اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

26 جولائی 2023

5:15:00 AM
1382416

قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ؛

قرآن کی توہین انسانیت، معنویت اور عقلیت کی توہین ہے / لبرلزم قرآن کی عظیم طاقت کے آگے خاموش نہيں رہ سکتا۔۔۔ آیت اللہ رمضانی

"مسلمانوں کی طاقت کو اس سطح پر پہنچنا چاہئے کہ دنیا کے کسی گوشے میں مقدسات کی توہین ناممکن ہوجائے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں مغرب میں اس طرح کے اقدامات نہ دہرائے جائیں، کیونکہ یہ سب ان ہی کے لئے نقصان دہ ہے"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق قرآن سوزی کے حوالےسے رہبر انقلاب کے حکم کی فقہی، قانونی اور سیاسی جہتوں کا علمی جائزہ لینے کی غرض سے اجلاس کا انعقاد سوموار 24 جولائی کو، تہران کے اسلامی ثقافت و افکار کے انسٹی ٹیوٹ میں منعقد ہؤا۔ 

جوزہ علمیہ کے درس خارج کے استاد اور عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی نے اس علمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: قرآن کے سلسلے میں ہماری نگاہ کو جامع، عمیق اور درست ہونا چاہئے۔ قرآن کتاب حیات ہے جس پر عمل دنیا اور اخرت کی فلاح و سعادت کا سبب بنتا ہے۔

آیت اللہ رمضانی نے کہا: قرآن کی توہین، انسانیت، آزادی و حریت، عدالت، معنویت اور عقل و عقلیت کی توہین ہے۔

انھوں نے کہا: حالیہ عشروں میں دنیا کے کچھ علاقوں میں قرآن کریم کی توہین اور بے حرمتی ہوئی ہے۔ اور یہ حالیہ واقعہ ایک سلسلہ وار اور مکرر واقعے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس تسلسل نے شیعیان اہل بیت(ع) مسلمانوں اور ادیان کے پیروکاروں کے دلوں کو مجروح کر دیا ہے۔ اس کا سبب معاشرتی میدانوں میں قرآن کی پوزیشن (اور منزلت) ہے۔ قرآن کی ان ہی معاشرتی [اور آفاقی] جہتوں نے دوسروں کو بے بس کر دیا۔ وہ قرآن کے خلاف جنگ کو اپنے منصوبوں کا حصہ بناتے ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ اسلام دشمنی کا مسئلہ، اس وقت سے نمایاں ہو گیا جب قرآن اور اسلام کا سماجی ظہور (Social emergence) وقوع پذیر ہؤا۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ عصر حاضر میں دینی انقلاب رونما نہیں ہوتا اور یہ ایک ناممکن تصور ہے، چنانچہ انہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کو انقلاب کو قرآن کا معجزہ اور قرآن کی سماجی اور معاشرتی جہت کے ظہور کے طور پر دیکھا، جس نے تمام مغربی مفکرین کے نظریات کو باطل و منسوخ کر دیا۔

انھوں نے ان بے حرمتیوں کے پس منظر بیان کرتے ہوئے سنہ 2010غ‍ میں امریکہ میں قرآن سوزی پر  امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی) کے  کے پیغام کا حوالہ دیا جس میں آپ نے فرمایا تھا: "امریکہ میں قرآن پاک کی جنون آمیز، نفرت انگیز اور مکروہ بے حرمتی ـ جو اس ملک پولیس سیکورٹی کے سائے میں پیش آئی، ـ ایسا تلخ اور عظیم واقعہ ہے جسے چند فضول اور کرائے کے گماشتوں کی احمقانہ حرکت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عناصر. یہ ان مراکز کی ناپی تولی کارروائی ہے جنہوں نے برسوں سے اسلامو فوبیا اور اسلام دشمن پالیسیوں کو اپنے ایجنڈے پر رکھا ہؤا ہے اور سینکڑوں طریقوں اور ہزاروں تشہیری اور عملیاتی اوزاروں سے اسلام اور قرآن کے خلاف سرگرم عمل ہوئے ہیں۔

