اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
منگل

26 دسمبر 2023

5:33:10 AM
1423754

مجلس وحدت مسلمین کے نائب سربراہ جناب سید ناصر عباس شیرازی کے ساتھ ابنا کا مکالمہ

سید ناصر عباس شیرازی نے اس موقع پر کہا: پاکستان نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی کھلم کھلا مداخلت کے عنوان سے ایک دستاویز پر دستخط کر دیئے اور امریکہ کو احتجاجی یادداشت بھجوائی/ امریکہ پاکستان کے انتخابات پر اثرانداز ہونا چاہتا ہے / تکفیری گروپ امریکہ نواز جماعتوں سے جا ملی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ نے مجلس وحدت مسلمین کے نائب سربراہ سید ناصر عباس شیرازی سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا ہے جس کا متن حسب ذیل ہے:

ابنا: حال ہی میں مختلف قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں، پاکستان کے شیعہ اور مسلمان عوام کے درمیان فلسطین کے محاذ مقاومت کے حوالے سے جوش و جذبہ دکھائی دے رہا ہے۔ ادھر عبوری وزیر اعظم کے متنازعہ انٹرویو پر علمائے شیعہ نے ایک جیسا موقف اختیار کیا اور ان کے موقف کی مذمت کی۔ ہم ان موضوعات کے بارے میں آپ کے خیالات سے آگاہ ہونا چاہیں گے، ادھر پاکستان میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، آپ فرمایئے کہ سیاسی جماعتوں اور شیعیان و مسلمانان پاکستان کا رخ کس طرف ہے اور انتخابات کے بارے میں آپ کی پیش گوئی کیا ہے؟

جواب:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں شکریہ ادا کرتا ہوں آپ کا اور اس مجموعے کا، میں نے پہلی بار اس عمارت اور آپ کے مجموعے کو قریب سے دیکھا اور مجھے خوشی ہوئی اور آپ کی فعالیت کے بارے میں، جو میں نے آپ سے سنا، الحمد للہ، مجھے خوشی ہوئی، گوکہ میں آپ کی ویب سائٹ دیکھتا رہتا ہوں، لیکن یہاں آکر مجھے خوشی ہوئی۔

جو کچھ آپ نے فرمایا، وہ بہت اہم ہے اور ہمارے خیال میں بھی بہت اہم اور پاکستان بھی ایک اہم ملک ہے۔ یہ ایک معمولی ملک نہیں ہے، ایک جوہری ملک ہے، ایسا ملک جس کی 25 کروڑ آبادی ہے، جس میں کم از کم چھ کروڑ آبادی مکتب اہل بیت کی پیروکار اور شیعہ ہے۔ اور ایک ملک ہے جو جیوپولیٹکل لحاظ سے خطے اور دنیا میں بہت اہم ہے۔ ہم جہاں ہیں، وہ بہت اہم ہے، اس کی سرحدیں چین سے بھی ملتی ہیں، اور ایران سے بھی ملتی ہیں، افغانستان کے ساتھ بھی ملتی ہیں، پاکستان میں ایک ایسا نقطہ بھی ہے جہاں سے روسی سرحد کا فاصلہ صف 20 کلومیٹر ہے، چنانچہ روس کے ساتھ بھی ہماری سرحدیں ایک لحاظ سے ملتی ہیں۔ چنانچہ پاکستان ایک اہم ملک ہے، اور پاکستان کی صورت حال کا تعلق صرف پاکستان سے نہیں ہے۔ یہ صورت حال خطے کے ممالک پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور دنیا پر بھی۔ بدقسمتی سے پاکستان کا نظام حکومت بدلنے کی ایک کاروائی سامنے آئی، یعنی امریکہ نے ایک منصوبہ بنایا، اور سابقہ حکومت جو قانون اور آئین کے مطابق بر سر اقتدار آئی تھی، عمران خان کی حکومت، جسے اس نے بدل دیا اور ایک مخلوط حکومت قائم کر دی۔ لیکن ان چند مہینوں، جب سے یہ مخلوط حکومت آئی ہے، پاکستان شدید بحران میں مبتلا ہو گیا ہے۔

