اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

22 اکتوبر 2023

1:46:26 PM
1403852

سیکریٹری جنرل کادورہ برونڈی؛

افریقی ممالک میں کام کے امکانات بہت اچھے ہیں / مبلغین باہمی یکجہتی کو بحال رکھیں ۔۔ آیت اللہ رمضانی

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے افریقی ممالک کی صلاحیت، فطرت اور آمادگی کو مناسب قرار دیتے ہوئے کہا: کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے معجزوں کی تلاش میں تھے، لیکن بلال حبشی نے رسول اللہ(ص) سے معجزہ نہیں مانگا، آنحضرت کے الفاظ خود معجزہ تھے، جس وقت غلامی رائج تھی، رسول اللہ(ص) نے فرمایا: سیاہ و سفید کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے تقویٰ کے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی آیت اللہ رضا رمضانی ـ جو شیعیان اہل بیت(ع) اور دوسرے مسلم مکاتب کے پیروکاروں کی دعوت پر ہیں ـ نے اس ملک کے دینی مبلغین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ہمیں دین اور دینی آداب کو اچھی طرح سیکھنا اور سکھانا چاہئے؛ اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہم اپنی دینی دانش میں مسلسل اضافہ کریں۔ پہلے دین میں تَفَقُہ حاصل کرنا ہے یعنی دین میں گہری سمجھ بوجھ حاصل کریں اور پھر لوگوں کو متنبہ کریں۔ چنانچہ ہمیں مسلسل حصول علم اور مطالعہ کرنا چاہئے۔

انھوں نے کہا: اگر ایک معاشرے میں علم و ایمان نشوونما پائے، وہ معاشرہ ہر لحاظ سے ترقی کرتا ہے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں: "النَّاسُ ثَلَاثَةٌ: فَعَالِمٌ رَبَّانِيٌّ وَمُتَعَلِّمٌ عَلَى سَبِيلِ نَجَاةٍ وَهَمَجٌ رَعَاعٌ، تین قسم کے لو گ ہوتے ہیں ایک عالم ربانی دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر گامزن رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہو لیتا ہے"۔ (حکمت 147) ہمج رعاع سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہوا کے رخ کے ساتھ رخ بدلتے ہیں۔

حوزہ علمیہ کی اعلیٰ سطوح کے استاد نے علماء کی حرمت کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں: "جس نے کسی عالم کی توہین کی اس نے میری توہین کی ہے"، اب اگر کوئی مرتبۂ مرجعیت یا ولایت فقیہ پر فائز ہستی ـ جو کہ امام زمانہ (علیہ السلام) کے نائب ہیں ـ کی توہین کرے تو یہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توہین ہے۔

انھوں نے تزکیۂ نفس اور خودسازی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا: دینی علم کے حصول اس لئے ہے کہ ہم اپنی زبانوں، سماعتوں اور اعضاء و جوارح کی تربیت کریں۔ ضروری ہے کہ پہلے اپنی تربیت کریں تا کہ دوسروں کی تربیت کر سکیں۔ پہلے ہمیں خود با ادب ہونا چاہئے تب ہی دوسرے ہماری ادب و اخلاق کی کلاس میں بیٹھ کر ادب و اخلاق سیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان پر قابو نہ رکھیں، دوسروں کو لئے نمونۂ عمل نہیں بن سکتے اور لوگ ہیں قبول نہیں کریں گے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "دوسروں کی تربیت کرنے سے پہلے، تربیت کا آغاز اپنے آپ سے کرو"، اگر ہم اپنی زبان کو قابو نہ رکھیں، لوگ ہمیں ایک معلم کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔ دینی معلم ریاضی کے معلم سے مختلف ہوتا ہے، لوگ دینی معلم سے اچھے طرز سلوک کی توقع رکھتے ہیں۔ البتہ ہمیں تو یہ بھی یقین ہے کہ اگر ریاضی کا معلم بھی با ادب ہو بتو وہ بھی بہت مؤثر ہو سکتا ہے۔

سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے کہا: افریقی ممالک کی استعداد، فطرت اور آمادگی بہت اچھی اور مناسب ہے؛ کچھ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے معجزوں کی تلاش میں تھے، لیکن بلال حبشی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے معجزہ نہیں مانگا، آنحضرت کے الفاظ خود معجزہ تھے، جس وقت غلامی رائج تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: سیاہ و سفید کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے تقویٰ کے۔

انھوں نے تبلیغ میں اخلاص کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: اخلاص سب سے بڑی کامیابی اور فلاح و رستگاری ہے۔ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ "اخلاص میرے اَسرار میں سے ایک سِرّ ہے جسے میں اپنے اچھے بندوں کو عطا کرتا ہوں"، ایک حدیث میں آیا ہے کہ "اگر کوئی 40 شب و روز، اخلاص رکھے، تو میں اس کے دل کو نورانی کر دیتا ہوں"۔ 

آیت اللہ رمضانی نے کہا: ہمیں اپنے سننے اور دیکھنے والوں کی فہم کے مطابق بولنا چاہئے اور تکلّم کرنا چاہئے۔ ان کی عقلوں کے مطابق بولنا چاہئے، اس طرح سے بولنا چاہئے کہ ہمارے سننے اور دیکھنے والے سمجھ لیں اور ان کی تربیت ہو سکے۔

انھوں نے کہا: مبلغین کو مہارت حاصل کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے، منبر اور خطابت سب کچھ نہیں ہے بلکہ مبلغین کو پڑھانے اور قرآن سکھانے کی مہارت حاصل کرنے کے لئے بھی کوشاں ہونا چاہئے۔ ہمیں علم و معرفت کے حلقوں کی تشکیل کا اہتمام کرنا چاہئے، اور قرآن اور نہج البلاغہ کے موضوعات و مباحث کو ان حلقوں میں لانا چاہئے۔

انھوں نے مبلغین سے خطاب کے دوران مزید کہا: باہمی اتحاد و یکجہتی اور یکدلی کو بحال رکھیں، اگر کام کے طریقوں اور روشوں پر اختلاف ہو، تو یہ اہم نہیں ہے لیکن شیطان دشمنی پھیلانے اور کینہ و عناد پیدا کرنے کے درپے رہتا ہے۔ ہمیں اس شیطانی عناد اور دشمنی کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اگر افراد کے درمیان اختلاف اور کینہ ہو تو، تو مسائل پیدا ہوتے ہیں اور یہ مسائل معاشرے اور اجتماع کے لئے نقصان دہ ہونگے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جو اہل باطل ہیں وہ باطل پر متحد ہیں۔ لیکن اہل حق کو تفرقے اور انتشار و اختلاف سے دوچار نہیں ہونا چاہئے۔ ایک ہی آلودہ پھل، پھلوں کے پورے صندوق کو آلودہ کر دیتا ہے۔ بعض لوگ اختلاف کا بیج بوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جدائیاں اور نفرتیں معرض وجود میں آتی ہیں۔

انھوں نے کہا: دین ایک امانت ہے جو آپ کے سپرد کی گئی ہے۔ جس وقت میں ویانا میں تھا، ایک بار آیت اللہ العظمٰی بہجت کی خدمت میں حاضر ہؤا اور ان سے دعا مانگی تو فرمایا: "میں آپ کو خدا کے سپرد کرتا اور خدا کو آپ کے سپرد کرتا ہوں" اور پھر خود وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: آپ پر لازم ہے کہ اللہ کی یاد کو لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں زندہ کریں۔ کچھ لوگ خدا کا نام مٹانا چاہتے ہیں، آپ کو چاہئے کہ اسے زندہ کریں"۔ چنانچہ خدا اور دین امانتیں ہیں جو ہمارے سپرد کی گئی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110