اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا خصوصی
اتوار

26 فروری 2023

1:14:15 AM
1348987

اسلامی انقلاب ایران کی 44ویں سالگرہ؛

بحران میں طاقت سازی؛ ترقی کا مشکل مگر شاندار سفر، اور ہمیشہ کے لئے فاتح عوام

اس عرصے میں اسلامی جمہوریہ کو درپیش فوجی خطرات کا پہلو اس لئے بھی بہت نمایاں رہا کہ کامیابی کے پہلے برسوں میں ہی مغربی دشمنوں نے صدام کو ایران پر جنگ تھونپنے کے لئے آمادہ کیا جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اگرچہ وسائل بھی کم تھے اور دنیا کے ممالک صدام کی حمایت کر رہے تھے مگر ایران نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ کامیاب دفاع کیا؛ بین الاقوامی اتحاد کی آہنی دیوار کو توڑ دیا، دشمنوں کو شکست دی اور اپنی کامیابی کو یقینی بنایا۔

عالمی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کے مطابق، اسلامی انقلاب کی پیشرفت کی راہ میں چوالیس سالہ رکاوٹوں اور چیلنجوں کے باوجود، ایران طاقتور قیادت کے سائے میں، متحدہ قوم کی برکت سے، اپنی صلاحیتوں کی صحیح شناخت، بحرانوں سے گذرنے اور چیلنجوں کو ترقی کے مواقع میں میں بدلنے پر ارتکاز کرکے، سارے میدانوں کا فاتح اور ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔

اگر پوچھا جائے کہ ایران انقلاب اسلامی کے بعد اتنے عظیم چیلنجوں پر کیونکر غالب آیا؟ تو اس کا جواب، مختلف زاویوں اور جہتوں سے، دنیا کے مختلف ممالک کے مبصرین کے زبانی، سنا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں ہم ان چار دہائیوں میں پیش آنے والے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کے اہم ترین پہلوؤں اور اشاریوں کو مغربی ایشیائی خطے کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کے زبانی سننے کا ارادہ رکھتے ہیں، جنہوں نے ایران کا دورہ کیا ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد کے ایرانی معاشرے کی حقیقت سے واقف ہیں۔

اس عرصے کا ایک اہم ترین پہلو جسے عالمی میڈیا اور ماہرین نمایاں کرکے پیش کرتے رہے ہیں وہ ایران کو درپیش فوجی خطرات تھے۔ یہ پہلو اس لئے بھی بہت نمایاں رہا کہ انقلاب کی کامیابی کے پہلے برسوں میں ہی مغربی دشمنوں نے ایک مغرور تفسیاتی مریض "صدام حسین" کو ایران پر یلغار کے لئے آمادہ کیا اور یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی۔ ایران نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ دفاع کیا۔ ایران کے پاس نہ عراق جتنے حامی تھے اور نہ ہی عراق جتنے ہتھیار اور جنگی ساز و سامان، لیکن اپنی نرم طاقت کے ان اجزاء کی مدد سے اپنی حکمرانی اور سالمیت پر حملہ کرنے والے بین الاقوامی اتحاد کی آہنی دیوار کو توڑ دیا، دشمنوں کو شکست دی اور اپنی کامیابی کو یقینی بنایا۔

 اسلامی ایران پر دشمنوں کی ہمہ جہت یلغار کی تاریخ انقلاب اسلامی کی بابرکت عمر، کے برابر ہے۔ یہ جنگ ایک فوجی یلغار سے شروع ہوئی، اس میں اقتصادی ناکہ بندی اور معاشی پابندیاں شامل کی گئی اور بعد میں شدید اور چار جہتی ابلاغیاتی حملے کو بھی شدید تر کر دیا گیا۔ اس جنگ کی کمان مغرب اور یہودی ریاست اور بین الاقوامی صہیونیت کے ہاتھ میں رہی ہے، اور عرب حکمران بھی گماشتوں کا کردار ادار کرتے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظآم نے صرف اس انقلاب کی بقاء کو درپیش چیلنجوں اور حملوں پر ہی رد عمل ظاہر نہیں کیا بلکہ اس جوان انقلاب نے جدوجہد کا عمل جاری رکھتے ہوئے، اپنی طاقتوں اور صلاحیتوں میں بھی اضآفہ کیا، اور مغربی ایشیا میں بہت ساری سیاسی، عسکری، ثقافتی اور سیکورٹی تبدیلیوں اور پیشرفتوں کے اسباب فراہم کئے۔

ایران کی کامیابی کا راز دشمن اور اس کے منصوبوں کی بروقت شناخت ہے

عراقی محقق اور علاقائی امور کے تجزیہ کار "مؤيد العلي" نے فارس نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "امام روح اللہ الموسوی الخمینی (قُدِّسَ سِرُّہُ) کی قیادت میں سنہ 1979ع‍ میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دن سے ہی، اسلامی جمہوریہ ایران کو دشمنوں کی طرف سے مختلف سیاست، سلامتی، سماج، ثقافت اور معیشت کے میدانوں میں مسلسل چیلنجوں اور خطرات کا سامنا کرنا پڑا؛ اور ان سب کا مشترکہ ہدف اسلامی اور عوامی انقلاب کی بنیاد پر قائم اسلامی جمہوری نظام کا تختہ الٹنا تھا"۔  

