اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

4 جولائی 2023

9:18:42 AM
1377062

غدیر عیداللہ الاکبر؛

عشق علی(ع) کا جذبہ ارجنٹینی خاتون کے کلام میں / علی(ع) کا نام ہماری روح و جان میں رچا بسا ہے

رکسانا الزبتھ: خدا کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے ہماری حیات کو اسلامی جمہوریہ ایران کے زمانے میں قرار دیا اور امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) جیسی شخصیات سے روشناس کرایا۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، حُبِّ علی(ع)، ایک عطر کی مہکار ہے کہ جب شیشی کا ڈھکنا اٹھایا جاتا ہے، پوری فضا کو معطر کر دیتی ہے؛ خواہ آس پاس کے لوگ خود نہ بھی چاہیں۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی محبت آفتاب عالمتاب کی تسکین بخش کرنوں کی مانند ہے، کہ جب وہ [شمس مُضی‏ء] آسمان کے بیچوں بیچ خودنمائی کرتا ہے تو ہر چیز پر چمکتا ہے۔

ولایت علویہ باران رحمت کی مانند ہے جو، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تفریق کے بغیر، سب پر برستی ہے، اور  خدائے رحمن نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کو ـ بعد از نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ)، ـ اپنی سب سے اعلی نعمت کے طور پر ـ بندوں کو عطا کیا؛ اور جو بھی صفات حسنہ اس نے اپنے تمام انبیاء کو عطا کی تھیں، یکجا، آنجناب کے وجود ذی جود اور الٰہی اسرار کے مخزن، امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے وجود ذی جود میں ودیعت رکھ لیں۔

اہل سنت کے نامی گرامی عالم بیہقی نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: من احب ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوح فی تقواه و الی ابراهیم فی حلمه و الی موسی فی عبادته فلینظر الی علی بن ابی طالب علیه الصلواۃ ،و السلام؛ یعنی شخص حضرت آدم (علیہ السلام) کے علم و دانش کا مشاہدہ کرنا چاہے، نوح (علیہ السلام) کی تقوی کو دیکھنا چاہے، ابراہیم (علیہ السلام) کے حلم و بردباری کو دیکھا چاہے اور موسی (علیہ السلام) کی عبادت کا مشاہدہ کرنا چاہے، تو وہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی طرف دیکھے۔

تاریخ اسلام کے آغاز سے قیامت تک ـ خاندان رسالت، بالخصوص امیرالمؤمنین علی مرتضی (علیہ السلام)، کی ذوات مقدسہ سے رجوع ہی اسلام اور قرآن کریم کے حیات بخش مکتب کی معرفت اور پہچان کا بہترین راستہ ہے۔ یہاں تک کہ دوسرے ابراہیمی مذاہب اور غیر ابراہیمی فرقوں کے پیروکار بھی، جب امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شخصیت سے واقفیت حاصل کرتے ہیں تو وہ صاف و شفاف پانی کے چشمے تک پہنچے والے پیاسوں کی مانند ہوتے ہیں جو  لاشعوری طور پر آنجناب کے فضائل و کمالات کے شیدائی بن جاتے ہیں۔

ابنا خبر ایجنسی نے عید اللہ الاکبر، عید غدیر خم، کی آمد پر مکتب علوی کی شیدائی خاتون سے رجوع کیا جنہوں نے اپنی پوری زندگی اس مکتب کی تبلیغ کے لئے وقف کرتے ہوئے اس راہ میں ثابت قدم رہی ہیں۔ ایسی خاتو جو اپنے عیسائی شریک حیات کے ساتھ ـ جو بعد میں مسلمان ہؤا ـ پوری ہمت کے ساتھ اسلام کے مورچے سے دین اور حریت کا دفاع کرتی رہی ہیں اور بہت سارے غیر مسلموں کو اسلام کا پیروکار بنا دیا ہے، یہ عالمہ فاضلہ خاتون محترمہ رکسانا الزبتھ (معصومہ) اسعد ہیں، جن کا تعلق ارجنٹائن سے ہے۔ ابنا نے اس خاتون کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی ہے جس کا متن درج ذیل ہے:

ابنا: اپنا تعارف کرایئے۔

جواب: میں رکسانا الزبتھ اسعد ہوں، البتہ میرا اسلامی نام "معصومہ" ہے۔ بنیادی طور پر لبنانی مسلمانوں میں سے ہیں اور لبنان میں ہی پیدا ہوئی ہوں لیکن بچپن ہی سے ارجنٹائن میں رہی ہوں اور وہیں پروان چڑھی ہوں۔ میری شادی بھی وہیں ہوئی اور بحمد اللہ تین بچیوں کی ماں بنی۔ فی الحال ہم قم میں رہائش پذیر ہیں اور گھر کے تمام افراد حوزہ علمیہ قم میں دینی علوم کے حصول میں مصروف عمل ہیں۔ خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری بچوں کی پرورش ایران کے اسلامی ماحول میں ہوئی۔ میں نے بیونس آئرس یونیورسٹی (University of Buenos Aires Argentina [UBA]) میں عمرانیات کی تعلیم حاصل کی ہے اور آخرکار جامعۃ المصطفی العالمیہ کی نگرانی میں سرگرم عمل جامعۃ الزہراء (س) اور بنت الہدی کمپلیکس سے فقہ اور اصول الفقہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔

ابنا: اپنی ازدواجی زندگی اور اپنے شریک زندگی کے بارے میں ہمیں بتایئے، کیا یہ درست ہے کہ وہ ابتداء میں عیسائی تھے اور بعد میں مشرف بہ اسلام ہوئے؟

جواب: جی ہاں! میں میرے شریک حیات سانتیاگو پاز (Santiago Paz) پہلے عیسائی پادری تھے اور کچھ عرصہ تحقیق کے بعد مسلمان ہوئے اور شیخ عبدالکریم پاز کے نام سے جانے پہنچانے گئے۔ جس وقت میں غیر شادی شدہ تھی، تو چونکہ باپردہ تھی لہذا لوگ مجھ سے کہتے تھے: "کوئی مرد بھی تجھ سے شادی نہیں کرے گا، کیونکہ یہ مسلمانوں کا ملک نہیں ہے"۔ میں ابتداء میں کچھ فکرمند ہوئی لیکن پھر عزم و ہمت کے ساتھ کہا کہ "حجاب اللہ کا حکم ہے، اور اللہ نے یقینا بندوں کی مصلحتوں کو مد نظر رکھا؛ چنانچہ اہل بیت (علیہم السلام) سے متوسل ہوئی اور پکا ارادہ کیا کہ کبھی بھی حجاب سے دست بردار نہیں ہونگی اور اللہ سے بھی التجا کی کہ میرے لئے ایسا شریک حیات مقدّر فرمائے جو میرا ہم فکر اور ہمراہ ہو۔ میری یہ دعا بحمد اللہ مستجاب ہوئی، اور آج حجت الاسلام و المسلمین شیخ عبدالکریم پاز میرے شوہر ہیں جو مختلف ممالک میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور بیونس آئرس میں شیعیان اہل بیت(ع) کے امام جمعہ ہیں۔

ابنا: آپ نے کہا کہ آپ کی تین بیٹیاں ہیں، تو آپ نے ارجنٹائن کے ماحول میں جحاب کا مفہوم انہیں کس طرح سمجھا دیا؟

جواب: جی ہاں! یقیناً یہ سب آسان نہیں تھا، لیکن بہرحال یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کا اہتمام کریں۔ ہماری پہلی بیٹی "خانم فاطمہ" ہیں کہ جب شرعی بلوغ (9 سال کی عمر) تک پہنچیں تو ہم نے مسجد التوحید میں ان کے لئے جشن تکلیف (دینی اعمال کے وجوب کا جشن) کا اہتمام کیا اور انہیں مسجد میں موجود لوگوں سے متعارف کرایا اور کہا کہ ہماری یہ بیٹی بعدازیں مسجد میں پورے حجاب کے ساتھ حاضر ہونا چاہتی ہے۔ ہم ان کے لئے ایک محرک کا انتظام کرنا چاہتے تھے تاکہ جب وہ اسکول جاتی ہیں تو دوسروں سے متمایز ہونا، اور با حجاب ہونا، ان کے لئے ایک قدر سمجھا جائے۔ المختصر، جب فاطمہ اسکول گئیں، تو ہم نے ایک ضیافت کا اہتمام کرکے ان کی ہم جماعتیوں کو دعوت دی تا کہ اصولی طور پر ہمارا دین کیا ہے، اور ان کے لئے اسلام، حجاب، نماز اور روزے کی تشریح کر دی۔

ہماری دوسری بیٹی کا نام مریم خانم ہیں۔ ان کے سلسلے میں ہمارا کام بہت آسان تھا؛ کیونکہ ہمارے پاس پہلے سے ایک تجربہ تھا اور کسی حد تک ماحول بھی فراہم ہو چکا تھا؛ چنانچہ ہم نے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا اور مہمانوں کو سامنے اپنی بیٹی اور اس کے حجاب کی تعظیم اور تکریم کی؛ اور تیسری بیٹی خانم "نور الزہرا" ہیں، جن کے لئے پہلے سے مختلف تقریب کا اہتمام کیا گیا؛ اور ہم نے جشن عبادت کے ضمن ميں بچوں کو "اسکارف" پر مشتمل تحائف دیئے؛ یوں کہ تقریب میں آنے والی تمام بچیوں کے سر ننگے تھے اور تقریب سے جاتے ہوئے تمام کے تمام لڑکیاں با حجاب تھیں۔

