اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
منگل

2 مئی 2023

2:25:19 PM
1362031

جہاں فساد وہیں صہیونی؛

سوڈان کے بحران ميں یہودی ریاست کا کردار

صہیونی ریاست کو، اندرونی اور بیرونی ناکامیوں، اور بطور خاص - آبراہام منصوبے کے تحت عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی مشین کے رک جانے کے بعد، - خطے کے ماحول میں ایک تُرپ کے پتّے (Trump card) کی ضرورت تھی چنانچہ اس نے سوڈان کو چنا، جسے پہلے سے مختلف مسائل کا سامنا تھا؛ اور اس کو بحرانوں سے نکلنے کے لئے ایک خصوصی موقع کے طور پر استعمال کیا۔

عالمی اہل بیت(ع) - نیوز ایجنسی - ابنا کے مطابق، حالیہ چند ہفتوں سے سوڈان میں خانہ جنگی کی افسوسناک خبریں آ رہی ہیں، اور شواہد و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی بار مختصر مدت کے لئے اعلان شدہ جنگ بندیوں کے باوجود، صورت حال ہر روز بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ ان دنوں سوڈان کی تیزرفتار امداد فوج (Rapid Support Forces [RSF]) کے کمانڈر محمد حمدان دَقَلُو المعروف بہ حمیدتی (Hemedti)1 نے اپنی پوری توجہ دارالحکومت خرطوم پر مرکوز رکھی۔ حمیدتی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی غرض سے - دارفور، لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی کا تجربہ رکھنے والے نسبتا چست و چالاک فوجیوں کی مدد سے - صدارتی محل، ریڈیو اور ٹیلی وژن، ہوائی اڈے اور صدارتی رہائشگاہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ یہ کوششیں شدت سے جاری رہنے کے باوجود ابھی تک بارآور ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔

سوڈان کے موجودہ حالات کے سلسلے چند نکات بہت اہم ہیں:

1۔ حمیدتی کی فوج اپنے پس منظر، تجربے کے لحاظ سے تشکیل پائی ہے۔ یہ فوج 2003ع‍ میں دارفور کی جنگ کے وقت، سوڈان کو تقسیم سے بچانے کی غرض سے، سابق لیبیائی حکمران کرنل معمر قذافی کے مقابلے میں سوڈانی آمر جنرل عمر البشیر کے مؤثر نسخے کے طور پر ابھری۔ یہ مغربی سوڈانی قبائل سے تشکیل یافتہ فوج تھی جس کو دارفور کی بغاوت کی سرکوبی کا مشن سونپا گیا تھا، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی، لیکن یہی فوج بعد میں البشیر کے بیرونی مخالفین - بشمول صہیونی ریاست، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات - سے جا ملی تھی اور اسی نے سوڈانی فوج کی قیادت میں مورخہ 11 اپریل 2019ع‍ کو جنرل عمر البشیر کی 30 سالہ حکمرانی کا خاتمہ کرکے ان کا تختہ الٹ دیا۔

سوڈانی فوج معزول صدر البشیر کی قیادت میں تشکیل پائی تھی اور اس کے افسران ان کے وفادار تھے چنانچہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے اپنی بغاوت کی کامیابی کے بعد، فوج کے بے شمار سینئر افسران کو برخاست کر دیا، جس کی وجہ سے فوج کمزور ہوئی اور اس کے حوصلے پست ہوئے۔

دوسری طرف سے حمیدتی کی قبائلی فوج - جو متوازی فوج کے طور پر تشکیل پائی تھی - کو اپنے اندر طاقت محسوس ہوئی۔ وہ مزید دارفور کی ڈھال اور سوڈانی فوج کی ذیلی قوت کے طور پر کردار ادا نہیں کرنا چاہتی تھی، اور دوسری طرف سے جنرل البرہان، جو حمیدتی کے بیرونی تعلقات اور تسلط پسندی کی آرزو، سے واقف تھے، نے اس کی فوج پر قابو پانے کی کوشش کی، حالانکہ اس فوج کی نفری کی تعداد، باقاعدہ فوج کی نفری کی تعداد کے قریب تھی۔ اسی بنیاد پر سوڈان کی عبوری کونسل نے مورخہ 5 دسمبر 2022ع‍ کو - کونسل اور معترضین کے درمیان فریم ورک - معاہدے کے انعقاد کا اعلان کیا، جس کے تحت قرار پایا کہ ایک طرف سے فوج، اقتدار کو ایک سیاسی عمل طے ہونے کے بعد عوام کی تحویل میں دے گی اور دوسری طرف سے دیگر پیراملٹری فورسز - خاص کر حمیدتی کی ماتحت فوج – اگلے دو سال کے عرصے میں سوڈان کی باقاعدہ فوج میں ضم ہوگی۔

