اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعرات

4 جنوری 2024

2:08:08 AM
1426464

معصومین کی ولادت؛

20 جمادی الثانی سنہ 5 بعد از بعثت، یوم ولادت سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا

روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بعثت کے کچھ عرصے بعد معراج پر تشریف لے گئے اور اس آسمانی سفر کے دوران بہت سے اسرار خلقت اور عوالم غیبی سے آگاہ ہوئے، اور جنت کا طعام تناول فرمایا اور زمین پر واپس آنے کے بعد، اپنی زوجۂ محترمہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ (سلام اللہ علیہا) کے گھر چلے گئے اور آپ کی بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا پاک اور بہشتی نطفہ اسی حالت میں منعقد ہؤا۔

 اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ (سلام اللہ علیہا) کی دختر گرامی سیدہ فاطمۃ الزہراء (سلام اللہ علیہا)، شیعہ مؤرخین کے مشہور قول کے مطابق آنحضرت کی بعثت کے پانچ سال بعد مکہ مکرمہ میں، اس دنیا میں تشریف فرما ہوئیں۔

سیدہ کی تاریخ ولادت

شیعہ اور سنی مصادر کا اتفاق ہے کہ سیدہ زہراء (سلام اللہ علیہا) 20 جمادی الثانی کو پیدا ہوئی ہیں لیکن سال ولادت پر ان کے درمیان اختلاف ہے۔ اہل سنت کے مؤرخین کا کہنا ہے کہ سیدہ کی ولادت بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی ہے جب آنحضرت 35 سال کے تھے، لیکن شیعہ مؤرخین اور سیرت نگار، ائمۂ معصومین (علیہم السلام) کے اقوال کی پیروی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سیدہ بعثت کے بعد پیدا ہوئی ہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) بعثت کے کچھ عرصے بعد معراج پر تشریف لے گئے اور اس آسمانی سفر کے دوران بہت سے اسرار خلقت اور عوالم غیبی سے آگاہ ہوئے، اور جنت کا طعام تناول فرمایا اور زمین پر واپس آنے کے بعد، اپنی زوجۂ محترمہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ (سلام اللہ علیہا) کے گھر چلے گئے اور آپ کی بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا پاک اور بہشتی نطفہ اسی حالت میں منعقد ہؤا۔

تاہم گوکہ شیعہ مؤرخین کے درمیان بھی ـ جن کا اتفاق ہے کہ سیدہ بعد از بعثت دنیا میں تشریف لائی ہیں ـ سال کے بارے میں اختلاف ہے اور ان کی اکثریت کا اتفاق ہے کہ سیدہ بعثت کے پانچویں سال اور ہجرت سے آٹھ سال قبل پیدا ہوئی ہیں، اور کچھ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت بعثت کے دوسرے سال، ہجرت سے 11 سال قبل، ہوئی ہے۔ (1) شیخ طوسی نے اپنی کتاب مصباح میں اور کئی دوسرے علماء نے ذکر کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی ولادت بروز جمعہ 20 جمادی الثانی، بعثت کے دوسرے سال میں ہوئی ہے۔ (2)

حمل کی کیفیت

علامہ مجلسی (رحمہ اللہ) نے اپنی کتاب حیاۃ القلوب میں علامہ حلی کے بھائی اور کتاب عُدَد القویہ کے مصنف علامہ علی بن یوسف حلی سے نقل کیا ہے کہ سیدہ حضرت رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بعثت کے پانچویں سال سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے متولد ہوئیں اور حمل کی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ ایک حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ابطح کے مقام پر اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام)، عمار بن یاسر، منذر بن ضحضاح، حمزہ بن عبدالمطلب، عباس بن عبدالمطلب، ابوبکر بن ابی قحافہ اور عمر بن خطاب کے ساتھ بیٹھے تھے، کہ اچانک جبرائیل (علیہ السلام) اپنے اصل حلیے میں نازل ہوئے اور اپنے پر کھول دیئے اور آنحضرت کو ندا دی کہ "اے محمد(ص)! خدائے علی الاعلیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ 40 شب و روز خدیجہ سے دوری اختیار کیجئے"؛ جس کے بعد آپ 40 شب و روز تک سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے گھر نہیں گئے، دنوں کو روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو صبح تک عبادت فرماتے تھے۔ اور عمار بن یاسر کو سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریعے بلوا بھیجا کہ "اے خدیجہ، میرا آپ کے پاس نہ آنا کراہت یا عداوت کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی تقدیرات کو جاری کرے اور اپنے بارے میں نیکی اور خیر کے سوا کوئی گمان نہ کرنا کیونکہ خدائے سبحان ہر روز کئی بار اپنے ملائکہ کے ساتھ آپ پر فخر کرتا ہے، اور ہر شب اپنے گھر کا دروازہ بند رکھنا اور اپنے بستر پر آرام کرنا اور میں سیدہ فاطمہ بنت اسد کے گھر میں ہوں، یہاں تک کہ اللہ کے ساتھ وعدے کی مدت اختتام پذیر ہو جائے۔