ان تقریبات کے موقع پر کبھی کچھ لوگ مجھ سے کہہ دیتے تھے کہ "تم اس چھوٹی عمر میں بچیوں کو حجاب پر کیوں مجبور کرتی ہو اور انہیں خود فیصلہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دیتی ہو؟" بدقسمتی سے کچھ لوگوں کا تصور یہ ہے کہ گویا والدین اپنے بچوں کے راستے کے انتخاب میں کوئی کردار نہیں رکھتے، حالانکہ غلطی پر ہیں کیونکہ والدین ہی ہیں جو بچوں کو ایمان اور معنویت و روحانیت منتقل کرتے ہیں۔

ارجنٹائن میں ایک یہودی ماہر نفسیات تھا جس نے کتاب لکھی تھی اور اپنی کتاب میں لکھا تھا: "بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں، تو انہیں خود ہی اپنی زندگی کی سمت کا تعین کرنا چاہئے"، تو حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ پہلے سے سیکھ چکے ہوں، تو وہ زندگی کے راستے سے واقف ہیں، ورنہ تو وہ یہ علم و دانش کہاں سے لائیں گے؟ ہماری احادیث میں بیان ہؤا ہے کہ "اگر والدین اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری نہ سنبھالیں، تو معاشرہ ان کے بچوں کو تربیت دے گا"؛ اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس سے پہلے والدین اپنے بچوں کے گھر سے نکلنے اور بیرونی تعلقات کے لئے فکرمند رہتے تھے، لیکن آج یہ مسئلہ غیر اہم ہو چکا ہے اور سائبر اسپیس اور انٹرنیٹ کے ذریعے " گھروں کے اندر دراندازی" ہو چکی ہے؛ اور کام پہلے کی نسبت بہت مشکل ہو چکا ہے۔

ابنا: آپ بھی ایک لڑکی تھیں، جو ایک غیر مسلم ملک میں پروان چڑھیں، آپ نے خود اپنے لئے جحاب کا مسئلہ کیونکر حل کیا؟

جواب: جیسا کہ آپ نے بھی اشارہ کیا، میں ایک لڑکی تھی جو ارجنٹائن میں نوجوان ہوئی، اور ابتداء میں ججاب کے مسئلے سے بے خبر تھی؛ اور مغرب کی وسیع تشہیری مہم کی وجہ سے، اس سلسلے میں ملنے والی تمام خبریں، منفی تھیں، اور کہا جاتا تھا کہ "ججاب ان خواتین کے لئے مختص ہے جو اسلامی ممالک میں زندگی بسر کر ری ہیں؛ جو نہ تو اسکول جاتی ہیں نہ ہی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی ہیں؛ بلکہ قدیم زمانوں کے ماحول میں جی رہی ہیں اور عصر حاضر سے بیگانہ ہیں"۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بھی ابتداء اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئی (:مسکراہٹ)۔ میں اپنے آپ سے کہتی تھی کہ یہ صحیح ہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن میں ماضی میں تو نہیں جی رہی ہوں! جدیدیت کے اس دور (Age of modernit) میں ججاب اور پوشش کی کیا ضرورت ہے! یہ سب تو صدر اول کے لئے تھا! خلاصہ یہ کہ مغربی تشہیری مہم لوگوں کے ذہنوں پر اپنے اثرات مرتب کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک دن میں نے اپنے آپ سے کہا کہ "تاریخی شواہد کے مطابق عیسائیت اور یہودیت میں بھی ـ اسلام سے قبل کے آسمانی مذاہب تھے، ـ حجاب کا مسئلہ اہم تھا؛ اسلام کی تو بات ہی اور ہے، جو ہمیں یقین ہے کہ ادیانِ الٰہیہ کا آخری نسخہ ہے اور قرآن کے احکام نہ صرف ہمارے زمانے کے لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں، بلکہ تمام زمانوں میں راہبر و راہنما ہیں۔ بہرحال جو طالب علم ایران کے حوزات علمیہ سے ارجنٹائن واپس آتے تھے، ان کی تبلیغی سرگرمیوں کی روشنی میں شہید آیت اللہ مطہری کی کتابوں جیسے مصادر و منابع میں تحقیق اور خطے میں موجود محجبہ خواتین سے ملاقاتوں کا امکان میسر آیا جس کی وجہ سے حجاب کا مسئلہ ہمارے ذہنوں میں مستحکم ہؤا۔

ابنا: عشرہ ولایت اور عید غدیر خم کی آمد آمد ہے، اس عظیم اسلامی عید اور مولا امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے اپنی محبت کے بارے میں کچھ بتایئے

