اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران
بدھ

17 مئی 2023

3:40:39 PM
1366555

ڈوبتی صہیونیت؛

اسلامی جہاد تحریک نے اعصابی جنگ سے اسرائیل کو مفلوج کر دیا

مقبوضہ علاقوں کے صہیونی غاصج جنگ کے تسلسل سے تھک کر اکتا چکے ہیں اور جنگی علاقوں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ جہاد اسلامی تحریک (حرکۃ الجہاد الاسلامی) کا نیا ہتھیار "اعصاب کی جنگ"۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ مقبوضہ فلسطین پر قابض صہیونی ان دنوں پریشانی، خوف و ہراس اور پناہ گاہوں میں چھپنے کے لئے "تیار باش" کی کیفیت سے گذر رہے ہیں۔ اندرونی سطح پر کشیدگیوں، اختلافات اور احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف سے وہ ایک حملہ کرتے ہیں تو درجنوں راکٹوں کا نشانہ بنتے ہیں، چنانچہ حالات بہت پریشان کن ہیں۔ بنیامین نیتن یاہو کی تشدد پسند کابینہ کو "کامیابی کی تصویر" کے کھوجانے اور بیرونی دنیا میں "فوج کی تسدیدی صلاحیت کی تصویر" کھوجانے کے حوالے سے تشویش لاحق ہے [وہ آج تک کامیابی اور فوجی قوت کی تصویریں دکھا رہے تھے اور وہ بھی صہیونیوں کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں]۔ جنگ پانچ دن تک جاری رہنے کے بعد لگتا تھا کہ فلسطینیوں کی جنگی مشین نے اپنا کام شروع ہی کیا ہے۔

صہیونی ریڈیو نے سینچر کے دن اعتراف کیا کہ "صرف دو منٹوں میں 50 میزائل غزہ سے داغے گئے ہیں اور - ریڈیو کے مطابق - پانچ دنوں میں ان میزائلوں کی تعداد 1200 سے تجاوز کر گئی ہے"؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ سے داغے گئے میزائلوں اور راکٹوں سے نمٹنے کے سلسلے میں آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام کی صلاحیت محدود ہے اور دو منٹوں میں 50 میزائل داغے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے میزائل آئرن ڈوم سے گذر کر مقبوضہ علاقوں پر گرے ہیں۔ یہاں اگر صہیونیوں کی قسمت اچھی ہو تو بعض میزائل ان کے لئے کم نقصانات کا سبب بنے ہوں گے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلسطینی میزائلوں نے غاصب یہودی آبادیوں کو مکمل جنگی ـ ہنگامی صورت حال سے دوچار کئے رکھا۔

سدیروت (Sderot) غزہ پٹی سے قریب ترین صہیونی شہر ہے اور غزہ سے میزائل داغا جائے تو سدیروت کے باشندوں کے پاس پناہ لینے کے لئے صرف 20 سیکنڈ تک کی فرصت ہوتی ہے، لیکن دوسرے شہروں اور نوآبادیوں میں یہ فرصت کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ بہت سارے ویڈو کلپ منظر عام پر آئے ہیں جو غزہ سے میزائل داغے جانے کے وقت سڑکوں سے بھاگ رہے ہوتے ہیں یا پناہ لے رہے ہوتے ہیں اور ان کلپس اور تصاویر سے عیاں ہوتا ہے کہ فلسطینی مقاومت پانچ روزہ جنگ میں غاصبوں کی زندگی کو معطل کرکے رکھ دیا ہے۔

تل ابیب میں سلامتی پر تحقیق کرنے والے ایک مرکز نے اپنی رپوٹ میں صہیونیوں پر حالیہ جنگ کے نفسیاتی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