بحران کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ جہاں سیاسی بحران ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں 100 فیصد اقتصادی بحران آئے گا؛ اور جہاں اقتصادی بحران اور معاشی عدم استحکام آئے گا اس کا حتمی نتیجہ سلامتی کا بحران ہے۔ اس وقت پاکستان کو ان تین بحرانوں کا سامنا ہے۔ سیاسی بحران بھی اور بدقسمتی سے سیاسی یکجہتی نہیں ہے۔ معاشی بحران بھی ہے اور حالیہ کچھ عرصے میں ڈالر بہت مہنگا ہو گیا ہے اور کئی کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر (Poverty line) سے بھی نیچے پہنچ گئے ہیں (اور لازمی ضروریات زندگی کی فراہمی سے عاجز آ گئے ہیں)۔ تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں 500فیصد اضافہ ہؤا ہے۔ پٹرول کا بھی یہی حال ہے۔ معاشی مسائل بہت شدید ہیں۔ ادھر پاکستان کے دو بڑے اور اہم صوبے ـ صوبۂ خیبر پختونخوا، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، اور دوسرا صوبۂ بلوچستان ہے جس کی سرحدیں دو اسلامی ملکوں یعنی ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں، ـ کو انتہاپسندوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔ ان دو صوبوں میں حالیہ چند ہی دنوں میں کئی دھماکے ہوئے؛ سینکڑوں فوجی اور سرکاری کارکن شہید ہو گئے۔ اور بدقسمتی سے یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کو بدامنی کے اس بحران سے دوچار ہونا پڑا، یہ ممکن ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان کی بدامنی کا ایک نتیجہ ہو۔

سیاسی صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے، تقریبا ڈیڑھ ماہ بعد آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد ہوگا؛ لیکن بدقسمتی سے انتخابات کے حوالے سے بھی ہمیں یورپ، سعودی عرب اور امریکہ کی طرف سے اس قدر دباؤ کا سامنا ہے، چنانچہ توقع نہیں ہے کہ یہ حقیقی معنوں میں جمہوری انتخابات ہونگے یعنی یہ انتخابات آزادانہ اور شفاف انتخابات نہیں ہیں۔ یہ بھی اس وقت پاکستان کے لئے ایک مسئلہ ہے، دباؤ شدید ہے، سیاسی انتشار بہت زیادہ ہے اور اس وقت عمران خان کی جماعت ایک بڑی جماعت "تحریک انصاف" ہے؛ اس کے قائد جیل میں بند ہیں اور کئی ہزار افراد کو قید کیا جا چکا ہے، یوں ہزاروں لوگوں کو انتخابات میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ سیاسی دباؤ بہت شدید ہے۔

علاوہ ازیں، باعث افسوس ہے، کہ ایک اور مسئلہ بھی ہمیں درپیش ہے، جو مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ ہماری طاقت تھی، اور اب یہ طاقت ہماری کمزوری بن گئی ہے۔ یہ طاقت اور قوت یہ تھی کہ ہم چین کے پڑوسی ہیں۔ چین دنیا کا سب سے پہلا ملک ہے جو سب سے زیادہ تیل خریدتا ہے، دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے۔ جو تیل پہلے سعودی عرب اور خلیج فارس سے خریدا جاتا تھا، اس کا راستہ طویل ہے، سمندر کے راستے آبنائے ملاکا سے تیس دن میں چین پہنچتا ہے، جہاں مسائل بھی ہیں، مخالف ممالک بھی ہیں، آمریکا بھی موجود ہے۔ بہرحال یہ تیل ایک طویل فاصلہ طے کرکے شانگھائی پہنچتا ہے، اس کے بعد چار پانچ سو کلومیٹر سفر طے کرنا پڑتا ہے تاکہ یہ تیل شمالی چین تک پہنچ جائے۔ چینییوں نے ایک اور راستہ سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداریChina–Pakistan Economic Corrido [CPEC] ) کے عنوان سے بنایا تھا کہ جس کا فاصلہ صرف 2200 کلومیٹر ہے۔ گوادر سے ایران تک آدھے گھنٹے کا فاصلہ ہے۔  اور ایران تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے اور چین تیل خریدنے والا بڑا ملک ہے؛ اور یہ راستہ اس قدر مختصر ہے کہ چین کے اخراجات بہت کم ہوجاتے ہیں اور چین اور پاکستان کی معیشت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ لیکن افسوس کہ امریکہ یہ سب نہیں چاہتا۔ امریکی سفیر پاکستان میں ہر معاملے میں سرگرم ہے، الیکشن کمیشن پہنچتا ہے، پولیس چیف کے دفتر میں پہنچتا ہے، گوادر پہنچتا ہے۔ گوادر میں جو کچھ بھی بنا ہے، چین نے بنایا ہے لیکن امریکی سفیر گوادر کے دورے پر چاتا ہے؛ گلگت بلتستان کا دورہ کرتا ہے جو چین کی سرحد پر واقع ہے اور بہت حساس علاقہ ہے۔ اس صورت حال سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔

آمریکہ پاکستان سے دو چیزیں مانگتا ہے۔ ایک یہ کہ ہم چین کے ساتھ کام نہ کریں، دوسرا یہ کہ ہم ایران کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ گیس پائپ لائن جو ایران-پاکستان سرحد تک پہنچائی گئی تھی؛ ایران نے معاہدے کے تحت اپنا کام مکمل کر لیا، لیکن افسوس کہ انھوں نے اس کام جاری نہیں رکھا اور یہ کام پاکستان کی سرحد سے جاری نہیں رہ سکا۔ جیسا کہ میں نے کہا، تیل اور گیس کی قیمت میں بہت اضافہ ہؤا ہے، پاکستان کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر ہم پاکستان سے گیس درآمد کریں تو ہماری معیشت بہتر ہوگی لیکن امریکہ نے اجازت نہیں دی کہ اس پائپ لائن کو ترقی دے، اور اس مسئلے نے پاکستان کو دوسرے مسائل سے دوچار کیا۔

پاکستان اور ایران کی سلامتی ایک دوسرے سے وابستہ ہے، یعنی آزاد بلوچستان کی تحریک اگر پاکستان میں کامیاب ہو جائے، یہ ایران کے لئے خطرہ ہے اور یہ انتہاپسند ایران میں کامیاب ہو جائیں تو یہ پاکستان کے لئے خطرہ ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ ایران کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے، اور پاکستان کا استحکام ایران کا استحکام ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چند انتہاپسند ٹولے ہیں، جو اس خطے میں امریکہ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور امریکہ کے اتحادی ممالک کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اس علاقے کو انتشار اور بدامنی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ایران کے لئے بھی مسائل کھڑے ہوجائیں، پاکستان کے مسائل میں بھی اضافہ ہو اور پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی مسائل کھڑے کرنا چاہتے ہیں، اور آج افغانستان کے ساتھ بھی ہمارے بہت سارے مسائل ہیں، پاکستانی حکومت اور افغان حکومت کے درمیان بھی کافی سارے مسائل ہیں۔

المختصر، اگر آزاد اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہوجائے اور لوگ ووٹ دیں تو مطلوبہ نتیجہ حاصل کریں، یہ امکان ہے کہ ایک سیاسی استحکام وجود میں آئے اور اگر سیاسی استحکام حاصل ہوجائے تو اقتصادی استحکام بھی آئے گا اور سلامتی کے حوالے سے بھی استحکام آئے گا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ میں ابھی تک کچھ زیادہ پر امید نہیں ہوں۔ جو کچھ ابھی تک ہوتا رہا ہے اس کی رو سے، سیاسی استحکام ابھی تک، دور ہے اور شاید قریب نہیں ہے۔

ابنا: کچھ رپورٹوں کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد قائم ہؤا ہے، ایک طرف سے عمران خان جیل میں ہیں اور دوسری طرف سے شیعوں نے ان کی جماعت کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہؤا ہے، اس حوالے سے آپ کا تجزیہ کیا ہے اور اس اتحاد کا رد عمل کیا ہوگا؟

جواب: یہ بہت اہم سوال ہے۔ پہلی بات یہ کہ جس وقت عمران خان کی حکومت چلی گئی ہم نے ایک معاہدے پر دستخط کئے، یہ معاہدہ مجلس وحدت مسلمین اور تحریک انصاف کے درمیان تھا۔ اور الحمد للہ پہلی مرتبہ پاکستان کی ایک عظیم شیعہ مذہبی اور سیاسی تنظیم یعنی مجلس وحدت مسلمین اور عمران خان کی جماعت ایک ساتھ بیٹھ گئے اور مجلس وحدت کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری حفظہ اللہ اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے معاہدے پر دستخط کر دیئے۔ یہ ایک سات نکاتی معاہدہ ہے۔ ہم نے یہ نکات امام خمینی (قدس سرہ) اور قائد شہید علامہ سید عارف حسین حسینی (رضوان اللہ علیہ) ـ کے افکار سے اخذ کئے۔ شہید حسینی وہی ہیں جنہیں امام راحل نے اپنا فرزند گردانا تھا اور فرمایا تھا کہ "ان کے تفکر کو جاری رکھا جائے"، یہ اس خط کے الفاظ ہیں جو امام خمینی (قدس سرہ) نے قائد شہید کی شہادت کے بعد اپنے خط میں تحریر کئے تھے۔ یہ نکات ان دو راہنماؤں کے افکار سے ماخوذ ہیں جو بہرحال اسلامی افکار ہیں۔ جس میں زور دیا گیا تھا کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک چاہتے ہیں، ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے ملک کے معاملات میں مداخلت کرے، ہماری خارجہ پالیسی کو آزاد ہونا ہونا چاہئے، ہم فلسطین اور محروم علاقوں کی مدد کے لئے باہم کام کریں گے، اور دوسرے نکات جو اس معاہدے میں شامل ہیں۔ اور ہمارا اتحاد ایک نظریاتی اتحاد ہے اور یہ اتحاد ان نکات پر ہی جاری رہا۔