جواب: عید غدیر اہم عیدوں میں سے ایک ہے، نہ صرف اہل تشیّع کے لئے، بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے، بہت اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عید غدیر کو اہمیت نہ دینا رسول اللہ الاعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے پیغام اور رسالت کی بے توقیری اور نظر انداز کرنے، کے مترادف ہے۔ قرآن کریم نے آنحضرت سے خطاب فرمایا: "يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ"؛ یعنی اے میرے پیغمبر! اگر آپ نے غدیر کا پیغام نہ پہنچایا تو گویا آپ نے اپنی رسالت کو مکمل نہیں کیا ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے، ارجنٹائن میں، میں مذہب شیعہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ پاس کسی قسم کی معلومات نہیں تھیں۔ 13 یا 14 سال کی عمر میں، میں نے اپنے گھر والوں اور دوسروں سے شیعہ اور سنی کے درمیان فرق کے بارے میں استفسار کیا تو وہ بھی کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے اور کہتے تھے کہ "یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور ہم اس میں مداخلت نہیں کرتے!"، وقت گذرا اور عید عدیر آئی تو میں وسیع پیمانے پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف محض ایک سیاسی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ اعتقادی اختلاف ہے۔ میں سمجھی کہ غدیر اللہ اور اس کے پیغمبر کا حکم ہے اور یہی مسئلہ باعث بنا کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی نسبت میری محبت و عقیدت میں اضافہ ہؤا اور میں غدیر خم کی عید اکبر کی تبلیغ کے لئے زیادہ اہمیت کی قائل ہوئی۔ میرے خیال میں عید غدیر، عید فطر اور عید الاضحی سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ اعتقادی جہتوں کی حامل ہے اور اگر ہم اس حقیقت کو نہ مانیں تو گویا کہ ہم نے اسلام ہی قبول نہیں کیا ہے۔

ابنا: آپ سب سے پہلے مسئلۂ غدیر اور عید غدیر کے جشن سے کیسے واقف ہوئیں؟

جواب: دلچسپ سوال ہے۔ جس وقت مسجد التوحید کی بنیاد رکھی گئی، تو ہماری واجب ضرورتمندیوں میں سے ایک ہسپانوی زبان میں دینی متون کی قلت تھی۔ چنانچہ ہم نے ان متون کی فراہمی کے لئے بہت کوشش کی۔ ہم نے جن کتابوں کا ترجمہ کیا ان میں سے ایک ولایت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے موضوع پر لکھی گئی تھی، اور ان کتاب کا ترجمہ اسی سال کی عید عدیر تک مکمل ہؤا۔ اس زمانے تک ہم دو بڑی عیدیں مناتے تھے: ایک عید فطر تھی اور دوسری عید الاضحی۔ اس کتاب کے ترجمے کے بدولت مسئلۂ غدیر کے بارے میں ہماری معلومات میں زبردست اضافہ ہؤا، اور یوں ہم خود بھی راغب ہوئے اور دوسروں کو بھی مسئلۂ غدیر کی طرف راغب کیا۔

ابنا: جس وقت آپ ارجنٹائن میں رہائش پذیر تھیں، کیا آپ نے مسلمانوں کے لئے جشن غدیر کا اہتمام کیا؟

جواب: الحمد للہ یہ توفیق ہمیں حاصل رہی اور عید عدیر سمیت تمام اسلامی مناسبتوں اور مواقع کی تعظیم و تکریم بہت اچھے اور دلچسپ پروگراموں کا اہتمام کرتے رہے۔ ارجنٹائن میں التوحید کی عظیم مسجد ہماری سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ سنہ 1983ع‍ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کی حمایت سے، شیعیان بیونس آئرس کے شیعیان اہل بیت(ع) کے لئے، اس مسجد کا افتتاح ہؤا۔ یہ مسجد بیونس آئرس کے محلے "فلوریسٹا" (Floresta) میں واقع ہے جو ارجنٹائن کی سب سے قدیم مسجد ہے جس کی عمارت بہت سادہ ہے، اور آج یہ مسجد مسلمانوں اور شیعیان اہل بیت(ع) کے لئے اہم مرکز سمجھی جاتی ہے۔

