اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
ہفتہ

20 جنوری 2024

1:53:26 PM
1430857

دہشت گردی نامنظور؛

کیا کالعدم جیش العدل پاکستان میں مقیم نہیں ہے؟ کیا یہ ٹولہ پاکستانی مفادات پر حملے نہيں کرتا؟ + ویڈیو

ایرانی نے پاکستان کو بارہا دہشت گردوں کی معلومات فراہم کیں، جیسا کہ پاکستانی سفارتکارشہریارخان نے بھی کہا، لیکن ان کیخلاف کوئی اقدام نہیں ہؤا بلکہ وہ پاکستان میں باقاعدہ اڈوں کے مالک بنے۔ چنانچہ ایران نے 12 سالہ صبرکے بعد اقدام کرکے ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جو کہ ایران کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات پر حملے کرتے رہے تھے۔ لیکن پاکستانی ذرائع نے اندرونی رائے عامہ کو بے چین کر دیا حالانکہ جب امریکہ نے ہزاروں پاکستانیوں کو نشانہ بنایا تو ان ذرائع کو کبھی بھی پاکستانی حدود کا خیال نہیں آیا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس کو پاکستان کے خلاف جارحیت قرار دیا اور رائے عامہ کو بے چین کر دیا حالانکہ اس سے پہلے امریکہ نے سینکڑوں مرتبہ پاکستان کی مٹی کے اندر پاکستانی ہزاروں شہریوں کو نشانہ بنایا لیکن ان ذرائع کو حتی کہ ایک بار بھی پاکستان کی فضائی حدود کا خیال نہیں آیا۔

[واضح رہے کہ جنگ اخبار ویسے تو بین الاقوامی سطح کا اخبار کہلواتا ہے جو سفارتی اور صحافتی آداب سے آشنائی کا دعویٰ بھی رکھتا ہے لیکن ایرانی شہداء کے بارے میں اس کا لہجہ مؤدبانہ اور آداب صحافت و سفارتکاری سے سازگار نہیں ہے]۔

 

پاکستانی اخبار "جنگ" کی رپورٹ کالعدم ایرانی تنظیم جیش العدل کے بارے میں:

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاک ایران سرحدی علاقہ غیر مستحکم صورتحال سے دوچار ہے بلکہ ماضی میں بھی اسے تناؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ماضی کے چند واقعات کا خلاصہ، جن کی وجہ سے دونوں برادر ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے:

 

دسمبر 2023

ایران کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی دہشت گرد تنظیم ’جیش العدل‘ نے گذشتہ برس دسمبر میں ایرانی قصبے راسک میں پولیس اسٹیشن پر حملے کئے، ان حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم ’جیش العدل‘ نے قبول کی۔ جس کی پاکستان نے شدید الفاظ میں مذمت کی تھی!

۔۔۔

سوال: اگر ـ جیسا کہ پاکستانی ذرائع نے اعلان کیا کہ ـ جیش العدل کا مجفوظ ٹھکانہ کوہ سبز میں تھا، تو  تو کیا مذمت کافی تھی؟

 جون 2023

گذشتہ برس جون میں بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے سنگوان میں دہشتگرد مسلح گروہ نے 2 پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق باغی گروپوں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران دہشتگردوں نے ایران فرار ہونے کی کوشش کی جسے ناکام بنانے کے لیے پاک فوج نے ایرانی حکام سے رابطہ کیا اور دباؤ ڈالا کہ باغی گروپوں کو پناہ دینا بند کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔

سوال: اس دہشتگرد مسلح گروہ کا نام کیا تھا اور کیا پاکسانی فوجی ایران میں داخل نہیں ہوئے؟ ان دہشت گردوں کا ٹھکانہ کہاں تھا؟ کیا پاکستان نے ان کے محفوظ اڈے کی معلومات ایران کو فراہم کی تھیں؟

 