"اسلامی جہاد تحریک کا نیا ہتھیار اعصابی جنگ ہے"۔

"فلسطینی کمانڈروں کے قتل کے بدلے سے وجود میں آنے والے ماحول نے یہودی نوآبادیات کے باشندوں پر ایک اعصاب شکن تناؤ مسلط کر دیا ہے؛ صہیونی فوج میں ایک عجیب صورت حال ہے اور دوسری طرف سے تل ابیب اور دوسرے [مقبوضہ] شہروں میں رائے عامہ پر پریشانی، اضطراب، حیرت کی کیفیت طاری ہے؛ انہیں غزہ کی طرف سے زیادہ سے زیادہ جوابی کاروائیوں کا شدید خوف لاحق ہے؛ ایک طرف سے یہ خوف و ہراس بھی برقرار ہے، روزمرہ زندگی کے معاملات میں خلل پڑ گیا ہے، سرکاری اور فوجی ادارے فلسطینیوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ میزائل حملوں سے نمٹنے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں، نجی شعبہ جبری چھٹی! پر ہے، نصف سے زیادہ سرکاری ادارے بھی تعطیل سے دوچار ہیں، ویزے منسوخ ہوچکے ہیں اور راستے بند ہیں اور اس طرح کے دوسرے کئی مسائل بھی جاری و ساری ہیں، اور سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ صہیونی سمجھتے ہیں کہ <یہ جنگ آخری جنگ نہیں ہے"۔

صہیونیوں کا فرار؛ بڑے پیمانے پر

فلسطینی مقاومت کے حملوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے غاصبوں کے فرار میں بھی شدت آئی۔ عبرانی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ کے اطراف میں واقع یہودی نوآبادیوں کے 10 ہزار مکین مکانات خالی کرکے مرکزی اور شمالی فلسطینی علاقوں کی طرف بھاگ گئے ہیں، اور ہزاروں دیگر صہیونی فلسطین سے بھاگ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

صہیونی کابینہ پر دباؤ

تل ابیب میں نیتن یاہو کی کابینہ پر شدید دباؤ ہے اور صہیونیوں کی طرف جنگ بندی کے مطالبے نے زور پکڑ لیا ہے۔ عبرانی اخبار یدیعوت آحارونوت نے لکھا ہے کہ "بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ کے مخالف سیاستدانوں نے بھی غزہ پر صہیونی حملے فوری طور پر روکنے پر زور دیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ سابق وزیر اعظم یائیر لاپید ان لوگوں میں شامل ہے جو کہتے ہیں کہ "غزہ میں جنگ بندی کا وقت آن پہنچا ہے"۔

العالم اخباری چینل نے رام اللہ سے رپورٹ دی ہے کہ تل ابیب سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر - جنوب میں واقع شہر - رحوووت (Rehovot) پر فلسطینی مقاومت کا میزائل لگنے اور اس سے پیدا ہونے والے زوردار دھماکے نے صہیونیوں کے سیکورٹی اداروں کو شدید تشویش سے دوچار کردیا ہے اور ان اداروں نے نیتن یاہو سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "جنگی کاروائیوں کو فوری طور پر بند کر دو کیونکہ حالات ہمارے قابو سے باہر ہو چکے ہیں"۔

محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور

سابق صہیونی وزیر جنگ ایویگڈور لیبرمین (Avigdor Lieberman) نے بھی روز جمعہ اعتراف کیا کہ حماس 2009ع‍ کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہو چکی ہے۔ لیبرمین نے نیتن یاہو پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: "مسٹر نیتن یاہو! تجھ کو مقاومت کی تباہی کے لئے منتخب کیا گیا ہے لیکن مقاومت مزید طاقتور ہو چکی ہے"۔

صہیونیوں کو حماس کے جنگ میں اترنے کا خوف

جو کچھ غزہ پر مسلط کردہ صہیونی جنگ کے ان پانچ دنوں میں مقاومت کی طرف سامنے آیا ہے، یہ مقاومت کی تحریکوں کی طاقت کا ایک چھوٹا سے جزء ہے۔ صہیونی غاصبوں کے خلاف جوابی اقدام کے ضمن میں زیادہ تر حملے حرکۃ الجہاد الاسلامی نے کئے ہیں لیکن حماس نے بھی دھمکی دی ہے کہ وہ کشیدگی میں شدت آنے کی صورت میں اپنے - نئی نسل کے - میزائلوں سے مقبوضہ علاقوں کو نشانہ بنائے گی؛ اور حماس کے میدان میں آنے سے صہیونیوں کی صورت حال مزید نازک ہو جاتی۔