اس مسجد میں ہماری فعالیت جش کے انعقاد تک محدود نہیں تھی اور ہم متعدد پروگرام منعقد کرتے تھے۔ ہم اس مسجد میں بہت ساری مجالس و محافل منعقد کرتے تھے؛ مرد اور خواتین مقررین کو مدعو کرتے تھے، طلبہ کے لئے ترانہ سرائی، تھیئیر اور مصوری کے گروپ تشکیل دیتے تھے، اور ـ خاص طور پر ہفتے کے دن، جو چھٹی کا دن تھا ـ مختلف مقابلوں کا اہتمام کرتے تھے۔ عید غدیر اور میلاد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور میلاد امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے سلسلے میں بھی جب بھی محافل و مجالس کا اہتمام کرتے تھے، خواتین مسجد کو سجاتی تھیں اور مہمانوں کی پذیرائی کی تیاریاں کرتی تھیں۔ اور ہم ہر دین و مذہب کے لوگوں کو مدعو کرتے تھے؛ سنی مسلمان بھی ان محافل میں شرکت کرتے تھے یہاں تک کہ عیسائی بھی آتے تھے۔ یہ میرے لئے بہت دلچسپ امر تھا کہ سنی برادران ہمارے پروگراموں میں صرف سامعین کے طور پر شرکت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ بھی متعلقہ موضوعات پر تقاریر کرتے تھے اور خطبے دیتے تھے اور امیرالمؤمنین علی مرتضی (علیہ السلام) سے اپنی دلی محبت کا اظہار و اعلان کرتے تھے؛ وہ ہمیشہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی خصوصیات کی تعریف کرتے تھے اور اقرار کرتے تھے کہ "اہل بیت (علیہم السلام) سب ہمارے پیشوا ہیں اور نمونۂ عمل ہیں؛ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔

ابنا: آپ اب تک کتنی مرتبہ نجف اشرف میں امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کے حرم میں حاضر ہوئی ہیں؟ اس حوالے سے کوئی یادگار واقعہ؟

جواب: بحمد اللہ، چار مرتبہ گئی ہوں، اور دعا کرتی ہوں کہ خدائے متعال پھر بھی عراق کے عتبات عالیہ اور مشاہد مشرفہ کی زیارت کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک دفع جب ہم امیرالمؤمنین (علیہ السلام کے جرم میں تھے تو حرم کے فانوس حرکت میں آگئے؛ لیکن اسی اثناء میں میرے اور دوسرے زائرین کے وجود پر پورا سکون طاری تھا اور چونکہ ہم امام کی بارگاہ میں تھی، کسی قسم کی تشویش محسوس نہیں کر رہے تھے، اور یہ خود مولا امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا اعجاز تھا۔ جو چیز حضرت امیر (علیہ السلام) کے وجود کی مفناطیسیت کے بعد، میرے لئے دل نشیں ہے وہ اس روضۂ منورہ میں، دو اولو العزم نبیوں حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہما السلام) کی قبریں ہیں، جو حقیقتا اس روضے کی زیارت کو بہت زیادہ جاذب اور خوبصورت بنا دیتی ہیں۔

ابنا: حضرت امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کی کون سی خصوصیت آپ کے لئے زیادہ زیادہ پر کشش رہی ہے؟

جواب: میری رائے کے مطابق، امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی سب سے زیادہ پر کشش خصوصیات آنجناب کی پاکیزگی، شفافیت اور خلوص ہے، اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حق و باطل دونوں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ذات با برکات کے آس پاس جمع ہوئے؛ حق ان لوگوں سے عبارت ہے جو آپ بہترین اور مخلص ترین اصحاب اور انصار و اعوان تھے اور باطل ان لوگوں کا عنوان ہے جو آپ کے دشمن تھے اور دنیا کے شقی ترین افراد بھی ان ہی میں شامل ہیں۔

ابنا: آپ نے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے عشق و محبت کے بارے میں اظہار خیال کیا، آپ اپنی اس عقیدت کو کس چیز سے بدلیں گی؟

جواب: یہ عشق کسی چیز سے بھی بدلا نہیں جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کا نام اور مرام (و مکتب) ہماری روح و جان میں رچا بسا ہے؛ اگر ہم شیعہ نہ ہوتے تو معلوم نہیں اپنی زندگی کس طرح گذارتے! اور حق و باطل کی تمیز کس طرح کرتے! علی مرتضی اور آپ کی اولاد کی محبت کو کسی بھی چیز سے بدلا نہیں جا سکتا۔

ابنا: اگر آپ ایک غیر مسلم ارجنٹینی باشندے سے امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) کا تعارف کرانا چاہیں تو یہ کام کس طرح کریں گی؟

جواب: اصولی طور پر جب ہم تبلیغ اسلام کا آغاز کرتے ہیں تو کلامی اور اعتقادی مسائل کے کلیات بیان کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ارجنٹائن کی ایک یونیورسٹی میں تقریر کر رہی تھی اور اسلام کو متعارف کرانا چاہتی تھی؛ دین کے پنگانہ اصولوں (اصول دین) سے تقریر کا آغاز کیا اور "توحید" اور "نبوت" کی تشریح کے بعد "عدل" اور "امامت" کی باری آئی تو اسی لمحے ایک طالب علم نے اٹھ کر احتجاج کیا اور کہا کہ "آپ اصول دین کو اس طرح کیوں بیان کرتی ہیں؟ حالانکہ ہمارے اصول دین تین ہیں؛ اور "عدل" اور "امامت" اصول دین نہیں ہیں! میں سمجھ گئی کہ وہ اہل سنت کا پیروکار ہے، چنانچہ میں نے کہا: جی ہاں! اصول دین میں سے تین اصول شیعہ اور سنی مکاتب میں مشترک ہیں، اور دو اصول (یعنی عدل اور امامت) شیعیان اہل بیت(ع) سے تعلق رکھتے ہیں؛ لیکن بہر حال اس وقت اس تقریب کی خطابت کا ذمہ مجھے سونپا گیا ہے اور میں شیعہ ہوں اور فطری امر ہے کہ میں اپنے اعتقادی اصولوں کا تعارف کراؤں گی؛ جس وقت آپ مقرر ہون، اپ اپنے اصولوں کو متعارف کرائیں۔ اگرچہ یہ طالب علم ابتداء میں بہت ناراض ہؤا لیکن پروگرام کے خاتمے پر میرے پاس آیا اور ہم نے بات چیت کی جس کے بعد ہم ایمیل کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں تھے۔

