے پر جنگ کا خواہاں نہیں ہے اور اگر جنگ کا دائرہ وسیع تر کیا جائے تو امریکہ جوابی اقدام کرے گا اور ایران نے کہا ہے کہ ایرانی سرزمین پر حملہ سرخ لکیر ہے اور اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ 28 جنوری 2024ع کو اردن میں ایک چھوٹے امریکی فوجی اڈے پر رات کے وقت ڈرون حملہ ہؤا جس میں 3 امریکی فوجی ہلاک اور 40 زخمی ہوئے تھے۔
مورخہ 17 اکتوبر 2023ع سے، غزہ پر صہیونیوں کی جارحیت میں شدت آنے کے بعد، شام اور عراق میں امریکی قابضوں کے متعدد اڈوں کو ڈیڑھ سو سے زائد میزائل، راکٹ اور ڈرون طیاروں کے حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور یمن نے بھی امریکی اور صہیونی مفادات پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہؤا ہے۔ یمن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر جنگ بند نہ ہونے کی صورت میں خطے میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔
امیر سعید ایروانی نے پیر کے روز سلامتی کونسل کے سربراہ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ خطے میں کسی بھی فرد یا گروپ کی کاروائی کی ذمہ داری اسلامی جمہوریہ ایران پر عائد نہیں ہوتی۔
انھوں نے لکھا ہے: پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ عراق، شام یا کسی بھی دوسرے ملک میں کوئی بھی گروپ یا تنظیم اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج سے وابستہ نہیں ہے اور کوئی بھی ایران کی جانب سے اقدام نہیں کرتا بلکہ مقاومتی تنظیمیں اپنی ذمہ داریوں کا تعین خود کرتی ہیں؛ ایران کا کوئی بھی پراکسی گروپ نہیں ہے بلکہ یہ تنظیمیں اپنے ملکی اور علاقائی مفادات کو نظر میں رکھتی ہیں۔
انھوں نے مزید لکھا: شام اور عراق میں امریکی اقدامات بھی غیر قانونی، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کے دفعہ 2 (4) کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں، چنانچہ ان ممالک میں کوئی بھی اقدامات قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
110