اپریل 2023

آئی ایس پی آر کے مطابق ضلع کیچ میں ایرانی باغی گروپوں نے جلگئی سیکٹر میں پاک افواج کے 4 جوانوں کو شہید کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

سوال: کیا ایرانی نہیں کہتے کہ یہ گروہ پاکستان کے بھی دوست نہیں ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کرنا ضروری ہے، یہ لوگ اگر ایرانی باغی گروپ سے تعلق رکھتے تھے تو یہ بہانہ لانا ممکن نہ ہوگا کہ انہیں ایران نے پناہ دی یا وہ بھاگ کر ایران میں چھپ گئے، تو ان کا ٹھکانہ کہاں تھا اور کہاں ہے؟

 

جنوری 2023

سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران سے منسلک بلوچستان کے سرحدی علاقے میں 4 سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کی مذمت کی تھی۔

پنجگور ضلع کے چکاب سیکٹر میں حملے کے بعد، پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کرے اور قصورواروں کا احتساب کرے۔ اسلام آباد میں ایرانی سفارت خانے نے بھی اس حملے کی مذمت کی۔

۔۔۔۔۔

سوال: سرحدی اہلکاروں کی شہادت کس کے ہاتھوں ہوئی ان کا نام یا عنوان کیا تھا کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے، لگتا ہے کہ ان کا تعلق بھی ایرانی باغی گروپوں جند اللہ اور جیش العدل سے ہی ہوگا، اور وہ پھر بھی کوہ سبز جیسے سرحد پار ٹھکانے میں پہنچ گئے ہونگے؛ اخفائے راز کا سبب کیا ہے؟

 

ستمبر 2021

سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے 4 ماہ کی بندش کے بعد 20 ستمبر کو جب دو طرفہ تجارت کے لیے دوبارہ سرحدیں کھولی گئیں تو ایران میں پناہ لینے والے دہشگردوں کی جانب سے ایران کی سرحدی حدود سے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں پاک فوج کا ایک اہلکار شہید ہوگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال: اس رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ سرحد کے کس حصے میں فائرنگ ہوئی اور فائرنگ کرنے والے کون تھے اور کہاں بھاگ کر چلے گئے؟

 

فروری 2021

ایران کے مطابق ان کے 2 انٹیلی جنس اہلکاروں کو دہشتگردوں نے پکڑلیا، جنہیں بچانے کے لیے ایرانی افواج پاکستانی حدود میں داخل ہوگئیں۔

۔۔۔۔۔۔

سوال: کیا ایرانی افواج پاکستان کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر داخل ہوئیں؟ اگر ہم آہنگی نہیں ہوئی تھی تو فوجی کیسے پاکستان میں داخل ہوئے؟

 

اپریل 2019

20 اپریل 2019 کو سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں مسافر بس کو ایرانی علیحدگی پسند گروپ کے مسلح افراد نے نشانہ بنایا۔ علیحدگی پسند گروپ کی جانب سے ہونے والے اس حملے کے نتیجے میں بحریہ کے 10 افسران، فضائیہ کے 3 اور 1 کوسٹ گارڈ شہید ہوگئے۔

۔۔۔۔۔

سوال: بڑی بات یہاں یہ ہے کہ "بلوچستان میں مسافر بس کو ایرانی علیحدگی پسند گروپ کے مسلح افراد نے نشانہ بنایا" جو ایران میں بھاگ کر پناہ نہیں لے سکتے تھے کیونکہ یقینا وہ ایرانی سیکورٹی فورسز کے لئے بھی مطلوب تھے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ تو ایرانی تو ایران نہیں گئے تو کہاں چھپ گئے، کیا وہ پھر کوہ سبز یا اس طرح کے کسی دوسرے ٹھکانے کی طرف نہیں بھاگے، وہی کوہ سبز جس پر ایران نے حملہ کیا اور شہید پاکستانی اہلکاروں کے قاتلوں کے اس اڈے کو تباہ کر دیا؟

 