مسجد التوحید کے دورے پر آنے والے زیادہ تر طالب علموں کے پہلے سوالات یہی تھے کہ "شیعہ اور سنی کے درمیان کیا فرق ہے؟" ہم اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: "ہم سب مسلمان ہیں، اللہ تعالی کی پرستش میں ایک جیسے ہیں، ہمارا قبلہ، ہمارے نبی، اور ہمارا قرآن، سب مشترک ہیں؛ تاہم ایک اعتقادی اصول میں ہمارے درمیان ایک اصول کی بنیاد پر، فرق ہے۔ جب آپ اس انداز سے بات کرتے ہیں تو شیعہ-سنی مسئلے کے حوالے سے غیر مسلموں کی نگاہ نرم ہو جاتی ہے۔

جہاں تک لوگوں سے امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کے تعارف کا تعلق ہے تو عرض کرنا چاہوں گی کہ ہمارے کلام کے محتویات اور نوعیت کا انحصار سننے یا پڑھنے والوں کی نوعیت پر منحصر ہے۔ مثلاً اگر ہمارا خطاب سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے ہو، تو امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی ان ہدایات اور نصائج کا تذکرہ کرتے ہیں جو آپ نے مالک اشتر(ع) کے نام خط میں بیان کئے ہیں اور یہ خط نہج البلاغہ میں موجود ہے۔ اگر ہمارے سننے والے عام گھرانے اور عام لوگ ہوں تو نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 31 کی روشنی میں انہیں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) سے روشناس کراتے ہیں؛ کیونکہ امام نے اس خط میں توحید، پرودگار متعال کی عظمت اور صفات، مقصد خلقت، معاد وغیرہ کو بیان کیا ہے اور انسان کی مادی اور روحانی حیات کی ضروریات کی یوں زمرہ بندی کی ہے: حق تک پہنچنے کے لئے سختیاں برداشت کرنا اور صعوبتیں جھیلنا، صبر و استقامت، ابدی نفسانی کمالات کے حصول کی کوشش کرنا، مال و دولت بخشنے اور صدقہ و خیرات دینے کی ضرورت، حرص و لالچ سے اجتناب کی ضرورت، اولاد کی تربیت میں عجلت سے کام لینا، اللہ پر توکل کرنا، تاریخ کا مطالعہ کرنا، سماجی تعلقات کی روشوں سے واقف ہونا وغیرہ۔ مختصر یہ کہ ہر فرد یا جماعت کی نوعیت اور فکری سطح کو دیکھ کر امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی شخصیت کی مختلف جہتوں کا تعارف کراتے ہیں کیونکہ میری رائے میں، ان عظیم انسانوں کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہئے۔

ابنا: آپ کے خیال میں، ہمارے آج کے معاشرے میں ولایت پذیری کی سب سے زیادہ اہم خصوصیت کیا ہے؟

جواب: میرے خیال میں آج کے معاشروں میں ولایت پذیری کی سب سے اہم خصوصیت امیرالمؤمنین (علیہ السلام) کی بتائی ہوئی راہ و روش جاری رکھنے سے عبارت ہے؛ ہم جب آنجناب کے بارے میں بات کرتے ہیں، گویا ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، یعنی ہماری فکر امام کی فکر و مکتب کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ اگر ہم آپ کے دور میں ہوتے ہماری آرزو ہوتی کہ آپ کے ساتھ رہیں اور آپ سے نمونۂ عمل حاصل کریں؛ امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کی غیبت کبریٰٰ کے زمانے میں بھی ہم لائق اور شائستہ اور عظیم انسانوں کو نمونۂ عمل قرار دے سکتے ہیں۔   

خدا کا شکر ہے جس نے ہمیں اسلامی جمہوریہ ایران کے دور میں قرار دیا اور امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ) جیسی شخصیات سے آشنا کر دیا؛ ایسے عظیم قائد جنہوں نے ملت ایران کو ظلم و ستم کے چنگل سے نجات دلائی اور احرار عالم کو عزت و عظمت عطا کی۔ آج بھی انقلاب کے رہبر عظیم نہ صرف ملت ایران کے لئے، بلکہ تمام مسلمالوں کے لئے، باعث فخر اور نمونۂ عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔

ابنا: آپ مغرب میں بھی رہی ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فضا میں بھی تنفّس کا تجربہ رکھتی ہیں، آپ ان مسلم مشرقی نوجوانوں کے لئے آپ کی تجویز کیا ہے جن کی سوچ مغربی طرز زندگی پر استوار ہے؟

جواب: نوجوانوں کو میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ زندگی میں معنویت اور روحانیت کو توجہ دیں۔ اگر ہم مسلمین روحانیت کی طرف توجہ نہ دیں تو ہمارے اور غیر مسلموں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوجوانی میں معنویت اور دینداری ایک خزانے کی طرح ہے اور ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ اس کی حفاظت کریں۔ نوجوانی کا دور زود گذر اور ناپائدار ہے؛ لیکن جو کچھ بڑی عمر کے لئے رہتا ہے وہ معنویت اور دینداری ہے سے گذر جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک مرد اور ایک خاتون ہماری مسجد میں آئے تھے اور ہم ان کے ساتھ بین المذاہب گفتگو کر رہے تھے۔ بات چیت کے دوران معلوم ہؤا کہ خاتون یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی ہے لیکن یہ میاں بیوی مارکسسٹ تھے اور کسی بھی دین و مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک عمر مشترکہ زندگی گذارنے کے بعد کہہ رہے تھے کہ "اب جو ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، تو اندر سے ایک بیہودگی، خلاء اور کھوکھلا پن محسوس کر رہے ہیں"۔ وہ بڑھاپے پیشیمان ہو چکے تھے، کہ کسی دین و مذہب پر یقین نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو ان کو معبود سے متصل کر سکے۔ نوجوانوں کو میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ اخلاق کو ملحوظ رکھیں۔ آج ارجنٹائن میں کم عمر اور نوجوان لڑکے لڑکیاں، نہیں جانتے کہ کوئی بھی چیز معنویت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ معاشرے میں خاندان کی پوزیشن اور اہمیت میں اضافہ کریں۔ میرے خیال میں خاندان کو ہمیشہ اپنے اعضاء و ارکان کے لئے ایک محور نیز ایک پشت پناہ اور مورچہ ہونا چاہئے۔  آج جبکہ مغربی ثقافت یلغار کر رہی ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے، اور یہ خاندان ہی ہے جو ہماری حقیقی اور خالص اسلامی ثقافت کی دیکھ بھال اور تحفظ کر سکتا ہے۔ ہمارے دشمنوں نے جب دیکھا کہ عسکری تقابل کے ذریعے اسلامی نظام کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے تو انہوں نے ثقافتی محاذ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی اور فکری تخریب کاری کا سہارا لے کر نوجوانوں کی مغز شوئی (Brainwashing) کریں۔ لہٰذا مسلم نوجوانوں کے لئے میری تین نصیحتیں "معنویت و روحانیت، اخلاق اور خاندان کے تحفظ" سے عبارت ہیں۔

ابنا: یقییناً آپ جانتی ہیں کہ حال ہی میں ہمارے ملک کے اندر حجاب سمیت بعض اعلیٰ اسلامی اقدار پر کتنی وسیع اور شدید یلغار انجام کو پہنچی، [ویسے بھی مغرب طویل عرصے سے اپنے ہاں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی حجاب کے خلاف تشدد آمیز جنگ لڑ رہا ہے] آپ ایک مسلم ارجنٹینی خاتون کی حیثیت سے حجاب کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟

جواب: دیکھئے، حجاب ایک علامت ہے لوگوں کے لئے، دین داری کی علامت، اور البتہ اس زمانے میں یہ شجاعت اور بہادری کی علامت بھی ہے۔ دنیا کے لوگ سارے کے سارے معنویت کے خواہاں ہیں، حتّیٰ وہ عورتیں بھی جو بے حجاب ہیں، ایک کھوئی ہوئی چیز کے درپے ہیں جس کا نام ہے: معنویت (روحانیت اور خدا پرستی)۔ میرا خیال ہے کہ اگر ایک خاتون معنویت کے درپے ہو تو حجاب اسے اس مقصد تک پہنچا دیتا ہے۔