اور سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) ہر روز کئی مرتبہ آنحضرت سے فراق کی وجہ سے آنسو بہاتی تھیں اور جب چالیس روزہ مدت اختتام پذیر ہوئی تو جبرائیل آنحضرت پر نازل ہوئے اور عرض کیا: اے محمد(ص)! خدائے علی الاعلی آپ کو سلام کہتا ہے اور حکم دیتا ہو کہ میرے تحفے اور عطیے کے لئے تیار ہوجایئے، تو اچانک میکائیل (علیہ السلام) بھی نازل ہوئے اور ایک خوان ساتھ لائے جسے جنتی سُندُس کے رومال سے ڈھانپا گیا تھا، اور میکائیل نے اس کو آنحضرت کے سامنے رکھا اور عرض کیا: "پروردگار آپ کو حکم دیتا ہے کہ آج رات اس طعام سے افطار کیجئے"،

امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ہر شب جب افطار کی گھڑی ہوتی تھی تو آپ مجھے حکم دیتے تھے  کہ دروازہ کھول دوں، تا کہ جب بھی آنا چاہے آنحضرت کے ساتھ افطار کی سعادت حاصل کرے۔ اس رات آپ نے مجھ سے فرمایا: "گھر کے دروازے پر بیٹھو اور کسی کو اندر مت آنے دو، کیونکہ یہ طعام میرے سوا دوسروں پر حرام ہے" تو جب آپنے افطار کا ارادہ کیا تو خوان کو کھولا جس میں جنت کے پھلوں میں سے ایک گھچا کھجور کا اور ایک گھچا انگور کا تھا، اور جنت کے پانی کا ایک پیالہ۔ چنانچہ آپ نے ان پھلوں میں سے پیٹ بھر کر تناول فرمایا اور اس پانی میں سے نوش فرمایا یہاں تک کہ سیراب ہو گئے، اور جبرائیل جنتی ابریق سے آپ کے دست مبارک پر پانی ڈالتے تھے اور میکائیل آپ کے ہاتھ دھو رہے تھے، اور اسرافیل جنت کے تولیے سے آپ کے ہاتھوں کو سکھا رہے تھے، اور باقیماندہ طعام برتنوں کے ہمراہ آسمان کی طرف چلا گیا۔

اور جب آنحضرت نماز [نافلہ] کے لئے اٹھے تو جبرائیل نے عرض کیا: اس وقت آپ کا نافلہ جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ کو اسی وقت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے گھر جانا چاہئے اور ان کے ساتھ مضاجعت کرنا چاہئے کیونکہ حق تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس رات آپ کی نسل سے ذریت طیبہ خلق فرما دے۔

چنانچہ آنحضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کی منزل کی طرف متوجہ ہوئے اور خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نے کہا: تنہائی میرا معمول بن گئی تھی، اور جب رات ہوتی تھی تو دروازوں کو بند کرتی تھی، پردوں کو لٹکا دیتی تھی، نماز ادا کرتی تھی اور اپنے بستر پر سو جاتی تھی اور چراغ کو بجھا دیتی تھی، اس رات میں نیند کی حالت میں تھی کہ دروازے سے دستک کی آواز آئی، پوچھا کون ہے جو دروازے پر دستک دے رہا ہے، جبکہ محمد کے سوا کسی کے لئے بھی اس گھر پر دستک دینا جائز نہیں ہے؟ 