دسمبر 2018

6 دسمبر 2018 کو ایران کے شہر چابہار میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر خودکش حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 42 عام شہری زخمی ہوگئے۔ ایران کے اس وقت کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں پر عائد کی تھی جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

۔۔۔۔۔۔۔

ایران کے اس وقت کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں پر عائد کی تھی، تو پاکستان نے مذمت کرکے اپنی ذمہ داری نبھا لی اور پناہ لینے والے دہشت گرد بحفاظت اپنے ٹھکانوں میں جشن فتح مناتے رہے؟ کیا مذمت کافی تھی؟ بھائی چاری کے تقاضوں کا کیا ہؤا؟

 

اکتوبر 2018

16 اکتوبر 2018 کو ایران کی اعلیٰ سیکیورٹی فورس کو مبینہ طور پر پاکستان سے منسلک جنوب مشرقی سرحد سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس کی ذمہ داری جیش العدل تنظیم نے قبول کی تھی۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے اس مسلح گروپ سے اغوا ہونے والے 12 میں سے کم از کم پانچ کو بازیاب کرانے میں ایران کی مدد کی تھی۔

۔۔۔۔

بہت شکریہ جناب بازیابی میں مدد دینے پر شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانی اداروں نے ایرانی اداروں  کے ساتھ ملک میں جاکر مغوی ایرانی اہلکاروں کو بازیاب کرایا؟ تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دہشت گرد ایرانی اہلکاروں کو اغوا کرکے پاکستان لائے تھے، جنہیں پاکستان سے بازیاب کرایا گیا! یعنی دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے پھر کوہ سبز جیسے ہی ٹھکانے ہونگے! اور پھر بھی سوال یہ ہے کہ وہ دہشت گرد پکڑے کیوں نہیں گئے اور ان کے اڈوں کو تباہ کیوں نہیں کیا گیا جنہوں نے ایرانی اہلکاروں کو اغوا کرکے پاکستان پہنچایا تھا؟ کیا بازیاب کرانے کے لئے دہشت گردوں کے سرغنوں سے مذاکرات نہیں ہوئے تھے؟

 

اپریل 2018

 17 اپریل 2018 کو ایرانی ذرائع کے مطابق صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر میرجاوہ میں ایک سرحدی چوکی پر دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں 3 ایرانی سیکیورٹی اہلکار مارے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال: میرجاوہ پاکستانی سرحد سے بہت قریب ہے، اور سوال یہ ہے کہ وہ دہشت گرد کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے؟ کیا پاکستان نے انہیں پکڑ کر سزا دی یا انہیں ایران کے حوالے کر دیا یا نہیں انہیں بحفاظت اپنے خفیہ اڈوں میں چھپنے دیا گیا؟

 

جون 2017

22 جون 2017 کو پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے پاکستان کے علاقے پنجگور میں پرواز کرنے والے ایک ایرانی ڈرون کو مار گرایا۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے ایران کا کوئی ڈرون مار گرایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

سوال: یہ ڈرون کس لئے پاکستانی علاقے میں گھس آیا تھا؟ کیا اس کا نشانہ کوہ سبز میں دہشت گردوں کا محفوظ اڈہ نہیں تھا؟ جب پاکستانی طیارے نے ڈرون کو گرایا تو پاکستانی فورسز نے اس قصے کی بنیاد اکھاڑنے اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے کیا کیا اقدامات کئے؟ جب تک شر کی جڑ باقی ہو تو کیونکر توقع کی جا سکتی ہے کہ 2024ع‍ تک یہ دہشت گرد ٹولے ایران کے خلاف اقدام نہیں کریں گے اور ایرانی فضائیہ مجبور ہو کر آخر کا ان کے اڈوں کو نشانہ نہیں بنائے گا؟ اگر پاکستان خود ہی ان کی جڑیں اکھاڑ پھینکتا تو کیا آج ہم سرحدی کشیدگی کے اس مرحلے تک پہنچتے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستانی طیارے طویل فاصلوں سے آکر ایک ڈرون طیارے کو تو مار گرا سکتے ہیں لیکن وہ دہشت گردوں کو ٹھکانوں کو تباہ نہیں کر سکتے؟

