اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
جمعہ

17 فروری 2023

6:44:24 PM
1347037

ایمان والوں کا بدترین دشمن؛

ترکیہ کے زلزلے میں ہزاروں مسلمانوں کے جاں بحق ہونے پر صہیونی ربی کا اظہار سُرُور

ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلہ اور اس سے وجود میں آنے والے مالی اور جانی نقصانات باعث افسوس ہیں، اور مرحومین کے لئے رحمت و رضوان اور زخمیوں کے لئے جلد از جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہیں، مگر غاصب یہودیوں نے اس زلزلے سے بھی اپنا الو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کی۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ ایک تشدد پسند یہودی-صہیونی نے ترکیہ اور شام میں شدید زلزلے کے نتیجے میں ہزاروں افراد کے جاں بحق ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ دنیا مرے ہوئے ترکوں اور شامیوں کے بغیر کے بغیر بہتر جگہ ہوگی۔

ذرائع کے مطابق، غاصب ریاست کے داخلی امور کے تشدد پسند اور اسلام دشمن وزیر ایتامار بن گویر کے قریبی یہودی ربی شموئل ایلیا (Shmuel Eliyahu) نے عبرانی زبان کے صہیونی ہفتہ وار اخبار “اولام کاتان” (Olam Katan) میں اپنا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں اس نے ترکیہ اور شام کے المناک زلزلے میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کو لشکر فرعون سے تشبیہ دی ہے جو حضرت موسی (علیہ السلام) اور قوم بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہوئے بحر احمر میں ڈوب گئے تھے!

اس نسل پرست صہیونی نے مذکورہ اخبار میں لکھا: “خدا ان تمام ممالک پر حکمرانی کر رہا ہے جو ہمارے آس پاس واقع ہیں اور کئی بار ہم پر یلغار کرنے اور ہمیں دربابرد کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جتنے بھی حادثات جو رونما ہوئے ان کا مقصد دنیا کو پاک اور بہتر کرنا تھا!”۔

یہودی ربی نے ترکیہ کے زلزلہ زدگان کو فرعون کے سپاہیوں سے تشبیہ دی اور کہا: “جس وقت فرعون کے سپاہی غرق ہو رہے تھے، جو لوگ اس ماجرا کو ابتدا سے انتہا تک نہیں جانتے تھے، ان کو ان پر ترس آیا اور انہیں ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی لیکن زیادہ تر اسرائیلی گا رہے تھے، کیونکہ وہ فرعون کے سپاہیوں کو پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ ڈوبنے والے ان کی جان لینا چاہتے تھے اور اگر زندہ رہتے تو بنی اسرائیل کو مار ڈالتے۔ بنی اسرائیلی جانتے تھے کہ اللہ کا عدل و انصاف وجود رکھتا ہے اور خدا نے ان لوگوں کو سزا دی جو بنی اسرائیل کو سمندر میں ڈبونا چاہتے تھے، تاکہ دنیا کے تمام تر شرپسند دیکھ لیں اور ڈر جائیں”۔

شموئل الیاہو نے مزید لکھا ہے کہ “شام نے صدیوں سے یہودیوں کو دمشق اور دوسرے علاقوں میں آزار و اذیت دی اور تین بار یہودیوں کے قتل اور ان کا گھر بار تباہ کرنے کی نیت سے اسرائیل پر حملہ کیا”۔

الیاہو نے ترکیہ کے بارے میں لکھا کہ “یہ ملک ہمیشہ سے اسرائیلی ریاست کا دشمن رہا ہے”۔

اس نے [بظاہر صہیونی ترکی تعلقات کا لحاظ رکھتے ہوئے] مزید لکھا کہ “ترکیہ کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ اپنا حساب کیونکر بے باق کریں؛ انھوں نے دنیا میں، ہر میدان میں ہماری آبرو ریزی کی ہے، اگر خدا انہیں سزا دینا چاہے تو ہمارے پاس بیٹھ کر تماشا دیکھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے!”۔