جیسا کہ میں نے مذکورہ سوالات میں سے ایک کا جواب دیتے ہوئے کہا، یہ میرے لئے بھی سوال تھا کہ اس زمانے میں ـ کہ ہر چیز ترقی یافتہ اور جدید ہو چکی ہے ـ حجاب اور پوشش کی کیا ضرورت ہے؛ لیکن جب میں نے سنا کہ یہ قرآن کا حکم ہے تو میں نے فوری طور پر اپنے آپ سے کہا کہ "اگر قرآن نے حکم دیا ہے تو یقیناً یہ انسان کے فائدے میں ہے؛ یہ ممکن نہیں ہے کہ میں مسلمانی کا دعویٰ تو کروں لیکن اسلام کے احکام پر عمل نہ کروں"، بعدازاں میں نے تحقیق کا آغاز کیا کہ بنیادی طور وہ کونسی چیزیں ہیں جن کا اسلام اور قرآن میں تذکرہ آیا ہے، اور وہ کونسے مسائل ہیں جو دین اسلامم میں تحریف کی غرض سے داخل کئے گئے ہیں؟ اور اس نتیجے پر پہنچی کہ جو کچھ بھی قرآن میں ہے وہ انسان کے مفاد میں ہے اور ہمیں اس پر عمل کرنا چاہئے۔

قرآن کا ارشاد ہے: "يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ وَجاهِدوا في سَبيلِهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ؛

اے ایمان لانے والو!اللہ کے غضب سے بچو اور اس کے یہاں کے لئے وسیلہ [ذریعہ] ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تم دین و دنیا کی بہتری حاصل کرلو۔

یعنی تم اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے وسیلہ منتخب کرو، تو وہ کونسا وسیلہ ہوگا جو قرآن، نماز اور اہل بیت (علیہم السلام) سے بہتر ہو؟

حجاب کے سلسلے میں بھی ہماری مثالی شخصیات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ سیدہ فاطمہ زہراء، سیدہ زینب کبریٰٰ اور سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہن)، خواتین کی پاکدامنی کے لئے عملی نمونے ہیں۔

البتہ یہ مسئلہ اسلام تک محدود نہیں ہے، مسیحی دنیا میں سیدہ مریم بنت عمران (سلام اللہ علیہا) ہیں، اور یہودی خواتین بھی ابتداء سے آج تک با پردہ تھیں۔

ابنا: میں نے اس مکالمے میں آپ سے ایک جملہ سنا کہ "اسلامی انقلاب کے بعد آپ اسلام سے زیادہ واقف ہوئیں"، میں چاہتا ہوں کہ آپ کی آخری بات اسی سلسلے میں ہو۔

جواب: میں اسلامی جمہوریہ ایران کا شکریہ ادا کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کہنا چاہتی۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی انقلاب کی برکتیں صرف ایرانی قوم کے لئے نہیں تھیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان عزت و عظمت کے شیریں ذائقے سے لطف اندوز ہوئے اور اسلامی انقلاب کے عطر دل انگیز کی مہک کو اپنے روشن مستقبل کی نوید قرار دیا۔ ہمارا ملک ارجنٹائن کو لے لیجئے جو لاطینی امریکہ کا آخری ملک ہے، اور اسلامی انقلاب کے بعد اس ملک میں بھی تبلیغ کے لئے مناسب ماحول فراہم ہؤا، جو بہت مؤثر تھا؛ یہاں تک صہیونی-یہودی اس صورت حال کو برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے ہمیں بھی اور دوسرے مبلغین کو بھی بہت اذیتیں دیں۔ آج بھی جب کوئی ایرانی یا عرب مسلمان ہمارے ملک کا دورہ کرنا چاہتا ہے، تو اسے ویزا حاصل کرتے ہوئے اذیت ناک مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ آج کم نہیں ہیں وہ افراد جو ہماری طرح اپنے وطن سے دور پڑ گئے ہیں، تاکہ ایران آکر علم و دانش اور معنویت و اخلاق کے ہتھیار سے لیس ہو جائیں اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق ـ جو ارشاد فرماتا ہے: "فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ؛ یعنی وہ علم اور دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعد اپنی سرزمین میں پلٹ جائیں، اور ان گمشدگان کے لئے مشعل راہ بن جائیں جو انسانیت کی حقیقت اور بنی نوع بشر کے کمال کے متلاشی ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران جیسی نعمت کو دنیا کے کسی گوشے میں بھی نہیں ڈھونڈا جا سکتا، وہی نعمت جو ہزاروں شہیدوں کے خون کی مرہون منت ہے، اور یہ ہمارا فریضہ ہے کہ شہداء کی اس میراث کو امام عصر (ارواحنا فداہ) کے ظہور پر نور تک محفوظ رکھیں۔

ابنا: میں آپ کے صبر و ہمت کا شکریہ ادا کرتی ہوں، اللہ آپ اور آپ کے اہل خانہ کو سلامتی اور آپ کی فعالیتوں کو برکت عطا فرمائے۔

محترمہ رکسانا الزبتھ اسعد (معصومہ اسعد): میں بھی آپ کو جہاد تشریح و تبیین اور اہل بیت (علیہم السلام) کے معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت کی راہ میں توفیق مزید عطا فرمائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو از: محترمہ اعظم ربانی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110