اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : شیعیت نیوز
اتوار

21 جنوری 2024

5:01:10 PM
1431301

پاک ایران عارضی سفارتی تعطل سے کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ؟خصوصی رپورٹ

پاکستانی صوبے بلوچستان کے عوام کا کہتے ہیں: ہماری روزی، روٹی یہیں سے آتی ہے۔ پٹرول کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی آتا ہے۔ بس اب دعا ہے کہ یہ بند نہ ہو۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق، پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں عام دنوں کافی بھیڑ ہوتی ہے جس کی بڑی وجہ ایرانی سرحد سے ہونے والا سامان تجارت خصوصاً ایرانی تیل ہے۔ اس بار نہ صرف بھیڑ معمول سے زیادہ تھی بلکہ یہاں آئے لوگے بے چینی، جلدبازی اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار تھے۔

تربت میں ایرانی تیل کی ایک بڑی منڈی ہے، جہاں موجود افراد ـ خصوصاً ایرانی تیل لانے والے ـ عجلت میں تھے اور جلد از جلد اپنا کام مکمل کر نا چاہتے تھے، کیونکہ خدشہ تھا کہ ایران اور پاکستان پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کی سرحد بند کر دی جائے۔

بلوچستان کے جنوب مغربی شہر سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ایرانی سرحد ہے اور ایرانی شہر سراوان سرحد کے قریب پڑتا ہے۔ سراوان وہ شہر ہے جہاں پاکستان نے 17 جنوری کو ایرانی میزائل حملے کے جواب میں ’دہشتگردوں کے ٹھکانوں‘ کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔

یاد رہے کہ ایران کی جانب سے 16 جنوری کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ’سبز کوہ‘ میں شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا گیا تھا

جبکہ ایرانی حملے کا ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان نے 17 جنوری کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں ایرانی حکام کی جانب سے تین عورتوں اور چار بچوں سمیت نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

تربت کی منڈی میں موجود افراد میں سے ایک نے بتایا:

کشیدگی کے دوران تربت شہر میں معمول سے زیادہ سیکورٹی نظر آئی، فوج، ایف سی اور پولیس کی گاڑیاں شہر میں گشت کر رہی تھیں، جبکہ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سنیپ جیکنگ کا عمل جاری تھا۔

۔۔۔

جب میں [رپورٹر] کراچی سے تربت کی طرف روانہ ہؤا تو مجھے سب سے پہلے معمول سے زیادہ ٹریفک اور سیکورٹی چیکنگ کا احساس حب کے قریب ہوا تھا جہاں سڑک پر کھڑی مال برادر گاڑیوں، آئل ٹینکرز اور کنٹینرز کی ایک طویل قطار نظر آ رہی تھی۔

میں نے تربت پہنچ کر کچھ لوگوں سے بات کی تو علم ہوا کہ 16 جنوری کو ایران کی جانب سے ہونے والے حملے نے یہاں سب کو حیران کر دیا ہے۔ کیونکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں کبھی کشیدگی نہیں دیکھی گئی؛ دوطرفہ تجارت کے ساتھ ساتھ گیس پائپ لائن، بجلی ٹرانسمیشن سمیت بہت سے منصوبوں پر شراکت داری رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بارڈر مینجمنٹ سے متعلق بھی میکنازم موجود ہے۔ اور گذشتہ برسوں میں بلوچستان سے متصل ایرانی سرحد پر ہونے والا کوئی بھی واقعہ سرحد تک ہی محدود رہتا تھا۔

لیکن اس بار ایک غیر یقینی صورت حال ہر شحض کے چہرے پر عیاں ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کا روزگار ہی سرحد پر دو طرفہ تجارت سے جڑا ہے۔

مقامی لوگوں میں سے ایک کا کہنا تھا: ’ہماری روزی، روٹی یہیں سے آتی ہے۔ پٹرول کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی آتا ہے۔ بس اب دعا ہے یہ بند نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110