اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
پیر

12 جون 2023

6:54:45 AM
1372415

ایران کا اسلامی انقلاب فلسطینیوں کی جدوجہد میں تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے

میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم ایک مرحلے سے گذر رہے ہیں، جو ملت فلسطین، فلسطینی کاز اور فلسطینی مقاومت کے لئے بہترین مراحل میں سے ایک ہے اور ہم تاریخی لحاظ سے بھی ـ بحیثیت مجموعی ـ گذشتہ ڈیڑھ صدی کی نسبت، بہترین پوزیشن پر ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ گزشتہ سے پیوستہ

سوال: آپ کی رائے میں فلسطینی مقاومت کیونکر تشکیل پائی اور آج کس پزیشن پر پہنچی ہے؟

جواب: میرے لئے یہ بہت اہم ہے کہ اس مرحلے پر توقّف کروں، یعنی 1967ع‍ کی جنگ کا مرحلہ، وہی جس نے ملت عرب کو نشانہ بنایا، اور غاصب صہیونی دشمن غزہ کی پٹی، جولان کی پہاڑیوں (Golan Heights) اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضے کی طرف راغب ہؤا اور اس نے عملی طور پر پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ نیز یہاں امت مسلمہ کی تاریخ میں بھی ایک اہم اور فیصلہ کن مرحلہ پایا جاتا ہے، اور میرے لئے اہم تھا کہ ـ طاقت کے توازن اور مستقبل پر اس کے اثرات کے زاویئے سے اس کا جائزہ لوں اور خاص طور پر نئی فلسطینی مقاومت پر اس کے اثرات پر غور کروں جس کا آغاز سنہ 1965ع‍ میں بہت کمزور تھی اور اس کا آغاز شک و تذبذب سے ہؤا تھا، لیکن سنہ 1967ع‍ میں عربوں کو شکست ہوئی تو شکست کی تلافی اور عرب ممالک کے ہتھیار ڈالنے کے لئے امریکی اور صہیونی دباؤ کو ناکام بنانے کے لئے، یہ [مقاومت] ضرورت بن گئی۔

اس زاویئے سے کتاب “ذکریات” عربوں کی شکست کے واقعے کی سیاسی اہمیت پر بحث کرتی ہے ـ جسے “نکسہ” (ٹوٹ جانا اور ہزیمت سے دوچار ہونا) کہتے ہیں ـ نیز عربی حریت پسند تحریک پر بھی اور تنظیم آزادی فلسطین (PLO) پر بھی، اس کے اثرات کو زیر بحث لاتی ہے

اس نقطہ نظر سے، کتاب “یادداشتیں” اس واقعہ کی سیاسی اہمیت سے متعلق ہے، جسے نقشہ کہا جاتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اثرات، عرب آزادی کی تحریک اور فلسطینی مزاحمت کے آغاز پر، جو ایک تفصیلی بحث ہے جو 1970ع‍ کی دہائی کے تجربے سے [اور اردنی فوج کے ہاتھون فلسطینی مہاجرین کے قتل عام]، اور ستمبر 1970ع‍ کے اس تلخ تجربے کے بعد اردن سے فلسطینیوں کے انخلاء اور لبنان میں فلسطینی مقاومت کی تعیناتی، پر مرکوز ہے۔

یہ مرحلہ در حقیقت ایک عظیم واقعے سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ سنہ 1979ع‍ میں خطے کی تاریخ میں اور فیصلہ کن واقعہ رونما ہؤا اور وہ ایران میں پر برکت اسلامی انقلاب کی برپائی کا واقعہ ہے، جو عین اس وقت بپا ہؤا جب عربوں کی حالت افسوسناک تھی، اور انہیں بڑی شکست ہوئی تھی۔ انقلاب کے کامیابی کے ایام میں ہی مصر صہیونی ریاست کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے گیا، اور یہ ملک باضآبطہ طور پر تنازعے سے الگ ہؤا، یہ ایک بہت بڑا منفی واقعہ تھا، جس سے ظاہر ہواتا تھا کہ عربوں کے حالات زوال کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور حتیٰ کہ مزاحمت کی صلاحیت بھی کھو چکے ہیں، کیونکہ صہیونیوں کے ساتھ تنازعے میں مصر کا وزن بہت بڑا تھا، [جسے امریکہ اور صہیونیوں نے مقاومت کے پلڑے سے اتار لیا تھا]۔

