اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
ہفتہ

25 فروری 2023

4:19:27 PM
1348869

امریکی زوال؛

امریکی سنہ 2025ع‍ کو اپنے مقدر کا آخری سال سمجھتے ہیں ۔۔۔ حسین طائب

سپاہ پاسداران کے کمانڈر انچیف کے مشیر نے کہا: امریکیوں کے پاس وقت محدود ہے، اور دستاویزات کے مطابق ان کے پاس کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ آٹھ سال کا عرصہ ہے کہ عمومی اور عالمی مسائل کو [اپنے لئے] حل کر دیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ کمانڈر انچیف سپاہ پاسداران کے مشیر اور سپاہ پاسداران کے انٹیلی جنس کے سابق سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین حسین طائب نے حال ہی میں تہران کی امیر کبیر یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کے دوران ایامِ رجب المرجب کے سلسلے میں مبارکباد کہتے ہوئے کہا: مجھے خوشی ہے کہ ان مبارک ایام میں آپ کے اجتماع میں حاضری کا موقع ملا۔ میں اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے، عالمی حالات کی تشریح کرنا چاہوں گا:

آپ دفاعی میدان میں دیکھتے ہیں کہ امریکیوں کو کس طرح چین کی بچھائی ہوئی بساط پر کھیلنا پڑتا ہے اور بیش قیمت ہتھیاروں کے ذریعے ایک سستا چینی غبارہ مار گراتے ہیں، چنانچہ وہ 2030 میں چین کو سب سے پہلا خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ روس کو دوسرا بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ روس ہی وہ ملک ہے جو تیسری عالمی جنگ کی آگ بھڑکا سکتا ہے۔ تیسرے درجے پر وہ ممالک ہیں جو “امریکی جمہوریت” کو کمزور کرتے ہیں اور حکمرانی کے نئے نمونے متعارف کراتے ہیں؛ اور اس بات سے ان کا مقصود “ایران” ہے اور وہ ایران کو اپنے مفادات کے لئے تیسرا بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

امریکہ اور صہیونی ریاست ایران کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ایران اپنے پروگراموں کو آگے بڑھا رہا ہے اور ہم (امریکی اور صہیونی) ایران پیشرفت میں خلل نہیں ڈال سکے ہیں اور آج کی صورت حال یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست کے دونوں دھڑے پیشن گوئی کرتے ہیں کہ یہ ریاست اپنی تاسیس کی 80ویں سالگرہ نہیں دیکھ سکے گی۔

میری تجویز ہے کہ کچھ دستاویزات کا ضرور مطالعہ کریں: امریکی تخمینہ برائے 2020 تا 2030، اور یورپی قومی سلامتی کی اسٹریٹجی دستاویز برائے 2020 تا 2030۔ اگر ان دستاویزات کا مطالعہ کریں تو آپ اس دہائی اہمیت اور حساسیت کا بہتر ادراک کر سکیں گے۔ امریکی کہتے ہیں کہ سنہ 2025ع‍ ایک تقدیر ساز سال ہے، یا تو اس سال امریکہ دنیا کا نمبردار بن جائے گا یا پھر سابق سوویت اتحاد کی طرح ٹوٹ جائے گا۔

بائیڈن کی قومی سلامتی کی اسٹریٹجی کی دستاویز میں 2030 کو 2025ع‍ کے بجائے، تقدیر ساز قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ 2030 میں واضح ہوجائے گا کہ امریکہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ امریکیوں کے خیال میں امریکہ کو درپیش خطرہ چین، روس اور ایران کی طرف سے ہے لیکن ٹکراؤ کے لحاظ سے ایران پہلے نمبر پر ہے اور اس کے بعد روس اور پھر چین کی باری ہے۔ چنانچہ انھوں نے ایران کے خلاف اقدام کیا، ایران پر معاشی پابندیاں لگا دیں اور ایران کے اندر صہیونی-امریکی بلؤوں کی حمایت کی۔

