اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
اتوار

6 اگست 2023

2:01:56 PM
1385177

یمن میں بحری جنگ کا اندیشہ

امریکہ اور اس کے اتحادی اس خطے کے پانیوں کی طرف سے داخل ہو کر یمن کے امن عمل میں مداخلت کرکے ایران اور سعودی عرب کے درمیان قائم تعلقات کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سعودیوں کو دوبارہ انصار اللہ کے ساتھ جنگ ​​کے لیے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بقلم علی واحدی

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یمن کے جنوب مغربی ساحلی علاقوں میں انصار اللہ کے مخالفین کی پوزیشن مضبوط کرنے سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اتحاد مستقبل میں انصار اللہ کے خلاف بحری جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ منصوبہ متحدہ عرب امارات کے کردار سے یمن کے جنوب مغربی علاقے میں انجام دیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق طارق صالح کی افواج آبنائے باب المندب سے حیس تک کے ساحلوں کو کنٹرول کریں گی اور جنوبی عبوری کونسل کی افواج عدن سے راس العرا کے علاقے کے ساحلوں کو کنٹرول کریں گی۔ العمالقہ فورسز کی 7ویں بریگیڈ اور الصبیحہ قبائل کے گروہوں نے دس دن پہلے طارق صالح فورسز کی جانب سے تعز صوبے کے جنوب مغرب میں واقع باب المندب کی ساحلی پٹی میں ایک چوکی بنانے کی کوشش کو روک دیا۔ یہ کشیدگی زباب قصبے کے قریب طارق صالح کی افواج کی نقل و حرکت روکنے کا سبب بنی۔

الصبیحہ کے قبائل نے طارق کی افواج کو باب المندب کی طرف کسی بھی فوجی نقل و حرکت کے خلاف واضح وارننگ دی ہے۔ اس کے بعد طارق صالح نے زباب کی طرف مزید فوج بھیجنے کا حکم دیا، لیکن آخر کار الصبیحہ کے قبائل کی مزاحمت کی وجہ سے وہ زباب سے المخا کی طرف پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔ الصبیحہ قبائل کا دعویٰ ہے کہ صوبہ تعز کی جنوب مغربی زمینیں ان کی ہیں اور طارق صالح کی افواج کو ان کی دیگر پوزیشنوں سے بھی پیچھے ہٹ جانا چاہیئے۔ الصبیحہ قبائل اس شرط پر نہیں رکے بلکہ انہوں نے سعودی اتحادی افواج کے فریم ورک میں اپنی مسلح افواج کو تسلیم کرانے نیز ابو دیاب العلقمی کو فورسز کی دوبارہ کمانڈ دینے کا مطالبہ کیا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے سعدان علی سعید نامی سپاہی کے قاتلوں کی حوالگی پر بھی تاکید کی ہے۔

چند دن پہلے باب المندب میں الصبیحہ قبائل کے ساتھ تصادم کے پہلے ردعمل میں طارق صالح نے ایک بیان شائع کیا۔ اس بیان میں صالح نے باب المندب کو اپنے آپریشنل رینج میں شمار کیا اور اس منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے جو کہ المعالقہ فورسز کے کمانڈر عبدالرحمن ابو زرح المحرامی کی شرکت کے ساتھ مشترکہ آپریشن میں منظور کیا گیا تھا۔ اس مشترکہ آپریشن میں Taiz صوبے کے تمام علاقوں اور بین الاقوامی نیویگیشن روٹ کو محفوظ بنانا اس کی تنظیم کے فرائض میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ اس کشیدگی کے بعد طارق صالح کے مشیر نبیل السفی نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا کہ مشترکہ افواج کی تعیناتی کا منصوبہ (طارق صالح کی سربراہی میں) متحدہ عرب امارات نے ڈیزائن کیا تھا اور یہ صوبہ الحدیدہ کے جنوب میں حیس سے باب تک کے علاقے کا احاطہ کرتا ہے۔

دوسری جانب جنوبی عبوری کونسل کی افواج آبنائے باب المندب کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے راس العرا ریجن سے عدن تک کے ساحلوں کی حفاظت کریں گی۔ اس کے علاوہ آبنائے مندب کے دوسری طرف جبوتی فوج کے دستے تعینات ہوں گے۔ اس حوالے سے بعض مقامی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ جنوبی عبوری کونسل کی فورسز نے پانچ دن پہلے باب المندب میں سرحدی علاقے کا کنٹرول طارق صالح کی فورسز کو منتقل کر دیا تھا۔ اسی بنا پر یہ منصوبہ انصار اللہ کے ساتھ آئندہ بحری جنگ کی حمایت کے لیے امریکی اتحاد نئی اسٹریٹجی سمجھا جا رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ایران اور دیگر مزاحمتی گروہوں کی حمایت سے انصار اللہ نے اپنی بحریہ کو مضبوط کیا ہے اور اس فورس کو مختلف میزائلوں اور تیز کشتیوں سے مسلح کیا ہے۔

الصبیحہ اور طارق صالح کے قبائل کے درمیان کشیدگی کو امارات کے منصوبے میں خلل ڈالنے کے لیے بعض سعودی حکام کی کارستانی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ انصار اللہ کے ساتھ تنازعہ دوبارہ شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور دوسری طرف وہ یمن کے جنوب مغربی ساحل کو مکمل طور پر امارات کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ اس لیے سعودی حکومت الصبیحہ قبائل کے کارڈ کے ساتھ اس محور میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ عام طور پر بحیرہ احمر اور باب المندب جیسی اہم آبناء کا تنازعہ ایک ایسی بحث ہے، جو یمنی جنگ کے ابتدائی سالوں سے زیر بحث ہے اور امریکی بحری اتحاد کی فورسز کی مستقل تعیناتی کے بعد یہ موضوع مزید سنگین ہوگیا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی اس خطے کے پانیوں کی طرف سے داخل ہو کر یمن کے امن عمل میں مداخلت کرکے ایران اور سعودی عرب کے درمیان قائم تعلقات کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سعودیوں کو دوبارہ انصار اللہ کے ساتھ جنگ ​​کے لیے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یمن میں جنگ سے بچنے کے باوجود سعودی اپنے موقف کو برقرار رکھنے کے لیے مذاکرات اور فوجی جارحیت روکنے یعنی مکمل جنگ بندی پر عمل درآمد میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں، یہ ایسا عمل ہے، جو یمن میں امن کے حصول کے لیے سیاسی حل کے تسلسل کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242