 

اپریل 2017

26 اپریل 2017 سیستان بلوچستان کے شہر میرجاویہ میں 10 ایرانی سرحدی محافظ مارے گئے جن کی ذمہ داری جیش العدل نے قبول کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔

پھر بھی کالعدم تنظیم جیش العدل، پھر پاکستانی سرحد سے ملحقہ میرجاوہ، پھر بھی ایرانی فوجیوں کی شہادت، پھر بھی پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے مذمت، پھر بھی دہشت گردوں کا پاکستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چھپ جانا پھر بھی ان کے خلاف پاکستان کا کوئی اقدام نہ ہونا۔۔۔ تو کیا ایران اپنی سلامتی کو دہشت گردوں کے حوالے کر سکتے ہیں؟ جو بھی پاکستانی اہلکار ایران کے بارے میں موقف اپناتا ہے تو لفظ "برادر" کو کبھی نہیں بھولتا اور سب کہتے ہیں کہ "برادر ملک ایران"، تو بھائی بندی کا تقاضا یہی ہے؟

 

جنگ لکھتا ہے:

واضح رہے کہ ایرانی کالعدم تنظیم جیش العدل 2013 سے ایرانی سرحدی سیکیورٹی فورسز کے خلاف سرگرم ہے۔ 2013 میں پاک ایران سرحد پر گھات لگا کر کئے گئے حملے میں 14 ایرانی فوجی مارے گئے تھے۔

2014 میں ایرانی سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 5 ارکان کو اغوا کیا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

سوال: 2013ع‍ میں کالعدم ایرانی تنظیم کے دہشت گرد پاک ایران سرحد پر گھات لگا کر اور ایرانی اہلکاروں کو شہید کرکے پھر کہاں گئے؟ کیا ان کا ٹھکانہ پاکستان کے اندر نہیں تھا اگر نہیں تھا تو وہ پاک ایران سرحد پر گھات لگانے کہاں سے آئے تھے؟

2014ع‍ میں کالعدم ایرانی تنظیم نے پانچ اہلکاروں کو اغوا کرکے کہاں پہنچایا تھا؟

 

دسمبر 2010

اس سے قبل دسمبر 2010 میں چابہار میں ایک مسجد کے قریب خودکش حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 41 افراد شہید اور 90 زخمی ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے منگل کی رات پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں جیش العدل نامی تنظیم کے دو ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ۔

پاکستان نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا جبکہ پاکستان میں مقیم ایرانی سفیر کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال: مذکورہ بالا رپورٹوں اور ہمارے سوالوں سے بھی واضح ہؤا اور جنگ کی اس مختصر خبر میں اس کا اعتراف پایا جاتا ہے، کہ ایران نے کالعدم جیش العدم کے ٹھکانوں پر حملے کئے ہیں اور صرف اپنے باغیوں کو نشانہ بنایا ہے، تو یہ سن کر جنگ سمیت دوسرے زرد اخبارات نے یہ مان کر بھی، ایران پر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام کیونکر لگایا؟ اور وزیرستان میں سینکڑوں امریکی ڈرون حملوں میں ہزآروں پاکستانیوں کے جان بحق ہونے پر انہیں پاکستان کی فضائی حدود کیوں نظر نہیں آئیں؟ امریکی سفارتی لفافے نہ ملنے کا خوف تو نہیں تھا، کہیں؟ اور اب کس سفارتخانے کے لفافوں کی توقع ہے؟

واضح رہے کہ ایرانی سفیر ایران میں تھے جن سے کہا گیا کہ وہ پاکستان نہ آئیں، اور اگر پاکستان میں ہوتے تو ایرانی ناظم الامور کو کیوں دفتر خارجہ طلب کیا جاتا؟

