اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

30 اپریل 2023

12:40:24 PM
1361573

عراق پر امریکی یلغار کے 20 سال؛

عراق کی اسلامی سرزمین پر عالمی دہشت گرد "امریکہ" کے ہولناک جنگی جرائم

عراق پر امریکی یلغار کے 20 سال پورے ہونے پر، روسی ٹیلی وژن RT نے ایک دستاویزی فلم نشر کی ہے جس میں عراق میں امریکی جنگی جرائم کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کے مطابق، لندن سے چھپنے والے اخبار "الرأیُ الیوم" کے مدیر اعلیٰ عبدالباری عطوان نے عراق پر امریکی جارحیت اور سرزمین عراق پر امریکیوں کے قبضے کے 20 سال پورے ہونے پر، ایک مضمون کے میں ایک روسی دستاویزی فلم کو موضوع بحث بنایا ہے جس میں عراق میں امریکہ کے - عوام کے خلاف کمزور شدہ یورینیم (Depleted uranium) کے حامل بموں کے استعمال - اور دیگر جنگی جرائم  سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں بغداد ایئرپورٹ کے معرکے میں عراقی سپاہیوں کی دلیرانہ استقامت کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں دو اہم نکتوں کی طرف اشارہ ہؤا ہے:

1۔ بغداد ایئرپورٹ کا معرکہ

بغداد ایئر پورٹ پر امریکی حملے کے دوران، عراقی سپاہیوں نے زبردست مزاحمت اور یہ معرکہ تین دن تک جاری رہا اور جارح امریکیوں کو زبردست جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا، لیکن اس معرکے میں آخری کامیابی امریکی جارحوں کی تھی، کیونکہ انہیں جدید ترین جنگی وسائل - بشمول ایف-16 طیاروں اور آپاچی ہیلی کاپٹروں - کی پشت پناہی حاصل تھی، لیکن زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ "امریکیوں نے بغداد ایؤرپورٹ پر کمزور شدہ یورینیم کے حامل بموں سے بمباری کی"، وہ عراقی ٹینکوں کو تباہ کرنے کے بعد عراقی فوجیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔

2۔ عراقیوں پر تشدد

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جارح امریکی فوجیوں ابو غریب جیل میں عراقی قیدیوں کو ہولناک ترین تشدد کا نشانہ بنایا اور اس جرم کو خفیہ رکھا۔ امریکیوں نے ابو غریب جیل میں جن جرائم کا ارتکاب کیا اس کی مثال دنیا بھر کی گذشتہ تاریخ میں نہیں ملتی تھی۔

واضح رہے کہ ٹارچر کا یہ سلسلہ امریکی فوجیوں اور سی آئی کے افسروں کی نگرانی میں جاری رہا جنہیں امریکہ کی وزارت دفاع کی پشت پناہی جاصل تھی۔ ٹارچر اور تشدد کے ان مناظر کو 92 کیسٹوں میں ریکارڈ کیا گیا اور درندگی کے یہ مناظر - خوف و دہشت پھیلانے کی غرض سے - دوسرے قیدیوں کو بھی دکھائی گئے؛ لیکن جب ان جرائم کی تصویرں منظر عام پر آئیں تو اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش (بش جونیئر) نے ان ویڈیو اور تصاویر کو تلف کرنے کی ہدایت کی، تاکہ امریکہ کا کریہ چہرہ عالمی رائے عامہ کے سامنے بے نقاب نہ ہو۔

کچھ لوگوں - [بالخصوص مغرب نواز صحافیوں] - نے دعویٰ کیا ہے کہ گویا یہ دستاویزی فلم امریکہ کی طرف سے روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے خلاف امریکی تشہیری مہم کا جواب تھی۔ گوکہ حقیقت یہ ہے کہ پیوٹن کے خلاف امریکی الزآمات کی نوعیت سیاسی ہے، لیکن عراق میں جارح امریکی فوجیوں کے جرائم جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم اور قیدیوں کے ٹارچر (اور تشدد) سے تعلق رکھتے ہیں؛ پیوٹن کے خلاف مہم الزامات پر مشتمل ہے جبکہ آر ٹی کی دستاویزی فلم صوتی اور تصویری ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔

ادھر دوسرے ممالک پر قبضے اور قیدیوں پر تشدد کی طرح، کمزور شدہ یورینیم کا استعمال بھی بین الاقوامی قوانین کی رو سے منع ہے لیکن امریکیوں نے اس قسم کے یورینیم کے حامل ہتھیار استعمال کرکے فوجیوں اور بچوں، عورتوں اور دیگر عام شہریوں سمیت لاکھوں عراقی عوام کا قتل عام کیا ہے۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ یہ مواد شدید تابکاری اور سرطان کی بیماری عام ہونے کا سبب بنتا ہے اور اس کے ہلاکت خیز اثرات عشروں اور صدیوں تک باقی رہتے ہیں۔

برطانوی اخبار Declassified UK  نے بھی تصدیق کی ہے کہ عراق پر جارحیت کرنے والے برطانوی فوجیوں نے سنہ 1991ع‍ سے سنہ 2003ع‍ تک عراقی اہداف پر بموں اور میزائلوں کے متعدد حملے کئے ہیں جن میں 2300 کلوگرام کمزور شدہ یورینیم بروئے کار لایا گیا تھا۔

برطانوی وزارت خارجہ نے اس گناہ عظیم اور انسانیت کے خلاف اس جرم کے ارتکاب کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ تابکاری کا نشانہ بننے والے عراقی علاقوں سے تابکاری کے ازالے میں کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ مذکورہ برطانوی وزارت نے یہ بھی اعتراف کیا اس زمانے میں برطانیہ نے عراق کے مختلف علاقوں پر کمزور شدہ یورینیم کے حامل 420 بم گرائے تھے!!

افسوسناک حقیقت یہ ہے، کہ برطانوی وزارت دفاع ایک طرف سے عراق پر یورینیم کے حامل بموں پر بظآہر افسوس کا اظہار کرتی ہے اور دوسری طرف سے اس نے چند ہفتے اعلان کیا ہے کہ وہ اسی قسم کے بے شمار بم - روسی افواج کے خلاف استعمال کرنے کے لئے - یوکرین بھجوا رہی ہے!! جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عراق میں اپنی سابقہ خطاؤں سے عبرت لینے کے لئے تیار نہیں ہے، [یا یوں کہئے کہ بڈھا لگڑ بگڑ اپنے مفاد کے تناسب سے کبھی عراق پر سینکڑوں یورینیم بم گراتا ہے، کبھی اپنے اس عمل کو نادرست قرار دیتا ہے اور کبھی دوبارہ ان ہی بموں کو مشرقی یورپ بھجواتا ہے]۔

چنانچہ ضروری تھا کہ روس بھی یوکرین میں برطانوی یورینیم بموں کی ترسیل کے جواب میں، لندن کو ٹیکٹیکل ایٹمی حملے کی دھمکی دیتا جو اس نے بروقت دے دی۔

اب سوال یہ ہے کہ کس ملک کو بین الاقوامی کریمنل کورٹ میں حاضر ہونا چاہئے، اور کس شخص پر مقدمہ چلنا چاہئے؟ یقینا ان لوگوں کو عدالت میں حاضر کرنا چاہئے: سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور اس کا نائب ڈک چینی، وزیر دفاع رامسفلڈ، اور اس کا نائب رچرڈ پرل، جینا ہاسپل (Gina Cheri Haspel) المعروف بہ "جنرل ٹارچر"، جو عراقی قیدیوں اور تشدد کا نشانہ بننے والے نیم جان عراقیوں کے ساتھ تصویریں بنوانے کی شوقین تھی اور ظلم و تشدد سے لذت اٹھاتی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے اس خونخوار عورت پر جنگی مجرم کے طور پر، مقدمہ نہیں چلایا، اور طرہ یہ ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی عورت کو سی آئی کی سربراہی کا عہدہ سونپا اور وہ امریکی کانگریس نے بھی اس کی تقرری کی توثیق کر دی۔ وہ سنہ 2018ع‍ سے سنہ 2021ع‍ تک سی آئی کی ڈائریکٹر رہی، اور اس انداز سے امریکہ نے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اس کو بطور انعام اعلیٰ عہدوں سے نوازا۔