تحریک جہاد اسلامی کی عسکری شاخ "سرایا القدس" (قدس بریگیڈز) نے بھی سینچر کے دن اپنے بیان میں اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی کی کاروائیوں، قاتلانہ حملوں اور نہتے فلسطینی عوام کے گھروں پر بمباریوں کے جاری رہنے کی صورت میں مقبوضہ فلسطین میں صہیونی مراکز اور فوجی ٹھکانوں پر میزائل حملے بھی جاری رہیں گے۔

سرایا القدس نے "احرار کا انتقام" کی کاروائی جاری رکھنے پر زور دیا اور اعلان کیا کہ "ہم نے کئی مہینوں تک جنگ جاری رکھنے کا انتظام کر لیا ہے۔

جہاد اسلامی کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ نے کہا: "ہم اپنے سپاہیوں کے ہمراہ شہادت کے لئے تیار ہیں"۔

اسی اثناء میں عبرانی ذرائع نے لکھا ہے: "لگتا ہے کہ حماس بھی جہاد اسلامی کے ہمراہ پوری طرح میدان میں اتری ہوئی ہے؛ اور مشہور صہیونی تجزیہ کار امیر بوخبوط نے بھی ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ "اسرائیل موجودہ صورت حال مزید برداشت نہیں کرسکتا!"۔

جنگ کی دوسری طرف لگتا ہے کہ فلسطینی "جنگ کے سائے میں جنگ بندی" کے لئے تیار نہیں ہیں اور ریڈیو اسرائیل نے بھی کہا ہے کہ گویا جنگ بندی کے لئے ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں اور اس سے پہلے بھی - اسی مقصد سے – تیسرے فریق کی ثالثی میں جہاد اسلامی کے ساتھ تل ابیب کی ریاست کے مذاکرات ناکام ہوتے آئے ہیں۔

جہاد اسلامی تحریک نے جنگ بندی کو دو شرطوں سے مشروط کیا ہے: "یکم: دہشت گردانہ اور قاتلانہ حملوں کو بند کیا جائے؛ اور دوئم: جنگ بندی دو طرفہ اور بیک وقت نافذ کی جائے"۔

کمر توڑ اقتصادی بحران

غزہ کی پٹی پر ایسے حال میں جنگ مسلط کی گئی کہ مقبوضہ علاقوں کی معاشی حالت بالکل مناسب نہیں ہے۔ سنہ 2023ع‍ کے آغاز سے، اور نیتن یاہو کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے صہیونیوں کو باہمی اختلافات، اندرونی سطح پر لاکھوں صہیونیوں کے احتجاجات کا سامنا رہنے کی وجہ سے زیادہ تر سرمایہ کار کمپنیوں اور صنعتی و تجارتی اداروں نے مختلف ممالک میں نقل مکانی کر دی۔ سرمایہ نکلنے کی وجہ سے صہیونی کرنسی (شیکل) کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔

چینل آئی 13 نے گذشتہ سینچر کو رپورٹ دی کہ غزہ پر جارحیت کے روزانہ اخراجات ساڑھے پانچ کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں اور یہ اخراجات ان نقصانات کے علاوہ ہیں جو مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے صہیونیوں کی معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔

امریکی تجارتی میگزین فوربس (Forbes) نے بھی رپورٹ دی ہے کہ آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام کے ہر میزائل کی قیمت 50 ہزار سے لے کر ایک لاکھ ڈالر ہے جبکہ فلسطینیوں کے راکٹوں اور میزائلوں کی قیمت 1000 ڈالر سے بھی کم ہے۔ چنانچہ صہیونیوں کو 1000 ڈالر کے میزائل کو گرانے کے لئے ایک لاکھ ڈالر کا میزائل داغنا پڑتا ہے [اور وہ بھی اکثر و بیشتر فلسطینیوں کے میزائل روکنے میں ناکام رہتا ہے]۔ ادھر ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینیوں نے پانچ روزہ جنگ میں تقریبا 1500 راکٹ اور میزائل فائر کئے ہیں اب اور صہیونیوں کو ہر میزآئل کے جواب میں ایک فضائی دفاعی میزائل داغنا پڑا ہے؛ تو اگر ہر فضائی دفاعی میزائل کی اوسط قیمت 75000 ڈالر ہو تو صرف اسی بابت بھی صہیونیوں کو 11 کروڑ 25 لاکھ ڈالر خرچ کرنا پڑے ہیں۔ یہ نقصان ان نقصانات کے علاوہ ہے جو انہیں ہلاک شدگان، زخمیوں اور شہروں میں ویرانیوں کی صورت میں، انہیں پہنچے ہیں۔

بے بسی کی انتہا؛ فلسطینی اطفال صہیونی ریاست کی یلغار کے نشانوں میں شامل

حالیہ پانچ روزہ صہیونی جارحیت میں غزہ کے علاقے میں کم از کم سات فلسطینی بچے شہید ہوئے ہیں، اگرچہ اقوام متحدہ اور مغربی ممالک نے صہیونی جرائم پر ابھی تک کوئی فیصلہ کن موقف اختیار نہیں کیا ہے [کیونکہ وہ صرف اس وقت رد عمل ظاہر کرتے ہیں جب صہیونیوں کی شکست کے آثار نمودار ہوتے ہیں]۔ صہیونی یلغار کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 34 ہو گئی ہے۔

صہیونیوں پر سائبر حملہ

غزہ پر صہیونی بمباری اور فلسطینی مجاہدین کی جوابی کاروائیوں کے موقع پر ہی - گذشتہ سینچر کو - تل ابیب میں بن گوریون ایئر پورٹ کی ویب سائٹ پر سائبر حملے کی رپورٹیں موصول ہوئیں۔ اس حملے میں بن گوریون ہوائی اڈے کی الیکٹرانک سرگرمیاں مکمل طور پر بند ہوئیں۔

فلسطینی کمانڈروں پر دہشت گردانہ حملے

صہیونیوں نے غزہ اور مقاومت کی نفری پر بمباری کے ساتھ ساتھ، مقاومت کے اعلیٰ کمانڈروں پر دہشت گردانہ حملوں کی اپنی روایتی پالیسی کو بھی جاری رکھا اور سینچر کے روز صہیونی ریاست کے عسکری امور کے تجزیہ کار اور نام نہاد صحافی "ایتای بلومینٹل" (Itay Blumenthal) نے ٹویٹر پر حرکۃ الجہاد الاسلامی کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ کی تصاویر شائع کرتے ہوئے لکھا: "یہ زیاد النخالہ، جہاد اسلامی فلسطین کے سیکریٹری جنرل ہیں، یہی وہ شخص ہیں جو حرکۃ الجہاد کو غزہ سے، صہیونیوں پر، میزائل حملوں پر آمادہ کرتے ہیں۔ حرکۃ الجہاد کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ کو قتل ہونا چاہئے!"۔

یہ ہے صہیونیوں کا بے نقاب چہرہ، اور یہ ہے اس کی حقیقت اور صہیونی ریاست "اسرائیل" کے قطعی زوال کی نشانیاں؛ مغرب اکتا گیا ہے لیکن شاید مشرق میں ہنوز ہیں ایسے جو اس ڈوبتی ریاست کی خوشنودی حاصل کرنے کے درپے ہیں، اور یقینا یہ ان کی دانشمندی اور عقلمندی کی علامت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242