آپ کی اطلاع کے لئے کہتا ہوں کہ ہمارے لئے بھی دو بڑے مسائل پیش آئے ہیں۔ ایک مسئلہ صوبہ پنجاب میں ابھرا جہاں تکفیری تنظیمیں اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے ایک شیعہ مخالف بل پر دستخط کئے اور اس بل کو پنجاب اسمبلی سے منظور کرایا، اور وہ بل اب قانون بن گیا اور آخری فیصلے کے لئے گورنر کے پاس بھجوایا گیا۔ لیکن الحمد للہ، ہم نے تحریک انصاف کے ساتھ جو اتحاد قائم کیا تھا، اس کے تحت ہم میدان میں آئے عمران خان سے رجوع کیا اور وہ بل جو منظور ہؤا تھا وہ واپس لیا گیا؛ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلایا گیا اور 80 ارکان اسمبلی نے اٹھ کر کہا کہ "ہم اس بل کو قبول نہیں کرتے"۔ یہ مجلس وحدت اور تحریک انصاف کے اتحاد کا ایک ثمرہ تھا۔ بعدازاں دوسرا مسئلہ پیش آیا، جس وقت عمران خان کی حکومت نہیں تھی اور اپوزیشن نے مخلوط حکومت قائم کی تھی، امریکی بھی گھس آئے تھے، اور انہوں نے باہم مل کر ایک بل تیار کیا جو 100 فیصد شیعیان اہل بیت(ع) کے خلاف تھا، اور یہ امکان تھا کہ یہ مسئلہ پورے ملک میں پھیل جائے، اور ہزاروں افراد ـ توہین رسالت و اہل بیت و صحابہ کے الزام میں ـ گرفتار ہو جائیں۔ بل کا نام اچھا تھا مگر اس کا نتیجہ بہت برا تھا۔ یہ بہت بڑا مسئلہ تھا، پوری اپوزیشن اس قضیئے پر اکٹھی ہوگئی اور سینٹ اور قومی اسمبلی نے اس کو منظور کیا اور آخری فیصلے کے لئے صدر کے پاس بھجوایا گیا۔ ہم پھر بھی بیچ میں آئے اور عمران خان نے ہماری مدد کی، اور ان کی جماعت نے ہماری مدد کی اور بالآخر صدر نے ـ جن کا تعلق تحریک انصاف سے تھا ـ اس بل کو مسترد کیا۔ یہ ہمارے ملک کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی، ایک بڑا دباؤ تکفیریوں پر آ گیا جنہوں نے ایک خاص دن کو کامیابی کا دن قرار دیا تھا اپنی ممکنہ کامیابی پر جشن و سرور منانے کی تیاریاں کر رہے تھے بہت پریشان ہو گئے۔ اس مسئلے میں ہم بھی کامیاب ہو گئے۔

ہمارا اتحاد ایک تزویراتی (Strategic) اتحاد ہے، اور اگر حقیقی اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو جائے تو مجلس وحدت مسلمین پارلیمان میں، ایوان بالا اور ایوان زیریں نیز صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں حاصل کرے گی۔ ان شاء اللہ

ابنا: اس سوال کے ساتھ ہم انتخابات کا موضوع ختم کرتے ہیں،  جی ہاں! پاکستان کے گذشتہ انتخابات میں انتہاپسند تنظیمیں اور سپاہ صحابہ سمیت بعض تشدد پسند جماعتوں کے باقیات موجود تھے، مجلس وحدت مسلمین اور عمران خان کی جماعت کے باہمی اتحاد کو مد نظر رکھ کر، انتخابات کے نتائج کے بارے میں آپ کی پیش گوئی کیا ہے اور آپ کے اس اتحاد کی حریف جماعت کون سی ہے؟