میں نے اپنی کتاب میں واضح کیا کہ مصر کا صہیونیوں سے معاہدہ اور میدان مقاومت سے علیحدگی کے عظیم نقصان کی تلافی ایران کے اسلامی انقلاب سے ہوئی اور لکھ دیا کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران نے مقاومت سے مصر کی علیحدگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کر دیا ہے اور آج ایران ہی اس بڑے وزن کے طور پر ابھرا ہؤا ہے۔

یہ مسئلہ ابتدائی مراحل میں زیادہ نمایاں نہیں تھا کیونکہ ایران کو جنگ، معاشی پابندیوں اور بیرونی دباؤ کی مختلف اشکال کا سامنا تھا، لیکن آج جب ہم خطے کی صورت حال پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ “اگر ایران اتنا طاقتور نہ ہوتا اور میدان جنگ میں موجود نہ ہوتا، تو کیا حالات اس ڈگر پر ہوتے وہ بھی ایسے حال میں کہ عرب حکومتیں زوال اور شکست و ریخت سے دوچار ہو چکے تھے؟”

چنانچہ سنہ 1979ع‍ ایک اہم سال تھا اور کتاب “ذکریات” میں مصر کی مقاومت سے علیحدگی اور ایران کے خیر و برکت سے مالامال اسلامی انقلاب کی کامیابی کے دو اہم واقعات تھے، پہلے واقعے سے جو عربوں کی قوت زائل ہوگئی تھی اور دوسرے واقعے نے کمی اور قوت کے ضياع کا عملی طور پر آزالہ کیا اور خطے کو ایک نئے مرحلے میں پہنچایا جو گذشتہ مراحل سے بالکل مختلف تھا اور آج ہم اس کے پھل سے مستفید ہو رہے ہیں۔

البتہ اس مرحلے کے بعد دوسرے مراحل بھی ہیں جن میں ایک سنہ 1982ع‍ کا مرحلہ ہے، جب صہیونیوں نے لبنان پر حملہ کیا اور فلسطینی مقاومت کو اسی جنگ کی وجہ سے لبنان سے نکلنا پڑا، اور بعدازاں 1980ع‍ اور 1990ع‍ کی دہائیوں میں مختلف تبدیلیاں آئیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سنہ 1983ع‍ کے بعد لبنان اور فلسطین میں مزآحمت کی تحریکیں یکے بعد دیگرے نمودار ہوئیں۔

کتاب “ذکریات” تاریخ مقاومت کے اس غیر معمولی اہمیت کے حاملے مرحلے کو بخوبی نمایاں کرتی ہے؛ کیونکہ ہم نے 80ع‍ کی دہائی ـ بالخصوص 1082ع‍ کے بعد ـ دیکھ لیا کہ مقاومت کا جو سلسلہ 1965ع‍ سے شروع ہؤا تھا اور 1967ع‍ کے بعد کے حالات کے انتظام و انصرام پر مرکوز رہی تھی، نیز فلسطین کا فتح گروپ، جس نے تنظیم آزادی فلسطین کو بھی اپنے کنٹرول میں لیا، ـ یہ رجحان ٹھنڈا پڑ گیا اور بحران سے دوچار ہؤا، جیسا کہ سنہ 1988ع‍ میں، الجزائر میں منعقدہ کہ نیشنل کونسل کانفرنس میں اس کی طرف اشارہ ہؤا، نیز “فلسطینی ملک” کے اعلان اور کچھ لوگوں کی طرف سے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 242 کو ضمنی طور پر تسلیم کرنے، بالخصوص اوسلو معاہدے کی منظوری جیسے مسائل کی وجہ سے مسلحانہ مقاومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی جو ابتدائی طور پر 1967ع‍ کے بعد اور پھر 1970ع‍ کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں اس کے باوجود، ایک عظیم واقعہ پیش آیا، اور وہ یہ کہ 80ع‍ اور 90ع‍ کی دہائیوں میں جنوبی لبنان میں مقاومت پوری طاقت سے حزب اللہ کے ذریعے شروع ہوئی، اور ان ہی دو دہائیوں میں اسلامی جہاد اور حماس کی اسلامی مقاومت تحریکیں بھی میدان میں آئیں۔

بے شک انقلاب اسلامی لبنان اور فلسطین میں مقاومت و مزاحمت کے آغاز اور کارکردگی پر اثر انداز ہؤا، ایسی مقاومت جس کی خصلت و خصوصیت اسلامی ہے اور آج کی جنگوں میں اس کا کردار اور اس کی اہمیت بالکل نمایاں ہے۔