امریکیوں کے پاس وقت کی قلت ہے، ان کی فرصت محدود ہے، اور دستاویزات کی رو سے یہ وقت تین سے آٹھ سال تک ہے۔ اور اس عرصے میں انہیں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لئے موجودہ مسائل حل کرنا پڑیں گے، چنانچہ وہ دشمنی کا سلسلہ جاری رکھیں گے، اور ان کی روش ترکیبی جنگ (Hybrid warfare) (یا ادراکی جنگ [Cognitive warfare] [یا پانچویں نسل کی جنگ = Fifth Generation Warfare) ہے۔ امریکیوں نے ایران کے خلاف، اس 44 سالہ دور میں، جنگوں کی تمام قسمیں آزما لی ہیں جن میں سخت جنگ اور نیم سخت جنگ اور نرم جنگ اور آخرکار ترکبی جنگ شامل تھی۔ وہ ہر چيز کو مشکوک اور متنازعہ بنانا چاہتے ہیں، وہ اگلے مرحلے میں سماجی انقسام (Social division) پر مرکوز ہونا چاہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ معاشرے کے دو فریق آپس میں جھگڑ پڑیں اور پھر دونوں فریق حکومت کے خلاف نبردآزما ہوں۔

دشمن کا آخری قدم اور آخری منصوبہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اندر سے جھنڈے اٹھائیں اور لہروں پر سوار ہوجائیں اور امریکی کہتے ہیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو امریکہ کو جوہری معاہدے میں واپس جانا چاہئے لیکن ان میں شکست ماننے کی ہمت نہیں ہے۔ امریکیوں کا اندازہ یہ تھا کہ ایک معرض وجود میں آنے والی دو قطبی صورت حال سے فائدہ اٹھا کر، اسلامی جمہوریہ کو سلامتی مسائل کے ذریعے، ہماری سیاسی حکمرانی کو توڑ سکیں گے۔ وہ شدیدترین پابندیوں اور اقتصادی محاصرے کے ذریعے ایرانی عوام پر پانی، کھانا اور ادویات بند کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں حال ہی میں اعتراف کرنا پڑا ہے کہ “ایران نے معاشی جراحی (E. surgery) کے ذریعے ان مسائل کو حل کر لیا ہے”۔

اس سال (1401 ہجری شمسی) کے پہلے 9 مہینوں میں، زرمبادلہ کی بچت کی شرح 30 فیصد رہی، اشیاء خورد و نوش کی درآمدات میں اچھی خاصی بچت ہوئی، جس کے نتیجے میں سپلائی پر نگرانی مناسب رہی اور اس حوالے سے بھی معیشت کو مدد ملی۔ اس حساب سے ہم اگلے سال گندم اور دوسرے غذائی مواد کی پیداوار میں خودکفیل ہو جائیں گے؛ چنانچہ اب مغرب کہتا ہے کہ پٹڑی کو تبدیل کرنا چاہئے کیونکہ ان کا منصوبہ ان کی توقعات کے مطابق آگے نہیں بڑھ سکا۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ “قوی ایران” معرض وجود میں نہ آئے چنانچہ ادراکی جنگ کا سہارا لیتے ہیں، کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کی خوشنودی کو ناراضگی مین تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ سابق بادشاہ کے بیٹے رضا پہلوی نے زاہدان کی مکی مسجد کے پیش امام عبدالحمید کا شکریہ ادا کیا ہے؛ اس مسئلے کو واضح ہونے دیجئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ اسلامی جمہوریہ کے مخالفین ایک ہیڈکوارٹر سے وابستہ ہیں اور ایک ہی جگہ سے ڈکٹیشن لے رہے ہیں، ہمارے ملک میں اللہ کے فضل و کرم سے قومی اور مذہبی اختلافات نہیں ہیں؛ شیعہ اور سنی مل جل کر رہ رہے ہیں لیکن کچھ لوگ ان کے درمیان علمی اور مذہبی اختلاف سے غلط فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تاہم وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ناکام رہیں گے۔

یقینا ملک میں مختلف قسم کے افکار و عقائد کا ہونا ضروری ہے؛ آپ دیکھ لیں کہ 2013ع‍ سے 2019ع‍ تک کے انتخابات میں تمام تر سیاسی دھڑوں نے کردار اداکیا۔ اصلاح پسندوں کی کامیابیاں فکری رجحانات کی بنا پر نہیں تھیں بلکہ وہ اصول پسندوں کے درمیان دوریوں کی بنا پر بر سر اقتدار آئے۔ وہ 2030 جیسی دستاویزات کو نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اب ہمیں ثقافتی اور تعلیمی میدان میں اس نقطے کی طرف جانا چاہئے جس کی افادیت ناقابل انکار ہے۔