وہ عراقی فوجی، جنہوں نے بغداد کے ہوائی آڈے پر مردانہ وار استقامت کی، بے جگری سے لڑے اور بغداد کی طرف امریکی یلغاریوں کی پیش قدمی کو تین دن تک روکے رکھا، سب جام شہادت نوش کر گئے، اور یہ افسوس کا مقام ہے کہ گذشتہ دو عشروں کے دوران ان کے تذکرے کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا، جبکہ وہ اپنے ملک کے دفاع و تحفظ میں، حب الوطنی، شجاعات اور ایثار و جانفشانی کا پیکر تھے۔

حالانکہ توقع یہ تھی کہ جس وقت عراقی پارلیمان نے عراق میں اس جارح ملک کے فوجی اڈوں کی بندش اور عراق سے امریکیوں کے انخلاء کا قانون منظور کیا جا رہا تھا، عراقی حکام اپنے ملک کے ان سورماؤں کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتے۔

امریکی بمباریوں اور امریکی یورینیم بموں کے داغے جانے سے تقریبا 10 لاکھ عراقی شہید ہوئے جبکہ 1990 سے 2003 تک، امریکہ اور اس حواریوں اور اتحادیوں کے ذریعے عراق کی 13 سالہ ناکہ بندی کے نتیجے میں بھی ممجوعی طور پر 10 لاکھ سے زیادہ عراقی شہری شہید ہو چکے تھے۔

عراق فرقہ وارانہ مفاہمت کے سلسلے میں ایک مثالی ملک تھا اور امریکہ نے عراق پر قبضہ کرکے شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات کو ہوا دی اور داعش کو معرض وجود میں لا کر یہاں 30 سال تک مذہبی جنگ کی سازش بنائی، اور یہ بھی وہ موضوع ہے جس پر ابھی تک عالمی عدالتوں میں زیر بحث نہیں لایا جا سکا ہے۔

یہ معلومات برطانیہ کے معتبرین طبی میگزین (The Lancet) کی وسیع پیمانے پر تحقیقات کے بعد قارئین کو پیش کی گئی ہیں۔

اور ہاں! امریکیوں نے عراقی اسٹیٹ بینک کے اندر اربوں ڈالر کی نقدم رقوم اور دسوں ٹن سونا، اور عراق کے تاریخی مقامات میں موجود آثار قدیمہ بھی چوری کر لئے، عراقی تیل اور گیس کی آمدنی کا سے ہونے والی دولت بھی لوٹتے رہے ہیں اور اس ملک کی فوج کی تحلیل کرکے، اسے بے شمار خطروں سے دوچار کیا، اور گتھیاں اب تک سلجھائی نہیں جا سکی ہیں؛ اور عراق کی قومی سیاسی جماعتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شہیدوں کے خون کا پاس رکھتے ہوئے، حکومت کی مدد سے دستاویزی فلمیں بنوائیں اور عراق میں امریکہ اور مغربی ممالک کے تمام تر جنگی جرائم کی تصویر کشی کریں اور ہمیشہ کے لئے تاریخ میں ثبت کر لیں کہ امریکہ جس ملک پر قبضہ کرتا ہے اس ملک کے حصے میں تباہی، بربادی، خونریزی اور کُشت و خون، لوٹ مار اور قتل و غارتگری کے سوا کچھ بھی نہیں آتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110