العلی نے مزید کہا: "ان خطرات اور چیلنجوں کا آغاز صدام کی طرف سے مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ، سے ہؤا، یہ سلسلہ معاشی پابندیوں کی صورت میں جاری رہا اور پھر مغربی ذرائع ابلاغ اور یورپ، امریکہ، جعلی صہیونی ریاست اور ان کے عرب گماشتوں کی پشت پناہی میں حالیہ بلؤوں کی صورت میں نمودہ ہؤا۔ مغربی اور عربی ذرائع نے ایران کی صورت حال کو انتہائی غم انگیز اور افسوسناک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور کہنا چاہا کہ ایرانی عوام کی آزادی اور حقوق کو چھین لیا گیا ہے اور وہ دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں"۔

العلی نے ایران میں اپنے مشاہدات کے بارے میں کہا: "میں ایک مہینہ قبل ایران میں تھا اور کئی لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ دارالحکومت تہران کے بازار اور بڑے تجارتی مراکز انتہائی پر سکون تھے، زیارت گاہوں میں ہزاروں لوگ موجود رہتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایرانیوں نے صرف شہروں کی تعمیر میں ہی اپنی عجیب مہارت کا اظہار نہیں کیا ہے، مجھے بعض دفاعی مراکز دیکھنے کا موقع بھی ملا اور دیکھا کہ فوجی صنعت میں اس ملک نے بے پاہ ترقی کی ہے، میرے لئے فخر اور سربلندی کا باعث تھا کہ دیکھ رہا تھا کہ ایک اسلامی ملک اس حد تک طاقتور ہو چکا ہے"۔

ان کا کہنا تھا: "میرے تمام جائزوں کا ما حصل یہ تھا کہ انقلاب اسلامی ایران نے اپنے لئے درپیش خطروں کو اپنے لئے ترقی کے مواقع میں بدل دیا ہے؛ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایران نے درپیش چیلنجوں کو اپنی طاقت کا ذریعہ بنا دیا ہے اور انہیں اپنی کامیابیوں کے راستے میں استعمال کیا ہے۔ اس وقت ایران میں طاقت کے مراکز قائم ہیں، جو اس کے متکبر دشمنوں اور ان کے دھوکے میں آنے والے گماشتوں کو خوفزہ کر رہے ہیں، اور وہ آج ایران کے خلاف کسی بھی جنگی اقدام سے خائف ہیں۔ ایران کی تمام ترقیاں اور حصول یابیاں (Achievements) اسلامی انقلاب کی قیادت کی دوراندیشی اور بصیرت اور حکومتی اداروں کی طاقت و استحکام کا ثمرہ ہیں اور ان کی پیشرفت کا راز یہ ہے کہ انھوں نے دشمن کے منصوبوں کو پہچان لیا ہے اور انہیں ناکام بنانے کے لئے متحد اور ہم آہنگ ہیں"۔

ایران کی قوت سازی بحران کے اندر، ترقی کا مشکل مگر شاندار سفر

عراقی تجزیہ کار قاسم الغراوی نے ایران کے جوان اسلامی انقلاب کے بحرانوں سے گذرنے کے راستوں پر بات چیت کرتے ہوئے کہا: "اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے ایک ترقی یافتہ اور آزاد و خودمختار ملک کے طور پر اپنے خاص معیار متعارف کرا دیئے جو اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ 44 سالہ اسلامی انقلاب تمام چیلنجوں کے باوجود صحیح راستے پر گامزن ہے؛ ایسا راستہ جس میں قوت  کا ایک نقطہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل نیا اور انوکھا تجربہ ہے"۔

انھوں نے ایران کی طاقت کے اجزائے ترکیبی اور چیلنجوں پر غلبہ پانے کے بارے میں کہا: "میں نے حال ہی میں تہران کا دورہ کیا؛ مجھے یہ سوال درپیش تھا کہ "کیا ایران انقلاب کے بعد ایک طاقتور ملک بن سکا ہے؟" اور مجھے جو جواب ملا وہ یہ تھا کہ «اسلامی جمہوریہ ایران ایک علاقائی طاقت ہے، اور تیل اور گیس کے زبردست ذخائر کی بنا پر اس کا کردار توانائی کی بین الاقوامی سلامتی اور عالمی معیشت میں بہت اہم ہے۔ اس سے بھی آگے، ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ فوق الصوت (Supersonic) بیلاسٹک میزائل بنانے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے؛ چنانچہ ميں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ایران ایک طاقتور ملک ہے جو خطروں اور دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتا اور مسلسل ترقی کر رہا ہے"۔