جواب: میں نے عرض کیا کہ بدقسمتی سے اس حوالے سے مسائل ہیں، لیکن اگر یہ انتخابات شفاف اور حقیقی ہوں، تو تکفیری ناکام ہو جائیں گے، لیکن ان تنظیموں نے اب اس جماعت کے ساتھ اتحاد قائم کیا ہے جنہیں امریکی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ داستاں بہت دلچسپ ہے۔ کہ تمام انتہاپسند گروپ، جو فتوؤں کے کے لئے مشہور تھے اور جو ہر چیز کے لئے فتوی لاتے رہے ہیں، امریکی سرپرستی کے تحت سرگرم جماعتوں کے ساتھ متحد ہو گئے ہیں۔

ان جماعتوں نے فلسطین کے موجودہ مسئلے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ ہم نہیں کہتے یہ پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی کہتی ہے؛ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں وزیر اعظم بھی رکن ہیں، وزیر اظلاعات رکن ہیں، وزیر خارجہ رکن ہیں، وزیر داخلہ رکن ہیں، ہمارے ہاں چار افواج ہیں جن کے کمانڈر اس کمیٹی کے رکن ہیں، آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی وغیرہ جیسے اداروں کے سربراہان رکن ہیں؛ یہ سب عمران خان کے زمانے میں نہیں بلکہ اپوزیشن کی حکومت کے زمانے میں اکٹھے ہوئے جب پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف تھے؛ اور ایک دستاویز پر دستخط کئے کہ امریکہ نے پاکستان میں مداخلت کی ہے، "پاکستان کے اندرونی معاملات میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کھلی مداخلت" (Blatant interference in internal affairs of Pakistan By the United State of America) کے عنوان سے۔ یہ بہت اہم ہے اور اس کے بعد پاکستان نے امریکہ کو ڈیمارچ (démarche) سونپا [اور سفارتی ذرائع سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا]۔ اس وقت بھی یہ بات بالکل واضح تھی کہ امریکہ اس مسئلے میں مداخلت کر رہا ہے۔

انتخابات میں خرابی پیدا کرنے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے اور اس کو کمزور کرنا چاہتا ہے، اور جو تکفیری گروپ ہیں وہ ان کی طرف چلے گئے ہیں اور سب اکٹھے ہو گئے ہیں، اور مذکورہ بالا بل کے پیچھے بھی یہی لوگ تھے۔ ہمارا تحریک انصاف کے ساتھ یہ سمجھوتہ ہے کہ جہاں بھی یہ انتہاپسند گروپ ہیں وہاں ہمارا مقصد ایک ہے اور انتخابات سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ تکفیری ٹولے انتخابات میں شرکت نہ کریں۔ ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ اگر انتخابات حقیقتا منصفانہ اور حقیقی ہوں گے تو یہ لوگ پارلیمنٹ میں نہیں جا سکیں گے۔ لیکن ان کے تعلقات اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اتنے اچھے اور قریبی ہیں کہ اسٹبلشمنٹ ہی ان کے لئے راستے ڈھونڈ لے گی۔ وہ راستہ عوام کے ذریعے ہاتھ نہیں آتا، وہ ایسا راستہ ہے جسے آپ جانتے ہیں اور وہ دوسرے طریقوں سے فراہم کیا جاتا ہے۔ تو یہ مشکل بھی ہے۔

بہرحال ہم میدان میں ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ جو امریکہ مخالف فضا اس وقت کارفرما ہے اس کو تقویت پہنچائی جائے۔ یہ ایک اسٹراٹجک کام ہے، بڑا کام ہے۔ ساری جماعتوں نے سروے کروائے ہیں، یہ سروے صرف تحریک انصاف کا نہیں ہے، مسلم لیگ کا بھی ہے۔ ان سروے رپورٹوں کے مطابق، 80 فیصد سے زائد عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ وہ پاکستان میں امریکی موجودگی کو قبول نہیں کرتے اور وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان امریکہ کے ہاتھ میں چلا جائے۔ اس وقت یہ جنگ سیاسی جماعتوں کی جنگ نہیں ہے؛ یہ جنگ امریکہ سے وابستہ گروپوں اور امریکہ مخالف گروپوں کے درمیان ہے، یہ جنگ ان دو محاذوں کے درمیان ہے۔ چنانچہ ہم نے یہ راستہ اختیار کیا اور ماحول بنائیں گے پاکستان میں، کہ حالات امریکہ کے حق میں نہ رہیں اور یہ مقصد عوام کے ذریعے حاصل کریں۔ انتخابات سے ہمارا مقصد یہ ہے، ان شاء اللہ

