انھوں نے دینی مناسک و شعائر کی طرف توجہ کے کے سلسلے میں وہابی فکر کے انحرافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: وہابیت کا یہ انتہاپسندانہ اور منحرفانہ تفکر کہ شعائر اللہ پر توجہ دینا اور اسلام کے نبی مکرم کی عظمت و رفعت کی تعظیم شرک کے زمرے میں آتی ہے اور (معاذ اللہ) آنحضرت کے والدین اور دوسرے بزرگوں پر شرک کا الزام لگانا، حقیقت میں اسلام اور پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے خلاف اعلان جنگ ہے اور اس تفکر کے پیروکار دوسرے الفاظ اور بیان کے ذریعے اسی رویے کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہابیت بھی بہائیت کی طرح اسلام کے زمرے سے باہر سمجھی جاتی ہے؛ بہائیت کو مسلمانوں کے زمرے میں قرار نہیں دیا جاتا اور یہ ایک گمراہ دھڑا اور دہشت گرد جماعت کے سوا کچھ نہیں ہے جو فساد پھیلاتی ہے اور اس کی جڑیں برطانیہ اور صہیونی ریاست میں پیوست ہیں۔
انھوں نے کہا: میلاد کی تقریبات کا عدم جواز ایک گمراہانہ روایت اور وہابی دہشت گرد ٹولے کی پکار ہے جو بہائیت کے نرسنگھے سے سنائی دے رہی ہے؛ اور مسلم علماء ـ بالخصوص اہل سنت کے علماء ـ کی کتابیں ایسے دستاویزات سے مالامال ہیں جو اسلامی سرزمینوں میں عید میلادالنبی(ص) کی شاندار جشن و تقریبات کو نمایاں کرتی ہیں۔ کتاب احمد بن محمد القسطلانی کی کتاب "المواہب الدنیہ بالمنح المحمدیہ" ـ جو تقریبا 600 سال قبل لکھی گئی ہے ـ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مسلمین ربیع الاول کے پہلے دن سے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولادت با سعادت کی خوشیاں منانا شروع کرتے تھے۔
علامہ نجم الدین طبسی نے مزید کہا: اس کتاب میں یہ بھی ہے کہ مسلمین ان دنوں کے دوران ضافتیں دیتے تھے، دسترخوان بچھاتے تھے اور اور رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایام میلاد کی راتوں کو صدقہ دیتے تھے، نئے کپڑے پہنتے تھے، ہر جگہ چشن چراغاں مانتے تھے اور مدح و نعت کی محفلیں جماتے تھے۔
انھوں نے ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابو لہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ولادت کے دن سرور و شادمانی کا اظہار کیا تھا جو جہنم میں اس کے عذاب میں تخفیف کا سبب ہوگا، تو وہ خداشناس اور یکتا پرست انسان جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی امت سے تعلق رکھتے ہیں اور آنحضرت کی ولادت کی راتوں کو خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور حتی الوسع صدقہ اور ضیافت دے کر سرور و شادمانی ظاہر کرتے ہیں، بغیر کسی شب و شبہے کے، یقینی طور پر اللہ کی رحمت واسعہ سے بہرہ ور ہونگے اور جنت میں داخل ہونگے۔
انھوں نے کہا: شعائر الہیہ پر عمل نہ کرنے اور ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے سلسلے میں وہابیت کے منحرف افکار کی تعریف یہ ہے کہ وہ امت اور پیغمبر کے درمیان تعلق منقطع کرنا چاہتی ہے۔ وہابیت، جو مشکل حالات میں امریکہ سے توسل کرتی ہے، امت اسلامیہ کو خدا کے پیارے پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے توسل کرنے سے منع کرتی ہے، حالانکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے توسل خداوند متعال کا حکم ہے، جہاں ارشاد فرماتا ہے:
"وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا"
اور کوئی پیغمبر ہم نے نہیں بھیجا مگر اس کے لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب انہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی تھی، اگر آپ کے پاس آتے اور پھر اللہ سے بخشش کے طلبگار ہوتے اور پیغمبر ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان پاتے"
انھوں نے اپنی تقریر کے آخر میں وہابیت کو ایک دہشت گرد، فتہ گر اور فسادی ٹولہ قرار دیا اور کہا: وہابیت نے اسلامی ممالک میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا اور ان ممالک میں لوٹ مار کی ہے، چنانچہ یہ ٹولہ انحراف اور گمراہی، فتنہ انگیزی اور توحید کے سلسلے غلط فہمی سے دوچار ہے۔
...............
110