اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
بدھ

15 مارچ 2023

10:54:31 PM
1352537

امریکہ کے بعد کا دور!

چین میں ایران - سعودی سمجھوتہ / امریکہ کے بعد کی دنیا میں خوش آمدید

بیجنگ میں تہران-ریاض سمجھوتہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک بھونچال کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایران اور اس کے سب سے بڑے علاقائی رقیب اور خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی ملک سعودی عرب کے درمیان، - "چین کی ثالثی - اور امریکہ کی غیر موجودگی" میں سمجھوتہ طے پایا! سمجھوتے کی دستاویز انگریزی میں نہیں بلکہ فارسی، عربی اور چینی زبانوں میں لکھی گئی۔ یہ سمجھوتہ چین کی طرف سے امریکی بالادستی پر دوسری کاری ضرب قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے بعد دور کا آغاز!

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ایران اور سعودی عرب نے جمعہ مورخہ 10 مارچ 2023ع‍ کو، چینی دارالحکومت بیجنگ، میں دوطرفہ تعلقات کی بحالی کے سمجھوتے پر دستخط کر دیئے ہیں جس کے تحت سات سال بعد تہران اور ریاض میں سفارتخانے اور قونصل خانے دوبارہ کھولے جائیں گے اور سفیروں کا تبادلہ ہوگا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی اور سعودی قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العیبان نے مغربی ایشیا کے دو بڑے ملکوں کے اعلیٰ ترین سیکورٹی اہلکاروں کی حیثیت سے اس سمجھوتے پر دستخط کئے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی (Wang Yi) نے چین کے اعلیٰ ترین سفارتی اہلکار کی حیثیت سے ثالث کا کردار ادا کیا۔

عالم اسلام میں اس سمجھوتے کو خوب خوب سراہا گیا، کچھ ممالک نے فوری طور ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے مذاکرات کا آغاز کیا اور مبصرین نے اس کے مثبت اثرات، صہیونی ریاست کی ریشہ دوانیوں اور امریکہ کے جبر کو دھچکا لگنے کے بارے میں تبصرے ریکارڈ کرائے۔

 اس سمجھوتے کے پانچ اہم نکات درج ذیل ہیں:

1۔ عوامی جمہوریہ چین دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح، ایران اور سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ سنہ 2022-2023 کے مالی سال میں ایران اور چین کے درمیان تجارت کی سطج 25 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اور سنہ 2022 میں سعودی عرب اور چین کے درمیان تجارتی سطح 87ع‍ ارب ڈالر تک پہنچی ہے۔

2۔ سعودی عرب چین کے تیل کی ضروریات پوری کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور چین اپنی ضروریات کا 18٪ حصہ اس ملک سے برآمد کرتا ہے۔ دوسری طرف سے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ تزویراتی سمجھوتے کے تحت، چین ایرانی تیل کے عوض ریلوے، ڈرائی فورٹس، بندرگاہوں اور صنعت و زراعت جیسے بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں 500 ارب ڈالر سرمایہ کرے گا؛ گوکہ دو طرفہ تجارت میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا اور اس کے نتائج اگلے برسوں میں برآمد ہونگے۔ علاوہ ازیں عوامی جمہوریہ چین عراق سے چین کی تجارت 10 ارب 20 کروڑ، عمان سے آٹھ ارب 80 کروڑ، کویت سے چھ ارب 20 کروڑ، امارات سے چھ ارب 10 کروڑ اور قطر سے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کا تیل برآمد کرتا ہے؛ یوں چین کی ایندھن کی ضروریات کا 50٪ حصہ خلیج فارس پورا ہوتا ہے؛ چنانچہ ایران، سعودی عرب اور چین کا مفاد پرامن خلیج فارس میں ہی ہے۔

سنہ 2021 میں چین کو تیل برآمد کرنے والے اہم ممالک | سورس: World's Top Exports

3۔ امریکہ کی سیاسی حیات بحران سے وابستہ ہے۔ امریکی فوج مرکز کمان کے تحت چھ کمانڈز اور سات بحری بیڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان کے ذریعے تمام عالمی تنازعات میں مداخلت کرتی ہے۔ مغربی ایشیا میں شام، عراق اور یمن اور مشرقی ایشیا میں جزیرہ نما کوریا اور تائیوان کے بحرانوں، لاطینی امریکہ میں متعدد فوجی بغاوتوں، افریقی ملک لیبیا کی جنگ میں اور مشرقی یورپ کے ملک یوکرین کی جنگ میں منفی مداخلت امریکہ کے سیاہ کارناموں میں شمار ہوتی ہے۔ یعنی امریکہ ہمیشہ غیر جانبداری اور امن پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے مگر تمام جنگوں میں ایک فریق کی حمایت کرتا اور دوسرے کے خلاف جنگ میں مداخلت کرتا ہے۔ ایران اپنے آئین کے تحت بھی اور اخلاقی لحاظ سے بھی کسی وقت بھی کسی مسلم ملک کے خلاف عسکری اقدام نہیں کرتا اور نہ ہی اس نے ایسا ابھی تک کیا ہے، مگر امریکہ نے خلیج فارس کی ساحلی عرب ریاستوں کو ایرانو فوبیا سے دوچار کرکے صرف ایک سودے میں [ٹرمپ کے دور میں] سعودی ارب کے ساتھ 450 ارب ڈالر کا معاہدہ منعقد کیا؛ یعنی امریکہ نے ایک خیالی بحران پیدا کیا اور اس بحران سے فائدہ اٹھا کر مال بنایا چنانچہ جب بحران نہ ہوگا امریکی مفاد خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسی بنا پر [اس کے باوجود کہ امریکہ نے بظاہر ایران-سعودی سمجھوتے کو مثبت قرار دیا ہے مگر] کچھ مبصرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکہ پھر بھی شرانگیزی کی کوشش کر سکتا ہے! [بحران کے گدلے پانی میں جیون کا تقاضا]