ابنا: ہم نے طوفان الاقصٰی کے سلسلے میں، ہمیشہ کی طرح پھر بھی، پاکستانیوں کا جوش و جذبہ دیکھا، اور فلسطین اور غزہ کی حمایت میں بہت بڑی ریلیاں ہوئیں؛ آپ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے اور یہ کہ غزہ کے مظلوم عوام کے حق میں پاکستان میں کیا کچھ ہؤا؟

جواب: یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان ایک معمولی ملک نہیں ہے۔ ایران نے اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد اس راہ میں قدم رکھا جبکہ پاکستان وہ پہلا ملک ہے جو اسلامی جمہوریہ کے عنوان سے قائم ہؤا ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، اور یہ ملک در حقیقت ایک نظریئے اور ایک فکر کا نام ہے۔ اگر پاکستان کو اس نظریئے اور اس فکر سے الگ کیا جائے تو یہ ایک ایسے درخت کی مانند ہوگا جس کی جڑیں نہیں ہیں اور ایسا درخت بہت جلد سوکھ جائے گا۔ پاکستان اس فکر اور نظریئے کے بغیر ہرگز ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ فکر تحریک پاکستان سے آئی ہے۔ تحریک پاکستان کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اس تحریک کے قائد تھے۔ پاکستان میں ایک جماعت آل انڈیا مسلم لیگ تھی، اور یہ پہلی سیاسی جماعت تھی جو فلسطین کی حمایت کے لئے میدان میں آئی اور قائد اعظم محمد علی جناح نے اس حمایت کا اعلان کیا۔ یہ واقعہ سنہ 1936ع‍ ـ یعنی قیام پاکستان سے 11 سال قبل ـ کا واقعہ ہے۔  جب پورے ہندوستان، اور آج کے پاکستان اور بنگلہ دیش اور پورے خطے میں یوم فلسطین کے موقع پر مظاہرے ہوئے، جلسوں جلوسوں، کانفرنسوں اور اجتماعات کا اہتمام کیا گیا۔ بعدازاں محمد علی جناح نے ان اقدامات کو آگے بڑھایا اور مفتی اعظم فلسطین سے براہ راست رابطہ کیا۔ بعدازاں فلسطین کی امداد کے لئے چندہ مہم چلائی گئی۔ ان اقدامات کو اس زمانے میں قائد اعظم نے شروع کیا تھا اور یہ سلسلہ یہاں تک بھی بڑھا کہ قائد اعظم نے مسلم لیگ کے رضاکاروں کا اجلاس منعقد کیا، اور ان سے خطاب کیا اور کہا: "ہم آپ کو فلسطین کی آزادی کے لئے فوجی جدوجہد کے لئے، ملک فلسطین بھیجنے کے لئے بالکل تیار ہیں"۔ آپ اس سلسلے میں اس قدر پرعزم تھے کہ جب رائٹرز نے اپنے پہلے انٹرویو میں پوچھا کہ "اب جبکہ آپ نے آزادی حاصل کر لی ہے اور آپ کا اپنا ایک ملک ہے، تو کیا آپ اسرائیل کے ساتھ ایک ملک کے طور پر تعلقات قائم کریں گے؟"، تو آپ نے کہا: "ہم اس ناجائز اور غیر قانونی وجود کو تسلیم نہیں کرتے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے"، اور قائد اعظم نے اس کام کی اجازت نہیں دی۔ اور بعد میں جب پاکستانی پاسپورٹ سامنے آیا تو اس میں مندرج تھا کہ "اس پاسپورٹ پر دنیا کے تمام ملکوں کا سفر کیا جا سکتا ہے سوا اسرائیل کے"۔ دوسرے کسی ملک کا پاسپورٹ ایسا نہیں ہے۔ لیکن میں نے عرض کیا کہ ہمیں دباؤ کا سامنا ہے اور ہمارے عبوری وزیر اعظم اور ہماری عبوری حکومت ان کے قابو میں ہے۔ عبوری وزیر اعظم نے کہا کہ "موجودہ حالات میں یہ امکان پایا جاتا ہے کہ ہم قائد اعظم کے اعلان کو چھوڑ کر دو ریاستوں یعنی فلسطین اور اسرائیل کو تسلیم کریں"۔ یہ بہت اہم مسئلہ تھا، اور اس میں امریکہ کا کردار تھا۔