حمیدتی، جو سوڈان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے تھے، نے اپنی فوج کی باقاعدہ فوج میں ضم کرنے سے انکار کر دیا اور سیاسی عمل کے لئے دو سال کے بجائے، 10 سال کا عرصہ متعین کرنے کی تجویز دی، جو مسترد کی گئی۔ طے یہ تھا کہ حمیدتی کی افواج کے باقاعدہ افواج میں ضم ہونے کا عمل اپریل 2023ع‍ کے آغاز سے شروع کیا جائے، اور اس کے لئے ایک اجلاس کا پروگرام بنایا گیا تھا جس میں جنرل برہان، حمیدتی اور حکومت مخالف تنظیموں کے سربراہوں کو شرکت کرنا تھی۔ لیکن حمیدتی نے شرکت سے انکار کیا، جس کے فورا بعد انھوں نے سوڈانی فوج کے ساتھ جھڑپوں کا آغاز  کیا۔  

2۔ حمیدتی نے گذشتہ 20 سالہ عرصے میں مرکزی حکومت سے ماوراء، مغربی اور عرب ممالک نیز صہیونی ریاست اور روس کے ساتھ مستحکم - اقتصادی اور فوجی - تعلقات قائم کئے؛ چنانچہ جنرل برہان کے ساتھ اس خونی تنازعے میں، انھوں نے ان تعلقات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

وسیع پیمانے پر قحط کا شکار ملک سوڈان کے خلاف طویل عرصے سے مغربی اور صہیونی سازشیں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ موجودہ تنازعے میں یورپ اور امریکہ حمیدتی کی حمایت کرکے سوڈان کی سونے کی کانوں پر مسلط ہونے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں، اور دوسری طرف سے دریائے نیل پر - جو کئی مسلم ممالک کی شہ رگ حیات ہے - اور قرن آفریقا (Horn of Africa [HoA]) نیز سوڈان کی زراعت پر جعلی صہیونی ریاست کے تسلط کو یقینی بنانا چاہتے ہیں؛ اور یوں اسلام پسندی اور مقاومت اسلامی کے سامنے صہیونیوں کی موجودہ کمزور پوزیشن کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ سوڈان کی کانوں سے سونا نکالنے کا اختیار حمیدتی کے پاس ہے اور گذشتہ دو عشروں سے سونے کی برآمدات پر ان ہی کا کنٹرول ہے اور سونے سے حاصل ہونے والی آمدنی - سوڈانی عوام کے بجائے - ان کے ذاتی خزانے میں آتی ہے اور اس کا ایک حصہ آر ایس ایف (RSF) پر خرچ ہوتا ہے۔

روس بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حمیدتی آخرکار غلبہ پا ہی لیں گے اور برہان کو شکست دیں گے، اور سونے کی کانوں تک روس کی رسائی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی، چنانچہ وہ موجودہ تنازعے میں حمیدتی کی غیر محسوس حمایت کر رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات بھی، جو خطے کے تمام تنازعات کا ایک فریق ہوتا ہے، سوڈان میں غاصب صہیونی ریاست کا ہاتھ بٹانے پر مامور ہے، اور ساتھ ساتھ اس کی آنکھیں سوڈان کے سونے کے ذخائر اور حمیدتی کے ساتھ کے سیکورٹی اور معاشی تعلقات پر آنکھیں لگائے ہوئے ہے۔

موجودہ حقائق میں اس نکتے کا بھی اضافہ کرنا چاہئے کہ مغربی ممالک، صہیونی ریاست اور بعض عرب ممالک کو خرطوم میں ایک جارح قوت کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو سوڈان میں بھی اور اس کے آس پاس بھی، مقاومت اسلامی (یا اسلامی مزاحمت) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے نمٹ سکے۔ چنانچہ وہ برہان اور اس کی کمزور اور مسائل سے دوچار حکومت اور حمیدتی کی - شہری جنگ کا تجربہ رکھنے والی فوج - کے درمیان، حمیدتی کو ترجیح دیتے ہیں۔