چینی خارجہ پالیسی امریکہ کے بالکل برعکس ہے۔ بیجنگ کی حکمت عملی معیشت پر استوار ہے اور امن و سلامتی اس حکمت عملی کے نفاذ کے بنیادی اجزاء میں سے ہے۔ خلیج فارس کی سلامتی چین کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے چنانچہ ایران - سعودی تنازعے میں کا سب سے بڑا فاتح امریکہ اور سب سے بڑا مغلوب چین ہوگا۔ اسی بنا پر چین اپنے آپ کو ایران - سعودی امن مذاکرات اور نتیجے کے طور پر حاصل ہونے والے سمجھوتے  کا سب سے بڑا فاتح سمجھتا ہے۔

نکتے کی بات یہ ہے کہ اس سمجھوتے کے اثرات و ثمرات، مستقبل قریب میں، شام اور یمن میں بھی دکھائی دیں گے۔ اس مدعا کا ثبوت اس سمجھوتے کے تئیں ایران اور سعودیہ کے حامی علاقائی ممالک کا وسیع خیر مقدم ہے۔

4۔ یہ سمجھوتہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک بھونچال کی حیثیت رکھتا ہے۔ مغربی ایشیا میں ایران کا سب سے بڑے رقیب اور امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی "سعودی عرب" نے امریکہ کے سب سے بڑے رقیب "عوامی جمہوریہ چین" کی وساطت سے "واشنگٹن کی مداخلت کے بغیر" امریکہ کے دشمن "اسلامی جمہوریہ ایران" کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ سمجھوتہ در حقیقت، امریکی بالادستی پر چین کی دوسری کاری ضرب، تھا۔ چین نے امریکی بالادستی پر پہلی کاری ضرب 15 نومبر 2010ع‍ کو لگائی گئی جب چین کی حمایت سے دنیا کی آزاد تجارت کے سب سے بڑے سمجھوتے "علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری" (Regional Comprehensive Economic Partnership [RCEP]) پر دستخط ہوئے اور اس سمجھوتے میں امریکہ شامل نہیں تھا۔ (1)

سمجھوتہ "آر سی ای پی" (RCEP) دو ارب 20 کروڑ آبادی اور دنیا کی ایک تہائی معاشی پیداوار سے تشکیل پایا ہے؛ جس کی قدر 26 ٹریلین 200 ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔ سی این بی سی نیوز نے اس معاہدے کو یوں بیان کیا: " چین کی بغاوت: دنیا کے سب سے بڑا تجارتی معاہدہ جس میں امریکہ کو شامل نہیں کیا گیا ہے"۔ (2)

قطر کے اخباری چینل "الجزیرہ" نے اس سمجھوتے کو عالمی نظام کی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا اور اپنی رپورٹ کو اس سرخی سے معنون کیا:ا: " بدلتا ہوا عالمی نظام: ایران سعودی معاہدے میں چین کا ہاتھ"۔ (3)

5۔ بلا شک ایران - سعودی معاہدے کا سب سے زیادہ نقصان غاصب یہودی ریاست "اسرائیل"  کو ہؤا ہے۔ یہ جعلی ریاست سنہ 2010ع‍ سے، صہیونیت کے خلاف امت مسلمہ کی جنگ کو مسلمانوں کے اندرونی تنازعے میں بدلنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اس سلسلے میں اس کو امریکہ اور نیٹو کی حمایت حاصل تھی۔

اسی بنا پر تل ابیب کو یوکام (US European Command [EUCOM]) کی حدود سے سینٹکام (US Central Command [CENTCOM]) کی حدود میں منتقل کیا گیا تو غاصب ریاست نے ایران کے خلاف "خلیجی نیٹو" بنانے کی بہتیری کوششیں کیں۔ جن میں اس ہمیشہ شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

یقینا ایران - سعودی سمجھوتا ایران مخالف نیٹو کے اوپر مہر بطلان کی حیثیت رکھتا ہے۔ سابق صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینٹ نے بھی اس معاہدے کو "ایران کے خلاف علاقائی اتحادکی صہیونی کوششوں پر ہلاکت خیز ضرب" قرار دیا۔ (4)

امریکی نیوز ایجنسی واکس (Vox) نے ایران - سعودی سمجھوتے کے بارے میں لکھا: "مشرق وسطیٰ میں، امریکہ کے بعد کے دور میں، خوش آمدید!"۔ (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

1. https://www.euronews.com/2020/11/15/asia-pacific-countries-including-china-sign-world-s-biggest-trade-pact

2. https://www.cnbc.com/2020/11/16/rcep-15-asia-pacific-countries-including-china-sign-worlds-largest-trade-deal.html

3. https://www.aljazeera.com/news/2023/3/11/changing-global-order-china-restores-ties-with-iran-and-saudi

4. ttps://www.timesofisrael.com/bennett-saudi-iran-deal-a-failure-of-israeli-efforts-to-build-anti-tehran-coalition/

5. https://www.vox.com/world-politics/2023/3/10/23634464/deal-saudi-arabia-iran-china-explained