آنحضرت نے فرمایا: اے خدیجہ! دوازہ کھولئے، میں ہوں محمد! جب میں نے آنحضرت کی صدائے فرح افزا سن لی تو اٹھ کھڑی ہوئی، اور دروازہ کھول دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہا) کا معمول یہ تھا کہ جب سونے کا ارادہ کرتے تھے تو پانی منگواتے تھے، وضو کی تجدید کرتے تھے اور دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد آرام کے لئے بستر پر آتے تھے لیکن اس رات آپ یہ اعمال بجا لانے کے بعد بستر پر تشریف لائے اور جب اٹھے تو میں نے اپنے شکم میں حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کا نور پا لیا۔ (3)

سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) سے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی آخری اولاد تھیں جو بعثت کے بعد متولد ہوئیں جبکہ باقی بیٹے بیٹیاں بعثت سے پہلے متولد ہوئی ہیں۔

ولادت کی کیفیت

شیخ صدوق (رحمہ اللہ) نے معتبر سند سے، مُفَضّل بن عمر سے روایت کی ہے، کہ انھوں نے کہا: میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا) کی ولایت کی کیفیت کیا تھی؟ تو آپ نے فرمایا: سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے شادی کی تو مکہ کی عورتوں نے عداوت کی رو سے آپ سے جدائی اختیار کر لی؛ وہ سیدہ کو سلام بھی نہیں کرتی تھیں، اور کسی عورت کو آپ کے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ چنانچہ سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) پر وحشت عظیم طاری ہوئی لیکن سیدہ کا زیادہ تر غم حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہا) کے لئے تھا کہ اس عداوت کی شدت کی وجہ سے آنحضرت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کو حمل ٹہرا تو سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پیٹ میں جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ مکالمہ کرتی تھیں اور ان کی انیس و مونس تھیں اور ان کو صبر و سکون دیتی تھیں۔ جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) اس قضیئے کو حضرت رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے خفیہ رکھتی تھیں۔ ایک دن جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) گھر میں داخل ہوئے تو سنا کہ جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کسی سے بات کر رہی ہیں، جبکہ گھر میں کوئی دوسرا نہیں ہے؛ تو آنحضرت نے فرمایا: اے خدیجہ! آپ کس سے بات کر رہی ہیں؟

عرض کیا: جو اولاد میرے شکم میں ہے وہ مجھ سے بات کرتی ہے اور میری انیس و مونس ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا: جبرائیل نے ابھی ابھی مجھے بتایا کہ وہ ہماری بیٹی ہے، اور یہی وہ طاہر اور بابرکت نسل ہے اور حق تعالیٰ میری نسل کو ان ہی سے معرض وجود میں لائے گا اور ان ہی کی نسل سے اسلام کے ائمہ اور امت کے پیشوا آئیں گے اور حق تعالیٰ وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد، انہیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ اور جانشین قرار دے گا۔  

اور جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) مسلسل ان ہی حالات و کیفیات سے گذرتی تھیں یہا تک کہ سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی ولادت کی گھڑی قریب آئی اور جب سیدہ نے درد زہ محسوس کیا تو آپ نے قریش اور بنی ہاشم کی خواتین کے لئے پیغام بھجوایا اور ان سے اپنے پاس آنے کے لئے بلایا، تو ان کا جواب یہ تھا کہ "آپ نے ہماری بات نہیں مالی اور ہمارے کہنے کو رد کیا، اور یتیم ابو طالب کی زوجہ بن گئیں، جو غریب ہیں اور صاحب مال و ثروت نہیں ہیں۔ اسی بنا پر ہم آّپ کے گھر میں نہیں آئیں اور آپ کے امور کی طرف توجہ نہیں دیں گے۔

جناب سیدہ نے یہ پیغام سن کر بہت غم زدہ ہوئیں، لیکن اسی اثناء میں آپ نے گندمی رنگت کی چار خواتین گھر میں داخل ہوئیں جو بنی ہاشم کی خواتین سے شباہت رکھتی تھیں۔ جناب ام المؤمنین انہیں دیکھ کر گھبرا گئیں چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے خدیجہ! گھبرانا مت، کیونکہ بے شک ہم آپ کی طرف، آپ کے رب کے بھیجی ہوئی ہیں اور ہم آپ کی پشت پناہ ہیں۔ میں ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ سارہ ہوں، دوسری فرعون کی [مؤمنہ] زوجہ آسیہ بنت مزاحم ہیں، جو جنت میں آپ کے ساتھ ہونگی اور تیسری مریم بنت عمران ہیں اور چوتھی موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کلثوم ہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے اس لئے کہ ولادت کے وقت آپ کے قریب رہیں، اور اس حال میں آپ کی معاونت کریں۔