دوسرے لفظوں میں، کتاب “ذکریات” میری داستان زندگی اور میری زندگی کے واقعات پر مشتمل ہونے کے بجائے، ان بنیادی مسائل پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اس میدان کے اہم سیاسی رجحانات اور دھاروں پر بحث کرتی ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ ان لوگوں کے لئے اہم ہوگی جو 20ویں صدی کے دوسرے نصف سے لے کر آج تک کی نئی تاریخ کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اور اس کتاب کا ایک نکتہ، جو مجھے کہنا چاہئے، وہی چیز ہے جس کا نام میں “مِن جَمرٍ اِلى جَمرٍ” (انگارے سے انگارے تک) رکھا ہے۔ یہ عبارت ان لوگوں کا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ کتاب “ذکریات” میری زندگی کے نشیب و فراز کا مجموعہ ہے، اسی وجہ سے میں نے یہ کہنے کی کوشش کی کہ یہ سارے مسائل حقیقتاً میری زندگی میں گذرے ہیں، یعنی جس وقت ہم کمیونزم سے سفر کرکے ناصری-قوم پرستانہ-عربی دھارے کی طرف منتقل ہوئے، اور اس کے بعد اسلامی مرحلے میں داخل ہوئے۔

میں البتہ یہ بھی واضح کرنا چاہتا تھا کہ میری زندگی کی یہ تبدیلیاں جنگ سے فرار، یا دشواریوں سے آسانیوں کی طرف آنے کے لئے انجام نہیں پائی ہیں بلکہ میں تو “انگارے سے انگارے” کی طرف سفر کرتا تھا، کیونکہ پہلے مرحلے کا انگارا یہودی غاصبوں کے قیدخانوں سے عبارت تھا، اور دوسرے مرحلے کا انگارا مقاومت اور شہادت تھی اور آخری مرحلے کا انگارا یعنی اسلام، پہلے دو انگاروں سے کم نہیں ہے۔

میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم ایک مرحلے سے گذر رہے ہیں، جو ملت فلسطین، فلسطینی کاز اور فلسطینی مقاومت کے لئے بہترین مراحل میں سے ایک ہے اور ہم تاریخی لحاظ سے بھی ـ بحیثیت مجموعی ـ گذشتہ ڈیڑھ صدی کی نسبت، بہترین پوزیشن پر ہیں۔

گوکہ کچھ قنوطی (pessimist = بدگمان اور مایوس) لوگ بھی ہیں جو سوچتے ہیں کہ انہیں دشوار اور خطرناک حالات کا سامنا ہے؛ وہ اس صورتحال، ـ خاص طور پر اوسلو منتقلی کے مسئلے اور فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ کردار کو ـ سلبی انداز میں لیتے ہیں۔

میری رائے یہ ہے کہ فلسطینی مقاومت بہترین اور پسندیدہ ترین حالت میں ہے، اور میری اس بات کے ادراک کے لئے فلسطینی مقاومت کی موجودہ عظیم پوزیشن ہے جس کو ایک طاقتور فوجی اڈے کی حمایت حاصل ہے جسے اس نے غزہ میں قائم کیا ہے، اور آج مقاومت اس اڈے میں کھڑی ہے؛ وہ مقاومت جس نے چھ روزہ [حالیہ] جنگ میں اپنی اہمیت ثابت کرکے دکھائی ہے اور یہ صلاحیت غزہ میں مقاومت کی اپنی پوزیشن کے تحفظ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ پورے فلسطین، مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کا دفاع کرنے س حاصل ہوئی ہے۔

نیز، اگر ہم جنین اور نابلس میں مقاومت پر نظر ڈالیں، بالخصوص مغربی کنارے میں “عرین الأُسود” (شیروں کی کچھار) اور جنین کیمپ کی یونٹ پر نگاہ ڈالیں تو دیکھ لیں گے کہ ہم اس مرحلے پر پہنچے ہیں جو فلسطینی مقاومت کی تاریخ میں اعلیٰ ترین مرحلہ ہے۔ یہ مقاومت ـ جسے ہم نے حالیہ جنگوں میں دیکھا ہے “سیف القدس” (قدس کی تلوار) نامی کاروائی سے لے کر ” ثأر الأحرار” (احرار کا انتقام کی حالیہ کاروائی، اور پانچ روزہ جنگ) تک، سے معلوم ہؤا کہ ہم اس وقت حملے اور پیش قدمی کے مرحلے میں ہیں، آج فلسطینیم مقاومت عظیم محور مقاومت (Axis of Resistance) کا حصہ ہے جس میں خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان، غزہ کی پٹی، فلسطین، شام اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ جبکہ صہیونی-یہودی ریاست طاقت کے توازن کے لحاظ سے اپنی پرانی پوزیشن پر قائم نہیں رہ سکی ہے۔

جاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242