اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
پیر

26 جون 2023

3:15:57 PM
1375590

اسرائیل خودکشی کر رہا ہے ۔۔۔ امریکی صہیونی لابیوں کا انتباہ

امریکہ کے بعض صہیونی حلقوں نے ـ مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کو درپیش اندرونی بحران کے پیش نظر ـ جعلی صہیونی ریاست کی اندر ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ تل ابیب گولی اپنی کنپٹی پر گولی مار رہا ہے، اور امریکہ میں اپنی ساکھ کھو گیا ہے۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ امریکہ کے بعض صہیونی حلقوں نے ـ مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کو درپیش اندرونی بحران کے پیش نظر ـ جعلی صہیونی ریاست کی اندر ٹوٹ پھوٹ کے حوالے سے خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ تل ابیب گولی اپنی کنپٹی پر گولی مار رہا ہے، اور امریکہ میں اپنی ساکھ کھو گیا ہے۔

لاکھوں نے صہیونیوں نے حالیہ چھ مہینوں سے قوانین کی تبدیلی پر مبنی نیتن یاہو کے اقدامات کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں، اس عرصے میں صہیونیوں کے ہوائی اڈے اور سرکاری اسکول کئی مرتبہ بند ہوگئے ہیں، جبکہ مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور بحران حل نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ صہیونی ریاست اندرونی بحران اور سیاسی دراڑوں کو مزید برداشت نہیں کر سکتی۔

اس وقت صہیونی ریاست بحرانوں کے بھنور میں ڈوبی ہوئی ریاست ہے جو ہر طرف سے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ نیتن یاہو اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان اختلافات ایک معاشی بے یقینی پر منتج ہوئے ہیں، اور درجنوں کمپنیاں نامعلوم مستقبل کے خوف سے مقبوضہ فلسطین چھوڑ کر دوسرے ممالک میں منتقل ہو چکی ہیں۔ امکان ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں صہیونیوں کو درپیش بحران کا اگلا مرحلہ وسیع پیمانے پر ان کارکنوں کی بے روزگاری کی صورت میں نمایاں ہوگا جو غیر ملکی کمپنیوں کے انخلاء کی وجہ سے اپنا روزگار کھو چکے ہیں۔

نیتن یاہو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ ان چند مہینوں میں اپنے متنازعہ پروگرام کو روک سکتا تھا لیکن اس نے نہ صرف ایسا نہیں کیا بلکہ مطالبات کو نظرانداز کرکے مظاہرین کو نقطۂ اشتعال تک پہنچایا۔

اس وقت تل ابیب میں بحران اس قدر شدید ہوچکا ہے اور صورت حال اس قدر خطرناک ہو چکی ہے کہ گذشتہ سینچر (17 جون 2023ع‍) کو امریکہ میں سرگرم صہیونی-یہودی لابیوں نے اعلان کیا کہ تل ابیب ـ نیتن یاہو کے رویوں کی وجہ سے ـ امریکہ میں اپنی پوزیشن کھو چکا ہے اور آسرائیل اس وقت اپنے کنپٹی پر گولی فائر کرکے خودکشی کر رہا ہے"۔ خود کو گولی مارنے سے مراد یہ ہے کہ تل ابیب کے غاصب حکمران، امریکہ میں، اپنی پوزیشن کھو رہے ہیں۔

صہیونی اخباری ویب گاہ "واللا" (Walla) نے بھی اسی حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ میں مقیم ـ سرگرم صہیونی اور یہودی لابیوں نے صہیونی وزیر اقتصاد "نیر برکات" (Nir Barkat) کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا ہے اور تل ابیب کے مستقبل کے بارے میں خبردار کیا۔ البتہ یہ "اسرائیل" نامی جعلی ریاست کے نامعلوم مستقبل کے سلسلے میں صہیونی حلقوں کا پہلا انتباہ نہیں تھا جو سامنے آیا؛ گوکہ نیتن یاہو اور اس کے شدت پسند ساتھیوں کے گراں گوشی (Hard of hearing) میں مبتلا ہیں، [یا شاید وہ اصلاح کو ناممکن سمجھتے ہیں!]۔