یہ معاندانہ اور کینہ ورانہ اقدام ایک نئی حرکت کا آغاز نہیں بلکہ صہیونیت اور امریکی انتظامیہ کی سرکردگی میں اسلام دشمنی کے طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آج استکبار کے تمام سرغنے اور ائمۃ الکفر اسلام کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے ہیں۔ اسلام انسان کی آزادی اور معنویت و روحانیت کا دین اور قرآن رحمت، حکمت اور عدالت کی کتاب ہے؛ یہ دنیا کے تمام حریت پسندوں اور تمام ابراہیمی ادیان کا فریضہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ـ ان نفرت انگیز طریقوں سے ـ اسلامی دشمنی کی پلید اور گھناؤنی پالیسی کا مقابلہ کریں۔

آیت اللہ رمضانی نے اُس موقع پر بھی اور حالیہ گستاخیوں کے موقع پر بھی رہبر انقلاب اسلامی پیغام کو امت مسلمہ کی تزویری حکمت عملی قرار دیا اور کہا: مسلمین ہر حوالے سے تمام انسانوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی پر مبنی مشترکہ اجتماعی زندگی کے لئے تیار ہیں لیکن اگر جبر اور مطلق العنانیت کا سہارا لیا جاتا رہے اور دشمنان اسلام دین اسلام کو نقصان پہنچانا چاہیں اور توہین کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیں تو یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں جامع اسلام کی موجودگی اور اسلامی انقلاب کے اہداف و مقاصد سے وفاداری کو اسلامی نظام کی حصولیابیوں میں سے ہے اور زور دیا کہ اسلام معاشرتی میدانوں میں ظہور کر چکا ہے اور بعد جدیدیت (Postmodernism) کے دور میں حکمرانی کا مدعی ہے، چنانچہ لبرل دھارا اس طاقت کے آگے خاموش نہیں رہ سکتا۔ مغرب اور مشرق ہمیش دین اور دینداری کے خاتمے یا محدود کرنے کے لئے کوشاں رہے ہيں۔ وہ ـ بحیثیت مجموعی ـ دین کا مقابلہ نہیں کر سکے ہیں چنانچہ انفرادی جہت تک محدود کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ تقدس کو زائل کر دیں۔ یہ بہت مسئلہ ہے۔ مغرب والے کہتے تھے: حضرت عیسیٰ، حضرت مریم اور دوسرے مقدسات کی توہین، ایک معمولی سی بات ہے۔ انہیں اپنا تصوراتی ادب (Conceptual literature) تبدیل کرنا پڑے گا، اور یہ کہ وہ آزادی اظہار کے بہانے انسانی مقدسات کی توہین کریں، ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔

آیت اللہ رمضانی نے انسانی حقوق کے آفاقی منشور (UDHR) میں آزادی کے تصور کی وضاحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ منشور بنی نوع انسان کے لئے آزادی کا قائل ہؤا ہے، بشرطیکہ یہ آزادی دوسروں کے آزار و ذیت کا باعث نہ بنے۔ یہ ازار و اذیت اگرچہ جسمانی نہیں ہے لیکن یہ روحانی اور نفسیاتی آزار و اذیت ہے جو جسمانی آزار و اذیت سے بد تر ہے۔ دو ارب سے زائد مسلمانوں کے دلوں کو قرآن سوزی کے مذموم عمل سے اذیت پہنچی ہے، گوکہ یہ بے حرمتیاں مغرب کے لئے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہونگی۔

انھوں نے دنیا بھر کے دانشوروں اور قانون دانوں کو تجویز دی کہ اس مسئلے کا جائزہ لیں، کہ ایسے اقدام کی قانونی حیثیت کیا ہے جو دو ارب انسانوں ہی کی دل آزاری کا سبب نہیں بنا بلکہ تمام ادیان کے پیروکاروں اور پوری انسانیت کا موجب بنا ہے؟ مفکرین کو میدان میں آنا چاہئے، اور اس مسئلے کے مختلف پہلؤوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ مغرب کو بھی اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہئے؛ مغرب کا دوہرا رویہ قابل قبول نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف سے عیسائیوں کے پاپائے اعظم نے بھی زور دیا ہے کہ آزادی اظہار کے بہانے مقدسات کی توہین نہیں ہونی چاہئے۔