چنانچہ ان میں سے ایک جناب خدیجہ کے دائیں بیٹھ گئیں، دوسرے بائیں جانب، ایک سامنے اور ایک پس پشت۔ تو اسی وقت سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پاک و پاکیزہ اتر آئیں اور جب زمین پر پہنچیں تو ایک روشنی آپ کے وجود سے ساطع ہوئی جس نے مکہ کے تمام گھروں کو روشن کر دیا۔ اور زمین کے مشرق اور مغرب میں کوئی مقام ایسا نہیں رہا جہاں یہ نور روشن نہ ہؤا ہو۔ اور 10 حوریں اس گھر میں اتر آئیں اور ہر ایک ہاتھ میں جنت کی ایک طشتری تھی اور طشتریاں آب کوثر سے مالامال تھیں، تو جو خاتون سامنے بیٹھی تھیں، انھوں نے سیدہ فاطم (سلام اللہ علیہا) کو اٹھایا اور جنت کی ایک طشتری میں آب کوثر سے غسل دیا، اور دو سفید کپڑے نکال لائیں جو دودھ سے زیادہ سفید اور مُشْک وعَنْبَر سے زیادہ معطر تھے، اور سیدہ کو ان میں سے ایک کپڑے میں لپیٹ لیا اور دوسرے کپڑے کو مقنعہ قرار دیا، تو سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے زبان کھول دی اور فرمایا:

"أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ أَبِي رَسُولُ اللَّهِ سَيِّدُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنَّ بَعْلِي سَيِّدُ الْأَوْصِيَاءِ وَوُلْدِي سَادَةُ الْأَسْبَاطِ؛

گواہی دیتی ہوں کہ کوئی معبود نہیں ہے اللہ کے سوا، اور میرے والد اللہ کے رسول، تمام پیغمبروں کے سید و سردار ہیں، اور میرے شریک حیات اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے بیٹے انبیاء کی اولادوں کے سردار ہیں"۔

اور پھر آپ نے چار خواتین کو نام لے کر سلام کیا، تو ان خواتین نے خوشی منائی اور جنتی حوریں ہنسیں مسکرائیں اور جہانوں کی خواتین کی سیدہ کی ولادت پر ایک دوسرے کو بشارت دی؛ اور آسمان میں ایک روشنی آشکا ہوئی اور ایسی روشنی اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی؛ دریں اثناء ان خواتین مطہرات سیدہ خدیجہ (سلام اللہ علیہا) سے مخاطب ہوئیں اور کہا: یہ لیجئے اس بچی کو جو طاہرہ اور مطہرہ ہے، پاکیزہ اور با برکت ہے، اللہ نے ان کے لئے اور ان کی نسل کے لئے برکت قرار دی ہے؛ تو جناب خدیجہ (سلام اللہ علیہا) نے بچی کو گود میں لیا، جبکہ بہت خوش اور شادماں تھیں اور اپنی بیٹی کو دودھ پلایا؛ پس سیدہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ایک دن میں اتنی جسمانی نشوونما پائی، جتنی کہ دوسرے بچے ایک مہینے میں پاتے ہیں اور ایک مہینے میں اتنی نشوونما پائی جتنی کی دوسرے بچے ایک سال میں پاتے ہیں۔ (4)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1۔ شیخ عباس قمی، بیت الاحزان، ص18؛ علامہ علی بن یوسف حلی، عُدَد القویہ، ص219؛ فضل بن حسن طبرسی، إعلام الوری بأعلام الهدی (فارسی ترجمہ: زندگی چہاردہ معصوم علیہم السلام)، ص221؛ مہم ہادی یوسفی الغروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ج1، ص348۔

2۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن بن علی بن حسن (م 460ھ)، مصباح المتہجد، ص551، مطبوعہ بیروت۔

 3۔ محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، تاریخ پیامبران (حیاۃ القلوب)، ج3، ص255-256۔ مطبوعہ ایران۔

 4۔ محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابَوَیْه قمی (م 381ھ)، الأمالی، ص690، مجلس 87، حدیث 947.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110