اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
ہفتہ

18 فروری 2023

7:33:38 PM
1347232

اسلامی انقلاب کی 44ویں سالگرہ؛

بائیس بہمن کے عوامی کارنامےکے معجزانہ رموز / انقلاب کی سالگرہ میں انقلابی اور دیندار عوام کی بھرپور شرکت

یقینی امر ہے کہ کوئی بھی مسلمان "امام قائم (عج)" کے مد مقابل مورچے کا سپاہی بننا پسند نہیں کرتا۔ امام قائم (علیہ السلام) تمام ایرانی اور غیر ایرانی شیعہ کے ذہن میں حاضر ہیں نہ کہ غائب؛ چنانچہ لوگ اپنے آپ کو عصرِ مہدی (عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہُ الشَّرِیفَ) کی حقیقت کے بطن میں پاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر، اس انقلاب کو امام قائم کے ظہور کے منتظرین کی والہانہ اور عاشقانہ پشت پناہی حاصل ہے۔ ایرانی عوام 22 بہمن (11 فروری 2023ع‍) - جو کہ ظہور سے متصل دور کا اہم ترین واقعہ ہے - کو یوم ظہور کی ایک مثال کے طور پر پہچانتے ہیں۔

عالمی اہل بیت(ع) خبر ایجنسی - ابنا - کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر سعد اللہ زارعی نے 22 بہمن 1401 ہجری شمسی (بمطابق 11 فروری 2023ع‍) کی عظیم ریلیوں کو بے مثل قرار دیتے ہوئے، اس عظیم حضور کے عوامل و اسباب یوں بیان کئے ہیں:

اسلامی انقلاب کی مسلسل تجدید

1۔ بنیادی طور پر، انقلاب اسلامی کی تکریم اور اس کی کامیابی کا جشن منانے کی ان سالانہ تقریبات میں کروڑوں ایرانیوں کی شرکت "منفرد" ہے اور کسی بھی انقلاب یا کسی بھی ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ عوامی حاضری اسلامی انقلاب کے لئے مخصوص ہے اور اس کا سبب اس انقلاب اور اس سے جنم لینے والے اسلامی نظام کا دینی اور مذہبی پہلو ہے چنانچہ [اسلامی انقلاب اپنے ابتدائی مرحلے میں متوقف نہیں ہؤا بلکہ یہ خود کو مسلسل باز تخلیق (Reproduce) کرتا ہے۔]

یہ ایک مسلّمہ حقیقت یہ ہے کہ ایرانی عوام انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کو ایک دینی عمل اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اگر بطور مثال کبھی دشمن کی طرف سے خطرہ محسوس کریں تو عوامی جماؤ اور اجتماع میں بھی اضافہ ہوتا ہے، اور اس کے جہادی جلوے زیادہ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، 22 بہمن (11 فروری) کی ریلی میں شرکت عوام کے ہاں "فریضۂ عظمیٰ" ہے۔ یہ سبق امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) نے لوگوں کو سکھایا ہے کہ "اسلامی نظام کا تحفظ واجب ترین فرائض میں سے ہے"۔ اس فتویٰ کا سبب بھی - جو آنجناب نے خود بیان فرمایا ہے - یہ ہے کہ حتیٰ کہ نماز اور امام عصر (صلوات اللہ و سلامہ علیہ) کا تحفظ بھی اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے تحفظ پر موقوف ہے۔ چنانچہ ایرانی عوام 22 بہمن کی ریلی کو ایک دینی فریضہ سمجھتے رہے ہیں اور جب بھی دشمنان اسلام، اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوئے ہیں، عوام کی شرکت زیادہ حماسی، زیادہ اولو العزمانہ اور زیادہ جہادی رہی ہے۔

