اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
جمعہ

4 اگست 2023

7:51:59 PM
1384825

شیعہ عالم دین کو عالمی کیتھولک پاپائے اعظم کا جواب، اور توہیں قرآن کی مذمت

شیعہ عالم دین سانتیاگو ریکاردو پاز، اپنے دوست پوپ فرانسس کو ایک اجتجاجی مراسلہ بھیج کر مسلمانوں کی آسمانی کتاب "قرآن کریم" کی توہین کی مذمت کرتے ہیں اور پوپ بھی قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو ایک وحشیانہ عمل گردانتے ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر سانتیگو ریکاردو پاز ـ اسلامی نام: شیخ عبدالکریم پاز ـ ارجنٹائن کے شیعہ عالم دین ہیں جو اپنی زندگی کے ابتدائی عشروں میں عیسائیت کے پیروکار تھے۔ نوجوانی کے ابتداء ہی میں مغربی جاہلیت کے گھٹا ٹوپ بادلوں کے پیچھے سے خورشید اسلام کا مشاہدہ کیا اور اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کو تحریف شدہ ادیان و مذاہب کے سائے میں رہنے پر ترجیح دی اور اسلام قبول کرنے کے کچھ عرصہ بعد مذہب حقۂ جعفریہ اثنٰی عشریہ کو گلے لگایا۔ انھوں نے آج تک مختلف ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اپنے اخباری مکالمات میں اپنے اسلام قبول کرنے کی کیفیت، اپنے معاشرے میں موجود مسلمانوں کے ڈھانچے اور اپنے ملک پر اسلامی انقلاب کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

ڈاکٹر شیخ عبدالکریم پاز عالمی سطح پر مکتب اہل بیت(ع) کے نامی گرامی مبلغ ہیں، مدرس اور معلم بھی ہیں، مؤلف بھی ہیں اور عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کی مجلس عمومی (جنرل اسمبلی) کے رکن بھی ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے نامہ نگار نے ـ ملک ویٹکن کے سربراہ، سریر مقدس کے پیشوا اور دنیا بھر کے کیتھولک گرجاگھروں کی مرکزی حکومت کے سربراہ، خورخے (جارج) ماریو برگولیو (Jorge Mario Bergoglio) المعروف بہ پوپ فرانسس (Pope Francis) کے ساتھ ارجنٹائن کے اسلامی فاؤنڈیشن میں FIAS میں ادیان و مذاہب کے نمائندے، حجت الاسلام والسلمین ڈاکٹر شیخ عبدالکریم پاز کے حالیہ مکاتبے کی پیش نظر، ان کے ساتھ با چیت کا اہتمام کیا ہے:

 ابنا: السلام علیکم، اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے اپنا وقت ہمیں دیا، اگرچہ آپ دنیا اچھی خاصی شہرت رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود، ہمارے قارئنین صارف سے اپنا تعارف کرا دیجئے۔

- علیکم السلام، خوش آمدید، میں عبدالکریم پاز ہوں، میرا تعلق جنوبی امریکی ملک ارجنٹائن سے ہے، اور اس ملک میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہوں۔ تقریبا 40 سال قبل میں عیسائی تھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اعتقاد رکھتا تھا اور پھر ایسی تعلیمات کی تلاش میں نکلا جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات سے قریب تر ہوں اور یوں میں نے مختلف مذاہب کے نمایاں کرداروں کے بارے میں مطالعے کا آغاز کیا؛ کیونکہ اس زمانے میں بہت سارے لوگ ـ خصوصاً نوجوان ـ مجھ سے مغربی تہذیب و ثقافت میں رائج مادہ پرستی سے دوری کے راستوں کے بارے میں پوچھ رہے تھے؛ چنانچہ میں نے مغربی فکری دنیا سے باہر، مشرقی مذاہب اور فلسفوں کے بارے میں جستجو کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ان افراد کے سوالات کے لئے اطمینان بخش جواب تلاش کر سکوں۔

ابنا: آپ نے ایک ارجنٹینی عیسائی کے طور پر، تثلیث (Trinity) کی دنیا سے یکتاپرستی کی طرف کیونکر منتقل ہوئے اور کس طرح مسلمان ہوئے؟

- یہ سوال آج کے بہت سے نوجوانوں کا ذہنی مسئلہ ہے جو اپنی گمشدہ حقیقت کی تلاش میں تھے۔ میں نے ابتداء میں بدھ مت کے بارے میں جستجو اور تحقیق کی اور پھر یونیورسٹی میں فلسفہ کے مضمون میں تعلیم حاصل کی، اور دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں سے متعلق فلاسفروں نیز ارجنٹائن میں یونانی فلاسفروں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے بعد مقامی لوگوں سے گفتگوی کی۔ نیز انجیلی عیسائیوں (Evangelicalists) اور، پروٹسٹنٹ عیسائیوں (Protestants) سے بات چیت کی اور ہر روز ان ملاقاتوں اور مذاکروں میں خدا، انبیاء اور ادیان و مذاہب سے متعلق نئی معلومات حاصل کرتا رہا یہاں تک کہ حادثاتی طور پر دین اسلام سے آشنا ہؤا؛ جبکہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔

ابنا: آپ نے بھی عیسائیت کا تجربہ کر لیا ہے اور حالیہ عشروں میں مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں اور اس وقت مسلمان ہیں۔ آپ کے خیال اسلام اور عیسائیت کے درمیان سب سے اہم اور بنیادی اختلافات کیا ہیں؟