3۔ سوڈان کے موجودہ بحران میں صہیونی ریاست کا کردار مداخلت کرنے والے دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ اہم اور بنیادی ہے۔

صہیونی ریاست کو، اندرونی اور بیرونی ناکامیوں، اور بطور خاص - آبراہام منصوبے کے تحت عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی مشین کے رک جانے کے بعد، - خطے کے ماحول میں ایک تُرپ کے پتّے (Trump card) کی ضرورت تھی چنانچہ اس نے سوڈان کو چنا، جسے پہلے سے مختلف مسائل کا سامنا تھا؛ اور اس کو موجودہ مخمصے سے نکلنے کے لئے ایک خصوصی موقع کے طور پر استعمال کیا۔ اور ہاں! برہان بھی صہیونی ریاست کے قریبی اتحادی ہیں اور حمیدتی اور برہان کے درمیان صہیونیوں کے ساتھ تعلق جوڑنے اور اپنے عوام نیز فلسطینی قوم، قبلہ اول اور امت مسلمہ کے مفادات کو نظر کرنے میں دونوں کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے لیکن جرات اور گستاخی کے لحاظ سے گویا حمیدتی برہان پر سبقت لینے میں کامیاب رہے ہیں!

حمیدتی نے کئی برسوں سے اپنے بھائی کو - اپنے اور یہودی ریاست کے درمیان - رابطہ کار کے طور پر متعین کیا ہے اور لیبیا سمیت، افریقی ممالک کے باہمی تنازعات اور یمن کی جنگ پر سعودی اتحاد کی جارحیت کے معاملے میں ہمیشہ ہمیشہ یہودی ریاست کے مفادات کے محافظ کے طور پر کردار ادا کرتے رہے ہیں، اور ان تمام معاملات میں محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کے دشمن کے طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔ چنانچہ جعلی اسرائیلی ریاست حمیدتی اور ان کی فوج کو ایک طلائی موقع کے طور پر دیکھتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر اسرائیل، دوسروں کی مدد سے، حمیدتی کو خرطوم پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک طرف سے وہ سوڈان کی اسلام پسند فوج کا صفایا کرسکے گا اور دوسری طرف سے بحیرہ احمر، قرن آفریقا، نہر سوئز اور سوڈان کے سونے کے ذخائر اور زراعت پر مسلط ہو جائے گا اور اس کے بزعم، سوڈان کو تین حصوں - یعنی مرکز میں کردفان (Kordofan) (رقبہ تین لاکھ 76 ہزار کلومیٹر مربع)، مغرب میں دارفور (Darfur) (رقبہ چار لاکھ 93 ہزار کلومیٹر)، اور شمال میں ایک ملک (جس کا رقبہ نو لاکھ کلومیٹر ہوگا) - میں تقسیم کرکے،  مغرب اور صہیونیوں کے مقابلے میں مزاحمت پر یقین رکھنے والی اسلامی حکومت کے قیام کا راستہ ہمیشہ کے لئے سد باب کر سکے گا!

یاد رہے کہ اسرائیل کی ابلیسی ریاست اس سے پہلے بھی جنوبی سوڈان میں اختلاف کی فصل کاٹ چکی ہے اور جنوبی سوڈان کے عنوان سے ایک بڑا حصہ سوڈان سے الگ کر چکی ہے جس کا دارالحکومت جوبا (Juba) ہے۔

4۔ اسی اثناء میں میدان جنگ میں بھی حمیدتی کی پوزیشن - سوڈانی فوج اور عبدالفتاح برہان کے مقابلے - زیادہ مناسب ہے۔ سابق سوڈانی سربراہ عمر البشیر نے انہیں بطور خاص اپنے قبیلے کی مضبوط پوزیشن کی رو سے آر ایس ایف کی کمان سونپی تھی۔ وہ " الرزیقات" نامی قبیلے کے سربراہ ہیں اور ان کا قبیلہ سوڈان کے - 117 قبائل کے درمیان - 10، 12 اہم دس بارہ قبیلوں میں سے ایک ہے۔

