اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

22 جنوری 2024

5:42:10 PM
1431548

طوفان الاقصی؛

انصار اللہ بحیرہ قلزم میں جو بائیڈن کو شکست دے رہی ہے۔۔۔ امریکی اخبار

ایک امریکی اخبار نے مغربی ایشیا میں انصار اللہ یمن کی طاقت کا اعتراف کیا اور کہا کہ انصار اللہ بحیرہ قلزم کی بند گلی میں، جو بائیڈن انتظامیہ کو مات دی ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، امریکی جریدے انٹرسپیٹ (Intercept) نے اپنی رپورٹ بعنوان "Houthis May Have Checkmated Biden in Red Sea Standoff" میں انصار اللہ کی طاقت اور اس کے صہیونی ریاست سے متعلق جہازوں کو نشانہ بنانے والے کامیاب میزائل حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انصار اللہ کو مغربی ایشیا کی ایک طاقتور قوت قرار دیا۔ 

انٹرسپیٹ (Intercept) کی رپورٹ کا خلاصہ درج ذیل ہے:

حالیہ تین مہینوں کے دوران بحیرہ قلزم (قلزم) میں انصار اللہ کے حملوں نے صہیونی ریاست کو غزہ پر زمینی حملے کم کرنے پر مجبور کیا اور غزہ کو بین الاقوامی امداد کی ترسیل بھی [کسی حد تک] بحال ہوگئی۔

امریکہ اور برطانیہ نے حال ہی یمن پر حملے کئے، امریکہ نے گذشتہ ہفتے سے اب تک انصار اللہ کے ٹھکانوں پر پانچ فضائی حملے کئے جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ انصار اللہ کے حملوں میں شدت آئی اور ڈرون اور میزائل حملوں میں اضافہ ہؤا اور انہوں نے امریکی تجارتی بحری جہاز اور امریکی بحریہ کے ایک جنگی جہاز کو نشانہ بنایا۔

امریکی برطانوی اتحاد کے حملوں کی وجہ سے انصار اللہ کی جرأت اور ہمت میں اضافہ ہؤا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اعتراف کیا کہ امریکی حملے انصار اللہ کو روک نہیں سکے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے انصار اللہ پر حملے کا فیصلہ کرکے خود کو انصار اللہ کے مقابلے میں ایک جغ-سیاسی (Geopolitical) شکست کے خطرے سے دوچار کیا ہے۔

یقینا انصار اللہ کے خلاف امریکی حملے ایک طرف سے جہاز رانی میں خلل پڑنے کا سبب بن رہے ہیں اور آخرکار یہ حملے ایک ہمہ جہت علاقائی جنگ پر منتج ہونگے۔

امریکی اور برطانوی اپنے حملے کے باوجود انصار اللہ کا راستہ روکنے میں ناکام رہے تو گذشتہ بدھ [17 جنوری 2024ع‍ کو]، امریکی وزارت خارجہ نے نیا رویہ اپنایا اور انصار اللہ کا نام عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں درج کر دیا۔

اس کے باوجود انصار اللہ نے اس امریکی اقدام کے دو گھنٹے بعد ہی ایک امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنایا۔

واشنگٹن میں خارجہ پالیسی کے تھنک "ڈيفنس پریارٹیز" (Defense Priorities) کے رکن ڈینیئل ڈپٹرس (Daniel depetris) کا خیال ہے: "بظاہر بائیڈن انتظامیہ  کو توقع ہی کہ انصار اللہ کی عسکری قوت کمزور ہوگی تو وہ رک جائیں گے لیکن ایسا ہوتا ہؤا نظر نہیں آ رہا ہے۔ سعودی بھی سمجھتے تھے کہ وہ انصار اللہ کے سیاسی مطالبات کو نظر انداز کرکے صرف فوجی طاقت سے حوثیوں کو شکست دیں گے، لیکن ناکام ہو گئے۔

انٹرسیپٹ مزید لکھتا ہے:

انصار اللہ طاقتور ہے، انصار اللہ کے پاس کسی زمانے میں ایک بکھری ہوئی چھوٹی سی فوج تھی لیکن طویل جنگ اور بیرونی مداخلتوں کے ان برسوں میں وہ بہت بڑی فوجوں پر ضرب لگانا سیکھ گئے ہیں۔

امریکہ کے فضائی حملے نہ صرف انصار اللہ کو کمزور نہیں کر سکے ہیں بلکہ مغربی ایشیا میں اس تحریک کی پوزیشن کو تقویت پہنچائی ہے۔ عرب ممالک کے درمیان رائے شماری کے نتائج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غزہ کی جنگ کے بعد سے اس خطے کے عوام کا خیال امریکہ کے سلسلے میں بہت منفی ہو چکا ہے اور امریکہ کی نسبت غیظ و غضب اور ناامیدی میں شدید اضافہ ہؤا ہے۔

رائل یونائٹڈ سروسز (Royal United Services) کے یمنی تجزیہ نگار براء شیبان نے کہا ہے کہ "خواہ امریکہ یہ دعوی ہی کیوں نہ کرے کہ یہ حملے وہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اسرائیلیوں کی جانب سے ہو رہے ہیں اور ہم [امریکیوں] سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، پھر پھر بھی عرب دنیا کے لوگ ان دعوؤں کو قبول نہیں کریں گے"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110