کسی وقت امریکہ اور یورپ ہماری سائنسی پیشرفت کا انکار کرتے تھے اور ہمارے ڈرون طیاروں اور میزائلوں کی تصویروں کو فوٹو شاپ کا شاخسانہ قرار دیتے تھے لیکن آپ آج دیکھ لیں کہ انھوں نے ایرانی ڈرون طیاروں کے بہانے کیا طوفان بدتمیزی بپا کر لیا ہے؛ سوال یہ کہ کیا یوکرین کی جنگ کا انجام ایرانی ڈرون طیارے متعین کرتے ہیں؟ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایرانی ڈرون نے یوکرین کی جنگ میں گیم چینجر کا کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے بہرحال اب اعتراف کر لیا ہے کہ ایران کی سائنسی قوت بہت زبردست ہے۔

یقینا ملک میں احتجاج و اعتراض اور مطالبہ آگے بڑھانا ہر سطح پر مجاز ہے لیکن اگر کسی کی زبان سے دشمن کی بات سنائی دے، اور اگر کوئی احتجاج کے لبادے میں دشمن کا منصوبہ نافذ کرنے کی کوشش کرے، تو یہ معمول کے مطابق نہیں ہے اور دنیا کا کوئی بھی سلامتی نظام ایسے مسائل کو برداشت نہیں کرتا۔

آج ہم اس نقطے پر ہیں کہ حکومت کہتی ہے کہ “جہاں بھی بدعنوانی دیکھو، وہیں اس سے نمٹ لو، اور بدعنوانی سے نمٹنے میں کوئی بھی رکاوٹ قابل قبول نہیں ہے، چنانچہ ہم اس حوالے سے کوتاہی نہیں کرتے۔ آج معاشرے کی پہلی ترجیح معاشی مسائل کا حل ہے، اور ہماری پوری کوشش اس مسئلے کے حل اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی کے خاتمے پر مرکوز ہے۔

ہم نے سماجی رابطے کی کچھ ویب گاہوں پر پابندی لگائی ہے، کیونکہ ہم اس وقت ترکیبی جنگ (Hybrid warfare) کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، ہم سخت جنگ میں تسدیدی قوت بن چکے ہیں، اور کوئی بھی قوت ہم پر فوجی حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی، اور اگر پیدل افواج اور نفری کی ضرورت پڑے تو الحمد للہ، کوئی کمی نہیں ہے۔ آج اگر ہم پر کوئی حملہ کرنا چاہے تو دفاع مقدس کی نسبت کئی گنا زیادہ رضاکار مجاہدین میدان میں آئیں گے، اور ہمیں امید ہے کہ کبھی بھی ایسا نہ ہو ان شاء اللہ۔ آج ہمارا توپخانہ ذرائع ابلاغ پر مشتمل ہے، لیکن ہوائی بمباری اور میزائل داغنے کی نوبت نہیں پہنچتی۔ لیکن انٹرنیٹ دشمن کے ہاتھ میں ہے، چنانچہ ہم بہ امر مجبوری اسے محدود کر دیتے ہیں، اس لئے کہ دشمن ترکیبی جنگ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور ہاں! اس وقت اگر جنگ ترکیبی ہے تو ہمارا دفاع اور تسدیدی اقدام بھی ترکیبی ہے، چنانچہ ہم سخت جنگ اور نرم جنگ میں بھی دفاعی صلاحیتوں کو تقویت پہنچانا پڑتی ہے۔

آپ نوجوان ترکیبی جنگ کو سنجیدہ لے لیں، اس جنگ میں کبھی اداکاروں اور اداکاراؤں کو میدان میں لایا جاتا ہے اور ان سے کچھ ایسی باتیں کہلوائی اور لکھوائی جاتی ہیں تاکہ ان کے فالور جذباتی ہو جائیں اور تشدد آمیز اقدامات کا ارتکاب کریں، ان لوگوں کا حقیقی چہرہ پہنچاننا اور بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ اس صورت میں ان کے فالوور کی تعداد بھی گھٹ جائے گی اور معاشرہ ان پر اعتماد نہیں کرے گا۔

ہماری علاقائی تزویری حکمت عملی یہ ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ لین دین اور مفاہمت کو تقویت پہنچائیں، یقینا یہ مفاہمت اور تعاون غیر مشروط نہیں ہے؛ اور ملکی مفادات کو ترجیح حاصل رہے گی، اور ہر قسم کے تجاوزات اور جارحیتوں کا سد باب کیا جائے گا، اس وقت غاصب ریاست خطے میں پوری طرح سرگرم ہے اور کچھ ممالک نے اس کے آگے ہاتھ اٹھا لئے ہیں اور سر تسلیم خم کرلیا ہے، اور اس کی کوشش ہے کہ ہمارے اور ہمارے پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات قائم نہ ہو سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242

ترجمہ  ابو فروہ مہدوی