- میرے خیال میں، اسلام کے ساتھ دوسرے افکار کا اختلاف اس لحاظ سے ہے کہ اسلام دوسرے تمام ادیان و مذاہب اور عقائد و افکار کی نسبت زیادہ کامل ہے۔ میرے خیال میں اللہ کی یکتائی اور وحدانیت ایک منطقی اور مکمل طور پر درست ہے۔

ابنا: حالیہ چند دنوں کے دوران ذرائع ابلاغ نے پوپ فرانسس کے نام آپ کے کے ایک خط کے حوالے سے خبریں شائع کی ہیں، مہربانی کرکے آپ کے اس اہداف و مقاصد اور اثرات و نتائج کیا تھے؟

- جیسا کہ آپ نے کہا، اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں، [یورپ میں] قرآن کریم کی مکرر حرمت شکنی ہوئی اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شرمناک اقدام کی مذمت کی جائے، چنانچہ میں نے سوچا کہ دنیا کے کیتھولک عیسائیوں کے ️روحانی پیشوا پوپ فرانسس کے ساتھ اپنے دیرینہ دوستانہ تعلقات کے پیش نظر انہيں ایک خط لکھوں اور ان سے اپیل کروں کہ اپنی اہم پوزیشن کی روشنی میں اس اقدام کی مذمت کریں۔

ابنا: آپ نے خط میں کیا لکھا؟

- میں نے لکھا کہ قرآن کریم کی شان میں جو اہانتیں اور گستاخیاں ہو رہی ہے، ادیان و مذاہب اور انسانوں کے درمیان مکالمے (Dialogue) کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ میں نے اس خط میں زور دیا کہ معاملات میں پیشرفت اور امن و سلامتی کا قیام، ان حرکتوں سے سازگار نہیں ہے اور اس طرح کے اقدامات نے مسلمانوں کے درمیان بہت ہی منفی اثرات مرتب کئے ہیں؛ بالخصوص یہ کہ کچھ حکومتیں بھی اس ماجرا کے پیچھے ہیں۔

ابنا: ہمارے لئے بھی اور ذرائع ابلاغ کے لئے بہت اہم ہے کہ پوپ نے آپ کے خط کا جواب دیا؛ آپ بتایئے کہ انھوں نے اپنے جوابی خط میں کیا لکھا؟

- ہمارے درمیان پہلے ہی سے دوستانہ تعلق برقرار تھا [پوپ فرانسس ارجنٹینی شہری ہیں] انھوں نے اس سے پہلے بھی مکاتبے کی صورت میں اس واقعے کی مذمت کی تھی؛ لیکن میں نے پھر بھی انہیں خط لکھا اور قرآن کریم کی توہین کی طرف اشارہ کیا۔ پوپ نے پہلے کی طرح اپنا موقف دہرا کر کہا کہ یہ اقدام ایک وحشیانہ اقدام تھا۔ انھوں نے سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن کریم کی توہین کی مذمت کرتے ہوئے اس قسم کے افعال قبیحہ کو انسانی مکالمے کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ انھوں نے اس خط میں مجھ سے مخاطب ہو کر لکھا:

"ڈاکٹر عبدالکریم پاز، میرے پیارے بھائی! آپ کے خط کا شکرگزار ہوں۔ قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کا واقعہ حقیقتاً ایک وحشیانہ عمل ہے۔ یہ واقعات انسانوں کے درمیان انسانی اور بالغانہ گفتگو کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں"۔ 

ابنا: آخری سوال کے طور پر! آپ بتا دیجئے کہ مقدسات کی توہین، اور قرآن سوزی کے حالیہ مغربی اقدامات اور مغرب کے ہاں کی مبیدہ آزادی اظہار کے پس پردہ کیا حقائق ہیں؟

- میں کیتھولک عیسائیوں کے پاپائے اعظم کے جواب کو ایک مثبت قدم سمجھتا ہوں؛ کیونکہ وہ دنیا کے ایک اہم فرقے کے رہبر و پیشوا ہیں جنہوں نے ان جنونی اور پاگل افراد نیز ان کی پشت پر کھڑی حکومتوں کے اقدام کی مذمت کرکے دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ ہم دلی اور ہم فکری کا ثبوت دیا اور ان کے ساتھ متحدہ موقف اپنایا۔ 

یہ خط درحقیقت ڈنمارک سمیت ان یورپی حکومتوں پر پوپ کی تنقید کا نوک دار سرا تھا جو انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بہانے اس واقعے کی حمایت کے لئے سامنے آئیں؛ حالانکہ وہ خود، اظہار کی آزآدی پر یقین نہیں رکھتے! بدقسمتی سے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے استبدادی ممالک فلسطین، یمن، عراق، شام، ایران اور تیسری دنیا کے دوسرے ممالک کی آواز پر پابندی لگا رہے ہیں، حتیٰ کہ آزادی اظہار کے مدعی ممالک کے اندر بھی عوام کے جائز احتجاج کو کچلا جا رہا ہے؛ چنانچہ مغرب کا آزادی بیان کے تحفظ کا نعرہ ایک جھوٹ ہے، جس کا مغربی حکومتیں نعرہ دعویٰ کر رہی ہیں۔

ابنا: آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔

ـ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔

مکالمہ باہتمام: اعظم ربانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔

110