کسی غیر ملکی سفیر کو نکال دیا جائے تو اس کو ملک بدری کا نام دینا، کیا ایران کے ساتھ بغض کی علامت نہیں ہے؟ کیا اخبار جنگ اور باقی پاکستانی ذرائع امریکہ کے سینکڑوں حملوں اور ہزآروں پاکستانیوں کے قتل کو بھول کر، امریکی ـ صہیونی عزائم آگے بڑھانے کے لئے، ایران اور پاکستان کے درمیان جنگ کو ہوا نہیں دے رہے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقیہ جنگ رپورٹ:

ایرانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کی گئی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان نے آپریشن مرگ بر سرمچار کا آغاز کیا اور ایران میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، اس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔

۔۔۔۔

نکتہ: "مرگ بر سرمچار" کے نعرے سے پاکستانی رائے عامہ کا دل بہلایا جا سکے لیکن پاکستانی حملے میں دس پاکستانی جان بحق ہوگئے جن میں تین خواتین اور 4 بچے شامل ہیں!

۔۔۔۔۔۔۔۔

دہشت گرد اور علیحدگی تنظیم بی ایل ایف کا بیان، جس پر ـ مبینہ طور پر ـ پاکستانی فوج نے حملہ کیا: 

سوشل میڈیا پر بی ایل ایف کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں اس نے ایران میں اپنے کسی ٹھکانے کی موجودگی اور اپنے ساتھیوں کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران میں بی ایل ایف کا کوئی ٹھکانہ نہیں، پاکستانی حملے میں ساتھیوں کی شہادت کی خبر جھوٹی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے:

ہم میجر گہرام کے نام پر بیان کی تردید کرتے ہیں، بلوچستان لبریشن فرنٹ کا ایران میں کوئی ٹھکانہ موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان کے حالیہ حملوں مین بلوچستان لبریشن فرنٹ کا کوئی سرمچار شہید ہؤا ہے!

واضح رہے کہ پاکستان فوج نے ایک ایرانی بستی میں مقیم پاکستانی شہریوں پر حملے کا نام "مرگ بر سرمچار" رکھا تھا۔

بی ایل ایف کے بیان میں مزید کہا گیا ہے: سوشل میڈیا بی ایل ایف کے میڈیا ترجمان "آشوب لیٹر پیڈ" کو ایڈٹ کرکے میجر گہرام کے نامی جعلی خبر پھیلائی گئی ہے، جس کی تردید کی جاتی ہے۔

پی۔ این: ماہرین فیصلہ کریں گے کہ کس کی بات درست ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج نے بارہا حکومت پاکستان کو ان دہشت گرد ٹولوں کی معلومات فراہم کر دی ہیں جو پاکستان سے آکر ایران سیکورٹی فورسز پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ سابق سیکریٹری خارحہ شہریار خان نے پاکستانی نیوز چینل "جی ٹی وی" کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کیا، لیکن کسی بھی وجہ سے ان ٹولوں کے خلاف نہ صرف کوئی اقدام نہیں ہؤا بلکہ وہ پاکستان میں "کوہ سبز" جیسے جانے پہچانے اڈوں کے مالک بن بیٹھے۔ چنانچہ ایران نے 12 سال تک صبر کرنے کے بعد ان کے خلاف اقدام کیا اور ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جو کہ ایران کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات پر بھی حملے کرتے رہے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس کو پاکستان کے خلاف جارحیت قرار دیا اور رائے عامہ کو بے چین کر دیا حالانکہ اس سے پہلے امریکہ نے سینکڑوں مرتبہ پاکستان کی مٹی کے اندر پاکستانی ہزاروں شہریوں کو نشانہ بنایا لیکن ان ذرائع کو حتی کہ ایک بار بھی پاکستان کی فضائی حدود کا خیال نہیں آیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و حاشیہ نویسی: ابو فروہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110