انھوں نے مزید کہا: "ایران نے انقلاب اسلامی کے بعد، طب کے میدان میں بھی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مناسب پوزیشن حاصل کر لی ہے؛ اور ایران کی ترقی سائنسی پیداوار کا اچھا خاصا حصہ ہے اور سائنسی ترقی میں طب کا حصہ 32 فیصد ہے۔ ایران ایک صنعتی ملک ہے اور معدنی پیدواران میں بھی اہم ترین ممالک کے زمرے میں آتا ہے، دنیا کی سطح پر، معدنی وسائل کے لحاظ سے ایران پندرہواں ملک ہے۔ کیونکہ ایران سیسے، جست، تانبے، کوئلے، سونے، قلعی اور لوہے سمیت 68 قسم کا معدنی مواد پیدا کرتا ہے۔ میں نے ایران کے بارے میں اپنے سوال کا جواب ایران کی ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی، میزائل صنعت میں ترقی، ایرانی ڈرون طیاروں اور سائبر سیکورٹی کے فنون میں پایا"۔

انھوں نے آخر میں کہا: "اگر مجھ سے ایرانی عوام کے بارے میں پوچھا جائے تو کہوں گا کہ یہ قوم پابندیوں کے باوجود، جو کچھ میں نے ایران کے بازاروں میں دیکھا مصنوعات، اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لوگ پر سکون زندگی گذار رہے ہیں۔ ملت ایران ایک تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ قوم ہے جو تاریخی اور تہذیبی گہرائی اور استکبار و استعمار اور عالمی سازشوں کے خلاف کامیاب استقامت کی عملی مثال ہے۔ میں نے دیکھا کہ ملت ایران متحدہ، بابصیرت، مشتاق اور بہادر و جان نثار قیادت کے سائے میں عزت و عظمت، سربلندی اور کامیابی و آزادی اور استحکام کے لئے جدوجہد کر رہی ہے، اور آج ایرانیوں کا نعرہ ہے "فتح یا پھر فتح"، اور ان کی لغت میں شکست کا لفظ نہیں پایا جاتا۔

ایرانی قوم کی محب الوطنی اور اتحاد نجات دہندہ ہے

"تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ برائے ذرائع ابلاغ اور ترقی" کے عرب ڈائریکٹر "مفید السعیدی" نے بھی ایران کے 44 سالہ چیلنجوں سے عبور  کے سلسلے میں بات چیت کرتے ہوئے ملت ایران کی انوکھی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "میں ان بیدار عوام کے لئے خصوصی احترام کا قائل ہوں جو دنیا کی تمام استکباری طاقتوں کے مد مقابل جم کر کھڑے رہے تاکہ آج ایک ایسے ملک کی تعمیر کریں جو صنعت، ‌‌زراعت، تجارت اور طاقت کے لحاظ سے نام نہاد بڑی طاقتوں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ایرانی عوام نے اپنے اختیار سے فیصلہ کیا کہ اپنے قائدین اور منتظمین کے حامی رہیں اور ایک 44 سالہ جوان انقلاب کو اس مرحلے تک پہنچائیں"۔

السعیدی نے کہا: "ایرانی عوام اپنی قیادت کے گرد متحد ہو کر چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور یوں اپنی محب الوطنی کا ثبوت دے رہے ہیں، اور یہ دوسرا اہم نکتہ ہے جس کے بموجب باشندے شہد کے چھتے کا سا کردار ادا کرتے ہیں اور ایک ایسا خاکہ دنیا والوں کے سامنے رکھتے ہیں جو ان کے ملک کی طاقت و استحکام کی عکاسی کرتا ہے۔ ایرانی اپنے تشخص و شناخت اور اپنے ایمانی تعلقات پر فخر کرتے ہیں، اپنی تاریخ پر فخر کرتے ہیں وار اپنے بہتر مستقل کے لئے، اپنی تاریخی گہرائی اور اعتقادات کے دائرے اور حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے، کوشش کرتے ہیں"۔

انھوں نے رہبر انقلاب کی سادہ زندگی کے بارے میں کہا: "میں نے اسلامی انقلاب کے قائد امام سید علی خامنہ ای (دام ظلہ اللہ العالی) کو اشرافی طرز کا حکمران نہیں پایا بلکہ محسوس کیا کہ ایسے باپ کی مانند ہیں جو اپنی اولاد کی خدمت کے لئے کھڑا ہے اور ان کے مستقبل کے استحکام کے لئے کوشاں ہے؛ اور اپنی ذمہ داریوں کو اس عقیدے اور مشن کے تسلسل کے طور پر ادا کرتے ہیں جو آسمانی تقاضوں سے جُڑا ہؤا ہے۔ میں یہ سب کچھ سمجھ کر ہی جان گیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی اور برتری کا سبب عوام اور راہنماؤں کی متحدہ محنت اور جدوجہد اور باہمی احترام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔

110