اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
جمعرات

8 جون 2023

3:53:16 PM
1371801

اسلامی انقلاب نے لبنان اور فلسطین میں مقاومت پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔۔۔ فلسطینی مفکر

فلسطینی مفکر منیر شفیق نے اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران لبنان اور فلسطین میں مقاومت (مزاحمت) پر گہرے اثرات مرتب کئے، مسئلہ فلسطین کو زندہ کردیا، ایران ـ سعودی سمجھوتے نے صہیونیت کو خوفزدہ کیا اور خطے کے ممالک مستقبل کے حوالے سے پر امید ہو گئے، شام کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی فلسطینی کاز کے لئے مثبت اثرات کا موجب ہوگی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ فلسطینی مفکر منیر شفیق نے اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا: اسلامی جمہوریہ ایران لبنان اور فلسطین میں مقاومت (مزاحمت) پر گہرے اثرات مرتب کئے، مسئلہ فلسطین کو زندہ کردیا، ایران ـ سعودی سمجھوتے نے صہیونیت کو خوفزدہ کیا اور خطے کے ممالک مستقبل کے حوالے سے پر امید ہو گئے، شام کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی فلسطینی کاز کے لئے مثبت اثرات کا موجب ہوگی۔
فلسطینی مفکر منیر شفیق نے العالم کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: صہیونی غاصب کمزوری کی ڈھلان پر آ کھڑے ہوئے ہیں، وہ طاقت کے توازن اور عسکری صلاحیتوں کے حوالے سے اپنی تاریخ کی بد ترین صورت حال سے دوچار ہیں جس کے بدولت مقاومت (یعنی مزاحمت = Resistance) کو بہتر مواقع میسر آ رہے ہیں، کہ وہ زیادہ مؤثر انداز سے کام کریں اور عملی میدان میں زیادہ طاقت کا مظآہرہ کریں۔
منیر شفیق نے اپنے انٹرویو میں اپنی کتاب کی کچھ تفصیلات، عربوں کی زندگی کے اہم مراحل، فلسطینی مقاومت کے ظہور اور ایران کے اسلامی انقلاب پر اس کے اثرات پر روشنی ڈآلتے ہوئے کہا کہ اس انقلاب نے مقاومت کو وسعت اور قوت عطا کی، تعلقات کے سازشی معاہدوں کو بے اثر کر دیا، اور صہیونی دشمن کو مسلسل ناکامیوں سے دوچار کیا۔
انٹرویو کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
- کتاب بعنوان "ذِکرَیات" (یادیں) عربوں کی زندگی اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں مختلف نقطہ نظر کی حامل ہے۔ یہ کتاب طاقت کے توازن اور اسباب و عوامل پر کا جائزہ لیتی ہے جن کی بنا پر برطانیہ اور صہیونیوں نے فلسطین کے 80 فیصد حصے پر قبضہ کرکے سنہ 1948ع‍ میں صہیونی ریاست قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
- اسلامی انقلاب نے محور مقاومت سے مصر کی پسپائی سے حاصل ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا۔
- 1980ع‍ اور 1990ع‍ کے عشروں میں حزب اللہ لبنان اور فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک ظہور پذیر ہوئیں اور خطے میں طاقت کا توازن مقاومت کے حق میں، بگڑ گیا۔
- اسلامی انقلاب نے لبنان اور فلسطین کی مقاومت پر گہرے اثرات مرتب کئے۔
- فلسطینی مقاومت بہترین حالت میں ہے۔
- فلسطینی مقاومت کی بہترین پوزیش اور غزہ میں اس کے طاقتور فوجی مرکز نے چھ جنگوں میں اپنی قدر و قیمت نمایاں کرکے دکھا دی۔
- تحریک مزاحمت جاری رکھنے کی صلاحیت کا دارومدار غزہ میں اس کی اپنی پوزیشن کے تحفظ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس پورے فلسطین، مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کا دفاع کرنے س حاصل ہوئی ہے۔
- دشمن کا کمزور پڑ جانا، مقاومت کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
- غاصب صہیونی ریاست طاقت کے توازن اور عسکری صلاحیت کے لحاظ سے بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔
- فلسطینی عوام پہلے سے کہیں زیادہ محور مقاومت کے گرد متحد ہو گئے ہیں۔
- ایران ـ سعودی تعلقات کی بحالی عرب حکام کے اس سیاسی موقف کے خاتمے کا سبب ہوئی ہے جو ہمدردی کا ڈرامہ رچا کر دعویٰ کرتے تھے کہ "ہمارا دشمن اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے!"۔
- دمشق میں عرب ممالک کے سفارت خانوں کی بحالی اور شام کی عرب لیگ میں واپسی فلسطینی کاز پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔
مکالمے کی تفصیل:
سوال: کیا ممکن ہے کہ آپ اپنی کتاب کی تفصیلات کے بارے میں مختصر سی وضآحت کریں؟
جواب: میری کتاب کا نام ذکریات (یادیں) ضرور ہے لیکن یہ مصنف (جو میں ہی ہوں) کے حالات زندگی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ یہ عربوں اور مسلمانوں کی زندگی کے اہم تاریخی مراحل اور فلسطینی کاز پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ کتاب 1948ع‍ اور نکبت (تباہی = جعلی اسرائیلی ریاست کی تاسیس) کی کیفیت اور اس کے اسباب و عوامل پر بحث کرتی ہے، جس کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں اور تشریحات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ یہ کتاب بیان نکبت کی وقوع پذیری، اور اس کے وقوع کے اسباب اور صہیونی ریاست کی تاسیس کے عوامل کو دوسروں سے بالکل مختلف زاویئے سے دیکھتی ہے۔
کتاب اس مرحلے میں دنیا، عالم اسلام اور فلسطین کے اندر، طاقت کے توازن پر روشنی ڈآلتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اس کا آغاز پہلی عالمی جنگ کے موقع پر ہؤا تھا، اور عملی طور پر اس وقت آغاز ہؤا جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا اور دوسرے ممالک سے یہودیوں کو نوآباد قصبوں میں منتقل کیا گیا، ان کی جبری آبادکاری کی گئی، اور انہیں ہتھیاروں سے لیس کیا گیا۔ اس لئے کہ یہودی ریاست "اسرائیل" کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔
کتاب "ذکریات" اسی پہلو پر مرکوز ہوئی ہے اور اس مرحلے کو ہمہ جہت کوریج دیتی ہے، تا کہ ان غلط تصورات کی اصلاح کی جا سکے جو اس سلسلے میں پائے جاتے ہیں۔
یہ کتاب بعدازاں، سنہ 1950ع‍ اور 1960ع‍ کی دہائیوں کا جائزہ لیتی ہے، مصر کے فقید صدر جمال عبدالناصر کے دور پر روشنی ڈآلتی ہے، اور عربی حریت پسند پر ان کی قیادت کا جائزہ لیتی ہے اور ان جنگوں اور تنازعات کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ان کے دور میں وقوع پذیر ہوئے۔
اس دور کا ایک اہم پہلو کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کے کمیونسٹ دھارے پر بحث ہے، کیونکہ مصنف (جو کہ میں ہوں) اس سلسلے میں تجربہ رکھتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ پہلو نہ صرف فلسطین میں، بلکہ عرب اور اسلامی ممالک نیز عالمی سطح پر کمیونسٹ تحریک کی پوزيشن اور کردار کو واضح کرتا ہے۔

ترجمہ فرحت حسین مہدوی

جاری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242