آیت اللہ رمضانی نے کہا کہ اللہ کے پیغمبروں اور ائمہ کی توہین ایک مجرمانہ فعل ہے اور اس کے مجرمانہ ہونے پر ہماری فقہی کتابوں میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے؛ جبکہ کسی زمانے میں مغرب میں بھی مقدسات کی توہین جرم سمجھی جاتی تھی لیکن آج کے زمانے میں ایسا نہیں ہے، اور اگر آج بھی مغرب مقدسات ـ بشمول آسمانی کتب ـ کی توہین کی مجرمانہ نوعیت کو تسلیم نہ کرے [اور اسے جرم قرار نہ دے] تو یہ عالمی سطح پر ناخوشگوار واقعات و حادثات پر منتج ہوگا۔ 

چنانچہ بین الاقوامی تنظیموں اور اداروں، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) نیز دینی و مذہبی علماء اور دانشوروں کو اس میدان میں حاضر ہونا چاہئے اور مقدسات کی توہین کو جرم قرار دینے کے مسئلہ پر مباحثہ کرنا چاہئے، اور اس حالیہ ناخوشگوار واقعے پر ـ جس نے ابراہیمی ادیان کے چار ارب پیروکاروں کو رنجیدہ خاطر کر دیا ہے ـ مجرموں کے لئے شدید ترین سزا کو شدید ترین سزا کا تعین ہونا چاہئے۔

انھوں نے شیطانی کتاب کے مؤلف سلمان رشدی (ملعون) کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مسلمانان عالم بھی ان بے حرمتیوں پر اپنے موقف سے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، اور توہین کے مرتکب عناصر بھی چین کا لمحہ نہیں دیکھ سکیں گے، خواہ مقدسات کی توہین کے سلسلے میں لادین ممانک اور مسلم اور اسلامی ممالک میں رائج تصور الگ الگ کیوں نہ ہو؛ چنانچہ انہیں جان لینا ہوگا کہ اسلامی ممالک اور مسلم امہ کا ہر فرد، ان گستاخیوں کو برداشت نہیں کرتے ہیں، اور مستقبل قریب میں مغربی ممالک دیکھ لیں گے، اور جان لیں گے، کہ کس خبط کے مرتکب ہوئے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے سویڈن کی حکومت نے بھی اس مجرمانہ اقدام کے مرتکبین کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے۔

آیت اللہ رمضانی نے آخر میں امید ظاہر کی مسلمانوں کی طاقت اس سطح پر پہنچے کہ دنیا کے کسی بھی مقام پر بھی، مقدسات کی توہین ہرگز ہرگز نہ ہو۔ مغربی ممالک کو جاننا چاہئے کہ آج دنیا کی سطح پر اسلام کے نام سے ایک فکری، معنوی اور اخلاقی طاقت موجود ہے، جو عالمی انسانی نظام میں ایسے بہت سارے سوالات کا جواب دے سکتی ہے، جن کا بحران زدہ مغرب کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مجھے امید ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے اقدامات نہ دہرائے جائیں کیونکہ یہ مغرب ہی کے لئے نقصان دہ ہے۔

یاد رہے کہ

قرآن سوزی کے حوالے سے رہبر انقلاب کے حکم کی فقہی، قانونی اور سیاسی جہتوں کا علمی جائزہ لینے والے اجلاس سے آیت اللہ علی اکبر رشاد، آیت اللہ اجمد مبلغی، آیت اللہ رضا رمضانی حجت الاسلام ڈاکٹر محمد مہدی ایمانی پور اور اور جناب ڈاکٹر محمود حکمت نیا نے بھی خطاب کیا۔

............

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

............

110