اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
ہفتہ

29 اپریل 2023

1:26:17 AM
1361159

اتحاد واحد راستہ؛

ایران-سعودی سمجھوتہ، اور عالم اسلام کے لئے اس کے فوائد و ثمرات

سنہ 2023ع‍ کے اوائل میں ایران اور سعودی کے درمیان ایک سمجھوتہ منعقد ہؤا جس میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتی دفاتر کے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا گیا؛ جس کے بعد دو ملکوں کے وزرائے خارجہ نے بیجنگ میں ہی سمجھوتے پر دستخط کر دیئے۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا -

یہ سوال ان دنوں عام پر پوچھا جاتا ہے کہ ایران-سعودی سمجھوتے کے اثرات و ثمرات کیا ہیں؟ اور مغربی ایشیا کے امور کے ماہر، ڈآکٹر سید ہادی سید افقہی نے فارس نیوز ایجنسی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، اس سوال کا جواب دیا ہے۔

ایران – سعودی معاہدے سے کھلنے والے راستے

ڈآکٹر سید ہادی سید افقہی نے فارس نیوز ایجنسی کے خارجہ پالیسی گروپ کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان [تاریخی]  سمجھوتے کے تحت سفارتی تعلقات کی بحالی سفارتخانوں اور قونصل خانوں کی دوبارہ بحالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کو تین سطحوں میں دیکھا جا سکتا ہے: دو طرفہ تعلقات، علاقائی سطح اور بین الاقوامی سطح۔

دو طرفہ تعلقات
دو طرفہ تعلقات سے متعلق مسائل، سیاسی اور سفارتی مسائل، سلامتی کے مسائل، تزویراتی مسائل، اقتصادی اور تجارتی مسائل۔  ثقافتی اور دینی مسائل نیز حج اور عمرہ اور عوامی سفارت کاری سے متعلق مسائل وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ بدقسمتی سے عوامی رابطوں اور یا عمومی سفارت کاری جیسے مسائل ہمارے ہاں ابھی تک غفلت کا شکار ہیں جبکہ سعودی عرب اس میدان میں ہم سے آگے ہے اور اسلامی اور یورپی ممالک میں سعودی مبلغین وغیرہ جیسی غیر سفارتی شخصیات مساجد، اسٹیڈیم اور ثقافتی مراکز کی تعمیر کے ذریعے عمومی سفارت کاری کو آگے بڑھا رہے ہیں؛ اور یہ وہ عمل ہے جس کی طرف ہمیں بھی اچھی خاصی توجہ دینا چاہئے۔

ایران-سعودی سمجھوتے کے علاقائی اثرات

اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ سمجھوتے کے علاقائی سطح کے اثرات نیز خطے کی اقوام کے مفادات کے ساتھ ساتھ، خطے میں ہونے والی پیشرفت اور خطے کی اقوام کے مفادات کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں امریکہ اور صہیونی ریاست کی مداخلت پر اثر ڈالیں گے اور یمن، شام، عراق، لبنان اور فلسطین، نیز بحرین، کے معاملات پر بھی اثرانداز ہوں گے۔

پاکستان کے ایک مشہور و معروف عالم دین نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ ایران -  سعودی مصالحت پاکستانی معاشرے کے لئے بھی بہت مفید ہے اور تکفیریوں کی موجودگی کے باوجود، اس مصالحت کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔

ادھر اس سمجھوتے کے بعد یمنی قیدی رہا ہو گئے ہیں، یمن اور سعودی عرب کے درمیان جنگ بندی عمل میں آئی ہے، سعودی عرب اور امارات نے یمن کا محاصرہ ختم کرنے کا آغاز کیا ہے؛ شام کے وزیر خارجہ فیصل المقداد نے طویل عرصے سے باہم تعلقات منقطع ہونے کے بعد ریاض کا دورہ کیا ہے اور دوسری طرف سے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے دمشق جاکر سعودی بادشاہ کا پیغام صدر بشار الاسد کو پہنچا دیا اور انہیں ریاض میں عرب سربراہوں کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ یہ ایران-سعودی سمجھوتے کے اب تک کے مثبت اثرات ہیں۔

ایران-سعودی سمجھوتے کے بین الاقوامی اثرات

سمجھوتے اور مصالحت سے قبل سعودی حکمران بھی اور خلیج فارس کی بعض عرب ریاستیں بھی، ہر روز جارحانہ بیانات آ رہے تھے، ایرانو فوبیا کا بازار گرم تھا  اور مسلسل کہے جا رہے تھے کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے، اور ایران اور 1+5 کے مذاکرات میں شرکت کا مطالبہ کر رہے تھے؛ اوپک میں بھی عرب ممالک ایران کے مخالف محاذ میں کھڑے نظر آتے تھے، لیکن آج سعودی حکومت ایٹمی توانائی کو ایران کا مسلمہ حق سمجھتی ہے، اور کہتی ہے کہ سعودی عرب اوپک میں ایران کے ساتھ تعاون اور تیل کی قیمت متوازن کرنے اور تیل کی پیداوار کم کرنے کے لئے تیار ہے؛ اور امارات اور سعودی عرب نے بھی کہا ہے کہ وہ تیل کی قیمتیں متوازن کرنے کے خواہاں ہیں۔

خلاصہ یہ کہ ایران اور سعودی عرب، اوپک اور دوسرے بین الاقوامی فورموں کے رکن ممالک ہونے کے ناطے، باہمی تعاون کو فروغ دے کر دونوں ممالک کے لئے بہتر نتائج رقم کر سکتے ہیں۔ اور اسلامی تعاون کانفرنس میں بھی تعاون کر سکتے ہیں، جبکہ اس سے قبل - بدقسمتی سے - یہ دو ممالک اس کانفرنس میں آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے تھے، سعودی حکمران فلسطین کے مسئلے میں مقاومت کی شدید مخالفت کرتے تھے، اور ان شاء اللہ مستقبل میں یہ دونوں ممالک بامقصد انداز سے پورے ہوش و حواس کے ساتھ امریکہ اور صہیونی ریاست کی خیانتوں اور خباثتوں پر نظر رکھ سکیں گے اور بہتر انتظام و تدبیر اور عقلیت کے ساتھ، انہیں بے جا سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110