اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
پیر

27 نومبر 2023

9:37:10 AM
1415231

طوفان الاقصیٰ؛

بادشاہِ قلزم گو اسرائیل کی کُرنِش

غاصب صہیونی ریاست یہ تمام ہتھیار اور مالی امداد وصول کرکے، اور ٹینک، جنگی طیارے اور توپخانے اور جدید ہتھیاروں کا اسعتمال کرکے بھی، غزہ کے تقریبا نہتے نوجوانوں سے شکست کھا گئی، جس سے بخوبی واضح ہؤا کے ان کی جڑیں اس سرزمین میں نہیں ہیں، صہیونی بزدل اور ضعیف النفس ہیں، اور بستی نشین یہودی فلسطینیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ 

امریکہ نے اپنے ہتھیاروں کے گوداموں اور خزانے کے دروازے صہیونی ریاست کی طرف کھول دیئے ہیں، جس کے اپنے گودام مختلف روایتی اور غیر روایتی اور جوہری ہتھیاروں سے بھرے پڑے ہیں، اور پھر ان کے اسلامی مقاومت کے چند ہزار مجاہدین کا سامنا ہی تو ہےی؛ لیکن امریکہ نے ہتھیار بھیجنے کو کافی نہیں سمجھا بلکہ دو طیار بردار بحری جہاز اور بے شمار جنگی جہاز بھی بحیرہ روم میں پہنچا دیئے، جن پر ہزاروں امریکی فوجی سوار تھے اور مقصد صرف اور صرف تل ابیب کی جعلی ریاست کو مدد بہم پہنچانا تھا یہاں تک کہ امریکہ براہ راست فوجی مداخلت تک بھی بڑھا، چنانچہ امریکہ اور صہیونی ریاست کے باہم روابط و تعلقات کے بارے میں متعدد سوالات اٹھے ہیں۔

سوال: تو کیا صہیونی ریاست ایک فطرح ریاست ہے یا نہیں بلکہ ہماری پرانی بات درست ہے اور اسرائیل عالم اسلام کے قلب میں امریکیوں کا ایک جدید فوجی اڈہ ہے، جو امریکی مالی اور عسکری امداد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا؟

غزہ کی جاری جنگ، اور خاص طور پر طوفان الاقصیٰ آپریشن نے واضح کیا کہ اسرائیل دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ایک سیاسی وجود کا نام نہیں ہے بلکہ ایک مقدس عربی اور اسلامی سرزمین میں براہ راست امریکی استعمار کی علامت ہے۔

امریکی کانگریس کے تحقیقات مرکز کی رپورٹ میں ہے کہ وائٹ ہاؤس نے سنہ 1948ع‍ سے سنہ 2023ع‍ تک اس ریاست کو 300 ارب ڈالر امداد فراہم کی ہے، جبکہ اس نے اس عرصے میں اپنے بہت سی ریاستوں پر اتنی رقتم رقم خرچ نہیں کی ہے۔

صہیونی ریاست کے تئیں امریکی امداد کا آغاز سنہ 1948ع‍ میں غاصب ریاست کی تاسیس کے دن سے شروع ہوئی ایک مضحکہ خیز بہانے سے: "مشترکہ تزویراتی مقاصد اور جمہوری اقدار کی باہمی پابندی"، یہ بہانہ لامحدود اور فیاضانہ امریکی امداد کی بنیاد ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی مدد امریکہ میں قانون کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے تحت، امریکی انتظامی حکام کی ذمہ داری ہے کہ خے باقی ممالک کی نسبت اسرائیل کی "معیاری فوحی بالادستی" کے تحفظ کے لئے، ہر ممکنہ امداد بجا لائیں۔

مثال کے طور پر امریکہ نے سنہ 2011ع‍ سے سنہ 2023ع‍ کے آغاز تک صہیونی ریاست کو آئرن ڈوم (اہني گنبد) نامی فضائی دفتاعی نظام کے لئے میزائلوں کی خریدار کی غرض سے تین ارب ڈالر کی رقم دی ہے، سنہ 2006ع‍ سے تقریبہ دو ارب 40 کروڑ ڈالر میزائل شکن نظام "داؤد کی گوفن (David's Sling)" کو ترقی دینے کے لئے اور ساڑھے چار ارب ڈالر میزائل شکن سسٹم "پیکان Arrow" کو ترقی دینے کے لئے صہیونیوں کو ادا کئے۔

غاصب صہیونی ریاست دنیا کی پہلی ریاست ہے جس نے امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے پانچویں نسل کے 50 جنگی طیارے ایف-35 حاصل کر لئے۔ ایف-35 امریکی تاریخ کا جدید ترین طیارہ ہے۔

آج طوفان الاقصیٰ کے بعد، امریکہ سمجھ گیا کہ اس کا فوجی اڈہ ـ یعنی اسرائیل، جو عالم اسلام کے قلب میں قرار دیا گیا ہے ـ اپنے تمام تر ہتھیاروں کے باوجود مقاومت فلسطین کے چند سو فلسطینی مجاہدین کے مد مقابل ٹھکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

اسی بنا پر امریکی صدر جو بائیڈن، وزیر خارجہ بلنکن، وزیر دفاع آسٹن اور سینیئر امریکی جرنیلوں نے جلدبازی میں تل ابیب کا دورہ کیا۔ گویا جو حملہ غزہ کے اطراف میں صہیونی زمین چوروں کے قصبوں پر ہؤا ہے، در حقیقت واشنگٹن کے مرکز پر ہؤا ہے، چنانچہ انھوں نے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی منتقلی کے لئے امریکہ سے تل ابیب تک کا ہوائی پل قائم کیا اور صہیونی ریاست نے اس کے ذریعے چند ہی گھنٹوں میں دو ارب ڈآلر کے ہتھیار وصول کئے۔

امریکہ نے فوجی امداد کو کافی نہیں سمجھا اور 14 ارب ڈالر نقد رقم بھی صہیونی ریاست کو بطور امداد فراہم کر دی اور بہانہ یہ بنایا کہ "اسرائیل یہ رقم لے امریکی یرغمالیوں کو تاش کرے گا"،

لیکن غاصب صہیونی ریاست یہ تمام ہتھیار اور مالی امداد وصول کرکے، اور ٹینک، جنگی طیارے اور توپخانے اور جدید ہتھیاروں کا اسعتمال کرکے بھی، غزہ کے تقریبا نہتے نوجوانوں سے شکست کھا گئی، جس سے بخوبی واضح ہؤا کے ان کی جڑیں اس سرزمین میں نہیں ہیں، صہیونی بزدل اور ضعیف النفس ہیں، اور بستی نشین یہودی فلسطینیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 110