یہ قبیلہ سنہ 1955ع‍ سے محمد بن عثمان میرغنی کے خاندان کی قیادت میں "ختمیہ" نامی صوفیانہ فرقے کے درمیان سوڈان کی حکومت پر اقتدار کی جنگ جاری رہی ہے۔ اور خرطوم کی حکومت ان 67 برسوں میں ہمیشہ ان دو کے درمیان - ایک دوسرے کو - منتقل ہوتی رہی ہے۔

سونے کی کانوں کا جغرافیائی محل وقوع بھی حمیدتی کے لئے ایک خصوصی رعایت ہے۔ سوڈان کی 40 فیصد معیشت کا دارومدار سونے کے اخراج اور فروخت پر ہے۔ سونے کی بیشتر کانیں حمیدتی اور ان کے اتحادی قبائل کے علاقوں میں واقع ہوئے ہیں۔

حمیدتی نے قبائلی ملیشیاؤں سے فائدہ اٹھا کر افریقی اور عرب ممالک کے بحرانوں میں، - بے شماری جانی نقصانات برداشت کرنے کے باوجود، - مغرب اور اس کے عرب اتحادیوں کے مفاد میں،  کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ شمالی افریقہ اور بعض مغربی ایشیائی ممالک کے آشوب زدہ ماحول میں، حمیدتی اور ان کی فوج شیطانی قوتوں کے ہاں بہت مقبول ہیں۔  

 چنانچہ عربی خطے میں ایک محاذ آرائی دکھائی دے رہی ہے جس کا ایک فریق وہ ممالک ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول کو پرسکون بنانے کے لئے کوشاں ہیں اور دوسرا فریق وہ ممالک، جو امن و سلامتی کو اپنے مفاد میں نہیں سمجھتے۔ اسی اثناء میں سوڈان کے آس پاس کے ممالک سوڈان کے ٹوٹنے کے خطرے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

5۔ خانہ جنگی کے اب تک کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ حمیدتی کو امریکہ، فرانس، جرمنی، روس، صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے، اور یہ ممالک ان کو ہتھیار اور نقد رقوم بھی فراہم کرتے ہیں، اور اس کی باغی فوج کو سوڈان کی باقاعدہ فوج کا ہم پلہ [اور قانونی فوج] سمجھ کر اس کی بغاوت کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں، لیکن وہ ابھی تک دارالحکومت میں کسی بھی اہم ٹھکانے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن، ایئرپورٹ، اور صدارتی محل، ہر ملک میں حکمرانی کے تین مظہر سمجھے جاتے ہیں لیکن حمیدتی ان میں سے کسی پر بھی قبضہ نہیں جما سکے ہیں اور ان پر سوڈانی فوج کا مکمل کنٹرول ہے۔ دارالحکومت سے باہر کے علاقوں میں فی الحال، حالات پرسکون ہیں؛ جس کا البتہ، یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ علاقے اگلے ہفتوں میں بھی پرسکون رہ سکیں گے، اور عین ممکن ہے کہ حمیدتی کی قبائلی ملیشیائیں - سوڈانی فوج کی توجہ مرکزی علاقوں کے دفاع سے ہٹانے حالات کو مزید خراب کرنے کی غرض سے - دارفور اور کردوفان کے حساس علاقوں میں بھی سرگرم عمل ہو جائے۔

یقینی امر ہے کہ جھڑپوں میں شدت آنے کی صورت میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کا راستہ ہموارہوگا، جبکہ سوڈانی عوام اور اسلام پسند قوتوں نے - جو دونوں فریقوں کو باطل سمجھتی ہیں - ابھی تک اس تنازعے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے، اور انہیں شاید ابھی تک اندازہ نہیں ہے کہ ان کا ملک تباہی کے دہانے پر ہے، اور عین ممکن ہے یہ جنگ طویل ہو جائے، سوڈان کے دشمن ان کی سرزمین میں مداخلت کریں، سوڈان بیرونی قوتوں کے زیر قبضہ آ جائے اور ایک بار پھر اس کے حصے بخرے کئے جائیں؛ چنانچہ ان کی کنارہ کشی اور غیرجانبداری اور جنگ میں عدم مداخلت، یقینا ان کے لئے عظیم اور طویل المدت نقصانات کا سبب بنے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم ڈاکٹر سعد اللہ زارعی

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110