اس سال کی ریلیوں میں عوام کی کی پہلے سے زیادہ حماسی موجودگی اور شرکت کا سبب بھی یہ رہا کہ چند ماہ پہلے اسلام دشمن طاقتوں سے وابستہ گمراہ عناصر، اسلامی نظام کے خلاف میدان میں آئے اور امریکہ، یورپ، صہیونیوں اور سعودیوں نیز منافقین، (MKO) علیحدگی پسندوں اور شہنشاہیت کے حامی فسادی ٹولوں نے ایران میں ہونے والے فحشاء کی ترویج کے نام پر بلوا کرنے والوں کی راہنمائی اور حمایت کی؛ اور عوام نیز بیرونی دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کو احساس ہؤا کہ دین اور دین سے جنم والے اسلامی نظام کو خطرہ لاحق ہؤا ہے اور یہ خطرہ ٹالنے کے لئے جہادی کردار کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان ریلیوں میں شرکت کرنے والے افراد کی اکثریت با وضو ہوکر میدان میں آئی اور ہر ایک نے اپنے جہادی عزم پر مبنی کوئی نہ کوئی علامت اٹھائی ہوئی تھی؛ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ریلیوں کے شرکاء کے دستوں نے واپسی کے وقت بھی جو انقلاب اسلامی کے رہبر اور دینی پیشوا سے وفاداری کے اعلان پر مبنی انقلابی نعروں کا سلسلہ جاری رکھا؛ اور لگتا نہیں تھا کہ کئی گھنٹوں تک شدید سردی، تھکاوٹ اور پیادہ روی ان پر ہرگز اثر انداز نہیں ہو سکی ہے۔

شیطانی قوتوں کی فتنہ انگیزیوں کا رد عمل

2۔ حالیہ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات کا اور بدکردار ٹولوں اور ان کی حامی شیطانی قوتوں کے اعلان کردہ مقاصد کا سرسری جائزہ لے کر ہم اس حقیقت کا بخوبی ادراک کرتے ہیں کہ اس دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے تینوں اضلاع یعنی "استقلال - آزادی - اسلامی جمہوریہ (Independence, Freedom, the Islamic Republic)" پر حملہ ہؤا تھا۔ اس مرحلے میں ایران کے حصے بخرے کرنے اور ایران کو مغربی کیمپ میں پلٹانے جیسے مسائل کو اعلانیہ اور گستاخانہ انداز سے زیر بحث لایا گیا؛ اور جیسا کہ امریکہ کے سابق مشیر برائے سلامتی جان بولٹن نے کہا تھا لاکھوں کی تعداد میں مختلف قسم کی بندوقین اور متعلقہ گولہ بارود کو شمالی اور شمال مغربی سرحدوں سے ایران میں بھجوا دیا گیا اور اور ملک کے دسوں مدافعین اپنے خون میں تڑپے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کا استقلال خطرے سے دوچار ہؤا اور اسی اثناء میں ایران میں سیاسی فعالیت اور رائے دہی کی آزادی بھی خطرے سے دوچار کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی وقت بھی کچھ فتنہ گر، اعلانیہ طور پر موجود حکومت کی تحلیل ہی نہیں، اسلامی جمہوری آئین کی منسوخی پر اعلانیہ اظہار خیال کرتے ہیں، جس کا لازمہ درحقیقت اسلامی جمہوریہ کی تحلیل بھی ہے! اور کچھ سیاسی دیوالیوں اور فتنہ پرستوں نے تو اسلامی جمہوریہ کا 44 سالہ تجربہ اس قدر مبہم اور تاریک بنا کر پیش کیا کہ یہ تک کہہ دیا کہ "نہ جانے اسلامی انقلاب کی سالگرہ پر مبارکباد کہیں یا تعزیت پیش کریں!"۔ اس میدان میں، درحقیقت، پسند کی حکومت کے انتخاب اور اقتدار کی مسلسل منتقلی کے عمل - یعنی انتخاب کے سلسلے میں عوام کو حاصل آزادی کو متنازعہ بنانے کی سعی باطل ہوئی۔ اس میدان میں امریکہ کے معاند حکمرانوں اور ماضی میں ایران میں برسراقتدار رہنے والے کچھ افراد کے موقف میں کوئی فرق نظر نہیں آیا اور امریکیوں نے بھی اور ان داخلی فتنہ گروں نے اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کے "فخر کے 44 سالہ دور" کو ظلمانی دور قرار دیا۔ تین مہینوں کے اس مرحلے میں - اسلامی جمہوری نظام، جو خود ہی استقلال اور آزادی جیسی اصطلاحات کی تفسیر ہے - اپنے جوہری اور بنیادی عنصر، "ولایت فقیہ" پر کفر و نفاق کی یلغار کی وساطت سے، دشمن کے حملوں کا نشانہ بنا۔ [واضح رہے کہ مغرب سے وابستہ داخلی عناصر سیاسی میدان میں مسلسل ناکامیوں کے بعد خود اپنی ذاتی اور جماعتی لحاظ سے تعطل سے دوچار ہوئے اور اپنی ناکامیوں کو اسلامی جمہوری نظام کی ناکامی قرار دے کر اپنے مردہ جسم کو آکسیجن فراہم کروانے کے لئے اس لہر پر سوار ہونے کی ناکام کوشش کی تھی]۔