صہیونیوں کے جڑواں بحران

مقبوضہ فلسطین کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی معاشرہ بیک وقت دو سنجیدہ بحرانوں سے دوچار ہے۔ کچھ بحرانوں کا تعلق بنیامین نیتن یاہو کے خلاف اندرونی احتجاجات سے ہے اور بحران کا ایک بڑا حصہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں جاری ہے؛ اور یہ بحران تل ابیب میں جاری بحران سے بہت وسیع تر اور شدید تر ہے۔

تل ابیب میں نیتن یاہو کے مخالفین - جو یہودی اور صہیونی اور غاصب نظام کا حصہ ہیں اور اس نظام کا تحفظ چاہتے ہوئے - نیتن یاہو کی برطرفی کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ مغربی کنارہ اصولی طور پر اس نظام کے خلاف لڑ رہا ہے اور صہیونی ریاست کے پورے نظام کا مکمل خاتمہ اور شکست و ريخت چاہتا ہے؛ چنانچہ فلسطینی قوتیں، مغربی کنارے اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں، غاصبوں کے خلاف جو بھی کر سکیں، کر گذرتے ہیں۔

صہیونی خفیہ ایجنسی شین بت (Shabak or Shin Bet = ISA) کے سابق سربراہ یووال ڈسکن (Yuval Diskin) نے تین ماہ قبل تل ابیب میں ایک احتجاجی مظاہرے میں [شرکت کرکے] کہا تھا کہ "اسرائیل اندرونی سقوط و زوال اور شدید سماجی شگافوں میں مبتلا ہے، بحران ہماری توقعات کے برعکس، بہت جلد ہمارے اوپر نازل ہؤا ہے۔ شاید ہم اس وقت خانہ جنگی کے دہانے پر ہیں، جس کا سبب نا اہل سیاستدان ہیں"۔ حقیقت یہ ہے کہ متذکرہ بالا بحران اور مسائل و مشکلات ان تین مہینوں میں حل نہیں ہوئیں بلکہ صورت حال بدتر ہو چکی ہے۔

صہیونی ریاست کے اندر فلسطینی مجاہدین کی کاروائیوں میں بھی شدت آئی ہے، دھماکے ہو رہے ہیں لیکن ان کے نتائج کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔ منگل 20 جون کو فلسطینی مجاہدین نے ایک یہودی نوآباد بستی میں صہیونیوں پر فائرنگ کے کم از کم پانچ غاصب صہیونیوں کو ہلاک کر ڈآلا ہے اور اب تک اس قسم کی کاروائیوں کا حساب کتاب رکھنے کے لئے صہیونیوں کو ایک مستقل ادارہ بھی قائم کرنا پڑے! ان کاروائیوں میں صہیونی غاصبوں کے علاوہ، صنعتی اور عسکری مراکز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اندرونی بحران کے حل کے لئے جنگجوئی کا سہارا

صہیونی اپنی منحوس تاریخ میں جب بھی اندرونی بحران سے دوچار ہوئے ہیں تو انہوں نے خطے میں جنگ کی آگ بھڑکائی ہے اور اسے فلسطین یا خطے میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں، جو بحران کے حل میں ممد و معاون رہی ہيں، لیکن زمانہ وہ نہیں رہا، اور اب جنگ سے انہیں نقصان ہوتا ہے۔

موجودہ اندرونی بحران سے چھٹکارا پانے کے لئے بھی نیتن یاہو نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنے گھسے پٹے نسخے پر عمل کرنے کے نعرے لگانا شروع کر دیئے، ہیں لیکن خطے کے لوگ ـ حتیٰ کہ خود صہیونی ـ اس کی بڑھکوں پر توجہ دینے کو وقت کا ضياع سمجھتے ہیں۔