ہم سرگرم ہو گئے اور لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ مجلس وحدت مسلمین پہلی جماعت تھی جس نے پورے ملک میں کام کیا۔ طوفان الاقصٰی کی کاروائی سات اکتوبر (2023م) کو انجام پائی اور ہم نے آٹھ اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک پروگرام برنامۂ زہرا کے عنوان سے منعقد کیا اور اب 70 دن گذر گئے ہیں اور کل ہی ایک بڑا پروگرام کوئٹہ میں منعقد ہؤا۔ ان ستر دنوں کے دوران ہم نے ہر روز ایک بڑا پروگرام منعقد کیا ہے۔ ہر جمعہ کے بعد ایک بہت بڑا صوبائی پروگرام منعقد کرتے رہے ہیں۔ شیعہ اور سنی بڑی تعداد میں ان پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔ الحمد للہ لوگوں کی شرکت بہت زبردست ہے، خواتین اور بچے بھی شریک ہوتے ہیں اور اتنے بڑے اجتماعات پاکستان کی شیعہ تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اور پھر اہل سنت بھی میدان میں آئے۔ ہم نے ملی یکجہتی کونسل کے ساتھ ـ جس میں ہم بھی رکن ہیں ـ کئی پروگراموں کا اہتمام کیا اور اس کونسل کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں کام کیا۔ جماعت اسلامی اور اہل حدیث والے اور دوسرے لوگ ہمارے ان اجلاسوں میں حاضر ہوئے اور ہم بھی ان کے منعقدہ اجلاسوں میں حاضر ہوئے۔ ایک اچھا خاصا دباؤ حکومت پر آیا، اور یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ عوام کیا چاہتے ہیں، اور یہ کہ عوام قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار سے دور نہیں ہوئے ہیں، اور مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ پاکستان نے عرب اور اسرائیل کے درمیان لڑی جانے والی تمام جنگوں میں فوجی لحاظ سے بھی، سیاسی حوالے سے بھی اور معاشی لحاط سے بھی، عربوں کی مدد کی۔ حتیٰ کہ جس وقت قبلۂ اول "مسجد الاقصٰی" میں آتشزدگی ہوئی تو اسلامی کانفرنس تنظیم [موجودہ اسلامی تعاون کانفرنس] کا اجلاس پاکستان میں منعقد ہؤا۔ لیکن موجودہ زمانے میں بدقسمتی سے امریکی دباؤ کے تحت ہماری حکومت اس مشن سے منحرف ہو گئی اور ہم میدان میں آئے تاکہ یہ موقف ـ جو نظریۂ پاکستان سے متصادم ہے ـ جاری نہ رہ سکے؛ اور اللہ کا شکر ہے کہ شیعہ اور سنی اور مذہبی جماعتیں متحد ہیں۔ پورے ملک میں وسیع پیمانے پر کام ہؤا اور اسی فعالیت کے نتیجے میں فلسطین اور غزہ کے مظلومین کی مدد و حمایت کے لئے ماحول تیار ہؤا اور یہ مہم بہت آگے چلی گئی۔ الحمد للہ

ابنا: نفسیاتی لحاظ سے بھی، پاراچنار اور دوسرے علاقوں میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات، دوسری طرف سے ایرانی علاقے میں نام نہاد جیش العدل ٹولے کے اقدامات، دیکھ کر دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ گویا ایک امن و سلامتی کے لحاظ سے ایک مسئلہ درپیش ہے، اس بارے میں آپ کا کیا چیال ہے؟ اور یہ کہ یہ دہشت گرد ٹولے خطے میں کیونکر اتنی آسانی سے نقل و حرکت کرتے ہیں، سرگرمی دکھاتے ہیں، گوکہ اس طرح کے مسائل ماضی میں دیکھنے میں آتے رہے ہیں، اس مسئلے پر روشنی ڈالیں کہ کیا پاکستان کی مرکزی حکومت ان مسائل اور واقعات کے حل کرنے کی پابند ہے اور اصولی طور پر ان مسائل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

جواب: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ امریکہ اور امریکی استعمار میدان میں آیا ہے، وہ پاکستان کو بھی کمزور اور تقسیم کرنا چاہتے ہیں، اور ان شاء اللہ اپنے ان عزائم میں کامیاب نہیں ہونگے۔ انہوں نے صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں کام کیا ہے۔ صرف جیش العدل ہی نہیں جو ایران میں دہشت گردی کی کاروائیاں کرتی ہے، پاکستان کے شہروں نوشکی، ژوب، گوادر، پسنی اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی اس طرح کی کاروائیوں کے نتیجے میں حالیہ چند مہینوں کے دوران کئی سو فوجی اور سرکار ملازمین شہید ہو گئے ہیں، چند ہی افراد نہیں، سینکڑوں افراد، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے؛ اور مرکزی حکومت نیز صوبائی حکومتوں کا کردار کمزور کر دیا گیا۔ جب ہمارے یہاں سیاسی بحران اور اقتصادی بحران ہے، اور حکومت بہت سے مسائل میں بیک وقت الجھ گئی ہے، تو وہ اپنی توجہ ایک خاص مسئلے پر مرکوز نہیں کر سکتی، جس کے نتیجے میں جیش العدل جیسے ٹولے بھی پاکستان میں آزادانہ سرگرم ہو جاتے ہیں اور ایران میں بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔

میں نے پہلے بھی کہا کہ اگر وہ ایران میں عدم استحکام کے اسباب فراہم کر سکیں، تو یہ پاکستان کے لئے بھی ایک خطرہ ہے اور وہ بھی ایسے علاقے میں جس کی زبان اور ثقافت ایک ہے۔ وہ ایران کو بھی تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو بھی۔ یعنی جہاں حکومت کمزور ہو گئی ہے وہاں یہ ٹولے کامیابی کے ساتھ سرگرم عمل ہوئے ہیں۔ ان کا بڑا مقصد دو ملکوں کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان میں ایک سیاسی استحکام معرض وجود میں آجائے، تو اس صورت میں ان بحرانوں کو کم کیا جا سکے گا۔ 

جہاں تک پاراچنار کا تعلق ہے، جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا، ایک حساسیت پائی جاتی ہے۔ اس علاقے کی سرحدیں تین اطراف سے افغانستان سے ملتی ہیں اور افغانستان میں بھی مرکزی حکومت کمزور ہے۔ تہران میں فلسطین کانفرنس کے موقع پر ہماری ملاقات افغانستان کے وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی سے ہوئی اور ہم نے ان مسائل کا تذکرہ کیا۔ ہم نے کہا کہ یہ مسائل افغانستان کی طرف سے کیوں وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تشددپسند اور غیر سرکاری انتہا پسند گروپ اور تشددپسند گروپوں سے وابستہ لوگ سرحد پار سے پاکستان میں آکر سرگرم ہو جاتے ہیں اور کئی گولے افغانستان کے اندر سے پاراچنار پر گرائے گئے ہیں۔ ہم خود بھی کئی دن تک پاراچنار میں تھے۔ بہرحال افغان حکومت بھی ذمہ دار ہے جو اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے۔ کمزوری پاکستان کے اندر بھی ہے، اگر یہ کمزوریاں نہ ہوتیں تو وہ سرزمین پاکستان میں گھس کر دہشت گردی نہیں کر سکتے تھے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ شیعہ اساتذہ اور مزدوروں کو قتل کیا گیا تھا لیکن حکومت نے ان کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے یہ مسائل پیش آئے۔ اس مسئلے سے ایک کشیدگی کا ماحول پیدا ہؤا تھا اور سوال یہ تھا کہ تم [سرکاری اداروں] نے قاتلوں اور اس واقعے میں ملوث افراد کو اب تک گرفتار کیوں نہیں ہے! اور اس علاقے کے لوگ تشویش میں مبتلا تھے؛ چنانچہ ایک نئی جنگ شروع ہوئی اور راستے بھی غیر محفوظ ہو گئے۔ لیکن جرگے نے اپنا کام شروع کیا اور شیعہ اور سنی زعماء سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ اس مسئلے کو کسی طرح پائیدار انداز سے ہمیشہ کے لئے حل کریں۔ کچھ زمینی تنازعات بھی تھے، انتظآمی مسائل بھی تھے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ صرف ایک پاکستان کا داخلی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس میں بیرونی عوامل کا بھی کردار ہے۔ جب بیرونی عناصر علاقے میں گھس آتے ہیں تو بہت زیادہ تباہی پھیلا دیتے ہیں، لیکن پاراچنار میں شیعہ بہت مضبوط ہیں اور جب بھی باہر سے اس طرح کے حملے ہوتے ہیں، وہ ان کا جواب دیتے ہیں۔ اور ماشاء اللہ حال حاضر میں پاراچنار کے اندر اچھی خاصی یکجہتی پائی جاتی ہے۔

پاراچنار میں میونسپل کمیٹی کے سربراہ کا تعلق مجلس وحدت مسلمین سے ہے، ہمارا کردار وہاں اہم ہے اور انتخابات میں بھی شرکت کر رہے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ، اگر انتخابات مذکورہ بالات شرائط کے مطابق منعقد ہو جائیں تو، وہاں سے ہم پارلیمانی نشست بھی حاصل کریں گے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ پاراچنار کے مسائل کو پارلیمان سے حل کریں گے۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

ابنا: بہت شکریہ، اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

جواب: میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110