ایرانی عوام حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کی دینی تربیت کے بدولت، بھانپ گئے کہ ان کا اہم ترین سرمائے کو لوٹ مار اور غارتگری کا خطرہ لاحق ہؤا ہے اور اگر میدان میں نہ آئیں تو ان کی عزت و عظمت تمام جہتوں میں، پامال ہو کر رہ جائے گی، چنانچہ مزید مسامحت و برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ 44ویں سالگرہ کی عظیم ترین ریلیوں میں کروڑوں ایرانیوں نے استقلال، آزادی اور اسلامی جمہوریہ کا فیصلہ کن دفاع کیا۔

انقلابی پہلو | مرگ بر آمریکا

3۔ اس 22 بہمن پر لوگوں کی پرجوش و خروش ریلیوں کا انقلابی اور غیر معمولی دلچسپ پہلو، اس تاریخی کارنامے کا انتہائی اہم جلوہ تھا۔ عوام اس میدان میں "دینی صورت و سیرت" کے ساتھ، حاضر ہوئے؛ ہر کوئی اپنا سیاسی شعور و ادراک ثابت کرنے کے ساتھ سال اپنی "دینی غیرت" کا اظہار کرنے کے لئے میدان میں آیا تھا۔ ایران کے انقلابی عوام نے امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ)، امام خامنہ ای (دام ظلہ العالی)، شہید الحاج قاسم سلیمانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی بے شمار تصویریں اور اسلامی جمہوریہ کے پرچم اور متعلقہ نعروں سے مزین پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے؛ مذکورہ تین شخصیات اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پرچموں تک محدود رہنا بے حساب و کتاب اور حادثاتی امر نہیں تھا؛ عوام نے اس میدان میں اپنی دینداری کا ثبوت بھی دیا، چنانچہ لاکھوں با پردہ خواتین کی شرکت اور پردے اور حجاب پر ان کا حیرت انگیز اصرار، خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران کی انقلابی خواتین نے - انقلاب اسلامی کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ، ایرانی خاتون کے دینی اور مذہبی عنصر کو بھی، جو "حجاب" سے جلوہ گر ہوتا ہے - پر بھی اصرار کیا۔