تل ابیب میں صہیونی سیاسی تجزیہ کار رونیل آلفر (Ronel Alfer) اور صہیونی اخبار ہاآرتص (Haaretz) ے عسکری تجزیہ کار امیر اورین (Amir Oren) کا خیال ہے کہ ایران کے خلاف نیتن یاہو کی تکراری شیخیاں اور تند لب و لہجے پر مبنی موقف، صرف اندرونی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے ہے۔ ان کے خیال میں، نیتن یاہو کا موقف گھسا پٹا موقف ہے، گوکہ اس موقف سے شاید فضائیہ کے ہوابازوں کی نافرمانی کا خطرہ ٹل جائے جنہوں نے نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صہیونی فوج کے ریزرو فوجیوں کے ساتھ، استعفا دینے اور اپنی ڈیوٹی ترک کرنے کی دھمکی دی تھی؛ لیکن جب نیتن یاہو جنگی نعرے لگاتا ہے تو فوجیوں کو بھی اس کی اطاعت کرنا پڑتی ہے۔

ادھر مڈل ایسٹ آئی نے رپورٹ دی ہے کہ صہیونی معاشرے کے باشندے اس وقت معاشی مسائل، اخراجات میں اضافے اور ممکنہ اقتصادی تباہی سے تشویش میں مبتلا ہیں اور ان کے پاس ایران کے بارے میں سوچنے کی فرصت تک نہیں ہے؛ معاشی دباؤ میں اضافہ ہؤا ہے؛ کیونکہ جنگ کا سایہ معیشت پر براہ راست اثرانداز ہؤا ہے اور صہیونی شیکل (Shekel) کی قدر بیرونی زر مبادلہ کے مقابلے میں گھٹ چکی ہے، جس کی وجہ سے اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور مالی افراط زر میں اضافہ ہؤا ہے۔

مڈل ایسٹ آئی کے تجزیہ کار نے ایک نئی جنگ کی صورت میں صہیونیوں کی فوجی صلاحیت کے بارے میں کہا ہے کہ اگرچہ ماضی میں کچھ جنگیں صہیونی ریاست کی اقتصادی طاقت میں اضآفے کا باعث ہوئیں لیکن اس وقت حالات بالکل مختلف ہیں اور نئی جنگ صہیونی معیشت کے لئے المناک نتائج کا باعث بنے گی؛ اس وقت تل ابیب اور دوسرے صہیونی شہروں کے باشندوں کی پوری توجہ افراط زر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی پر مرکوز ہے؛ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تل ابیب کا اندرونی سیاسی بحران، عدالتی قوانین کی تبدیلی اور علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیاں، بالخصوص خطے میں چین اور روس کے ساتھ ایران کا اتحاد، اور سعودی عرب کے ساتھ ایران کے تعلقات کی بحالی صہیونیوں کی دفاعی بالادستی اور تسدیدی صلاحیت کے خاتمے پر منتج ہؤا ہے۔

فلسطینی بچوں کو اسیر بنانے کو قانونی حیثیت دینے کی صہیونی کوششیں

صہیونی کنیسٹ (پارلیمان)، صہیونیوں کے انسانی حقوق پر مبنی کھوکھلے نعروں کے باوجود، فلسطینی بچوں کو اسیر بنانے کے انسانیت سوز عمل کو قانونی حیثیت دینے کے لئے کوشاں ہے۔ کہا گیا ہے کہ کنیسٹ کی قانون سازی کی وزارتی کمیٹی نے

صہیونی سیاسی جماعت اوتزما یہودیت (Otzma Yehudit = یہودیت کی طاقت) کے رکن پارلیمان یتسحاق کرویزر (Yitzhak Kreuzer) کے مجوزہ مسودہ قانون کی رو سے 12 سالہ فلسطینی بچوں کی انتظامی حراست (Administrative detention) کے قانون کا جائزہ لے رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ فرحت حسین مہدوی