انقلابی جہتوں میں سے ایک نمایاں جہت، امریکہ کے خلاف عوام کی مسلسل نعرے بازی تھی یہاں تک کہ "مرگ بر آمریکا" (امریکہ مردہ باد) کا نعرہ، اس سال ایرانی عوام کا پہلے درجے کا نعرہ رہا۔ [یہ صرف ریلیاں نہیں تھیں بلکہ امریکہ اور کے حوالی موالیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی تھے]۔ یہاں تک کہ رائٹرز اور فرانسیسی خیر ایجنسیوں نے وسیع پیمانے پر "مرگ بر آمریکا" کے نعرے کو معنی خیز قرار دیا۔ اس منظر میں ایرانی عوام نے ان اندرونی عناصر کی مخالفت کو بھی نمایاں کیا تھا جنہوں نے اسلامی مقدسات کو توہین و گستاخی کا نشانہ بنایا تھا اور مستکبر طاقتوں سے بھی مخالفت کی تھی جنہوں نے "اسلامی نظام کی طاقت" کو نشانہ بنانا چاہا تھا؛ اور یہ سب ایسے ماحول میں ہؤا کہ کچھ اندرونی عناصر مسائل اور مشکلات سے نکلنے کو امریکہ کے ساتھ مسائل حل کرنے سے مشروط کر رہے تھے؛ اور چونکہ امریکہ کے ساتھ اختلاف کے حل کا راستہ ہاشمی رفسنجانی، محمد خاتمی اور حسن روحانی کے ادوار صدارت میں آزمایا جا چکا تھا اور اس کی عدم افادیت اور ضرر رسانی بارہا سب کے سامنے عیاں ہو چکی تھی، امریکہ کے ساتھ مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دینے کا بالواسطہ مطلب ایران پر امریکی سیادت و زعامت تسلیم کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ایرانی عوام نے سینچر 22 بہمن | 11 فروری [2023] کو "مرگ بر آمریکا [امریکہ مردہ باد]" کے نعرے پر معنی خیز انداز سے اصرار کرتے ہوئے اس تفکر پر بطلان کی لکیر کھینچ لی۔

اس سال کے 22 بہمن کا امام زمانی پہلو

4۔ اس سال کے 22 بہمن کا ایک اہم پہلو اس کا "امام زمانی" پہلو تھا۔ ایرانی عوام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان بھی بخوبی جانتے ہیں کہ یہ دینی اور اسلامی انقلاب ظہورِ امامِ زمانہ (عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہُ الشَّرِیفَ) کی تمہید اور ظہور سے قبل کا اہم ترین واقعہ ہے جو ظہور سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اور لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ "ولایت فقیہ" عصر غیبت میں، امام معصوم (علیہ السلام) کی ولایت کا تسلسل ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ ولایت فقیہ کی طرف پشت کرنا اور اس سے جنم والے اسلامی نظام کو نظرانداز کرنا، باعث بنتا ہے کہ وہ "ظہور" اور "امام زمانہ (سلام اللہ علیہ)" کے مد مقابل کھڑے ہو جائیں۔ عظیم عارف و فیلسوف اور مرجع تقلید آیت اللہ العظمیٰ عبداللہ جوادی آملی (دامت برکاتہ) فرماتے ہیں: "جو لوگ جہاد و شہادت سے نا ہم آہنگ ہیں، وہ در حقیقت "امام غائب" کے حامی ہیں، لیکن "امام قائم" سے گریزاں"۔

یقینی امر ہے کہ کوئی بھی مسلمان "امام قائم (عج)" کے مد مقابل مورچے کا سپاہی بننا پسند نہیں کرتا۔ امام قائم حضرت مہدی (علیہ السلام) ہر ایرانی اور غیر ایرانی شیعہ مسلمان، کے ذہن اور دل میں حاضر ہیں؛ نہ کہ غائب؛ چنانچہ لوگ اپنے آپ کو عصرِ ‍  مہدی (عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہُ الشَّرِیفَ) کی حقیقت کے بطن میں پاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر، اس انقلاب کو امام قائم کے ظہور کے منتظرین کی والہانہ اور عاشقانہ پشت پناہی حاصل ہے۔ ایرانی عوام نے 22 بہمن (11 فروری 2023ع‍) - جو کہ ظہور سے متصل دور کا اہم ترین واقعہ ہے - کو یوم ظہور کی ایک مثال کے طور پر پہچانتے ہیں؛ اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معمر انسان، اپنے اپاہج بیٹے کو پیٹھ پر لاد رہھا ہے، اور 22 بہمن کی ریلی / مظاہرے میں شرکت کرتا ہے، اور اس کو یقین ہے کہ ایسا کرکے اس کا نام بھی اور اس کے مفلوج بیٹے کا نام بھی "ظہور امام زمانہ بقیۃ اللہ الاعظم (عَجَّلَ اللہُ فَرَجَہُ الشَّرِیفَ) کے حقیقی منتظرین" کی فہرست میں درج ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی، اداریہ نویس روزنامہ کیہان

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110