صہیونی ربی نے ایک بار زور دیا کہ “ترکیہ اور شام کے عوام کی موت نے دنیا کو زندگی کے لئے بہتر جگہ بنا دیا اور یہ ایک حادثہ تھا جسے رو نما ہونا چاہئے تھا۔

اس تشدد پسند اور نسل پرست صہیونی ربی کے موقف پر سماجی رابطے کی ویب گاہوں کے ہزاروں صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور صہیونی ریاست کے ذرائع ابلاغ بھی بھی تشویش میں ڈال دیا ہے۔ یہاں تک کہ ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا کہ “شموئل الیاہو ایک تشدد پسند ربی ہے جو غاصب ریاست کے داخلی امور کے انتہاپسند وزیر ایتامار بن گویر سے قریبی تعلق رکھتا ہے”۔

یاد رہے کہ جس دن ترکیہ اور شام میں زلزلہ آیا اور دنیا کی توجہ زلزلے کی طرف مبذول ہوئی تو یہودی ریاست نے ذرائع کی غفلت کا فائدہ اٹھا کرکے فلسطینیوں پر حملہ کیا اور 11 فلسطینیوں کو شہید کیا۔

لیکن، عجب ثم العجب، کہ ایسے حال میں کہ جعلی یہودی ریاست کا سرکاری صہیونی ربی ترکیہ اور شام کے ہزاروں مسلمانوں کی موت پر جشن منا رہا ہے، اور المناک زلزلے کو یہودیوں کے لئے خدا کی امداد قرار دے رہا ہے، اسی ریاست کے وزیر خارجہ ایلی کوہن (Eliyahu Ben-Shaul Cohen) نے منگل 14 فروری کو ترکیہ کا دورہ کیا ہے اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوگان اور وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو سے بات چیت کی ہے۔

ادھر ترکیہ آنے والے صہیونی ریاست کے مبینہ امدادی کارکن بھی – جو زلزلہ زدگان کو امداد رسانی کے بہانے ترکیہ پہنچے تھے – چند گھنٹے رہ کر، اپنی جانوں کو لاحق مبینہ خطرے کے باعث، واپس تل ابیب چلے گئے۔

اللہ تعالیٰ “لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ ٱلنَّاسِ عَدَٰوَةً لِّلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلْيَهُودَ وَٱلَّذِينَ أَشْرَكُواْ ۖ ؛ یقینا تم ایمان والوں کا سخت ترین دشمن پاؤ گے یہودیوں کو اور ان کو جو مشرک ہیں”۔ (سورہ مائدہ – آیت 82)

۔۔۔۔۔۔۔

اسرائیلی امدادی کارکن پہنچتے ہی بھاگ گئے

ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلہ اور اس سے وجود میں آنے والے مالی اور جانی نقصانات باعث افسوس ہیں، اور مرحومین کے لئے رحمت و رضوان اور زخمیوں کے لئے جلد از جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہیں، مگر غاصب یہودیوں نے اس زلزلے سے بھی اپنا الو سیدھا کرنے کی ناکام کوشش کی۔

صہیونی ریاست کے نام نہاد امدادی کارکن وسیع پیمانے پر تشہیری مہم چلانے کے بعد ترکیہ پہنچے۔

ابتداء میں ان کی سینسر شدہ تصویریں ذرائع کی طرف کی تضحیک کا سبب بنے۔ اور یہ سوال اٹھا کہ کیا غاصب ریاست سے آنے والے افراد واقعی امدادی کارکن ہیں یا جعلی ریاست کے خفیہ ادارے “موساد” کے گماشتے؟

ترکیہ پہنچے تو جہاں بھی پہنچے ترک عوام نے ان کو فلسطینی سرزمین کا غاصب قرار دیا اور کسی نے ان کا خیرمقدم نہیں کیا۔

بہرحال، اب صہیونی ذرائع کہہ رہے ہیں کہ امدادی کارکن مختصر وقت کے لئے ترکیہ میں رہنے کے بعد واپس آئے ہیں!

کچھ ذرائع نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ صہیونی کارکن سیکورٹی کی وجوہات پر واپس جا رہے ہیں تاہم مقبوضہ فلسطین پہنچنے کے بعد انہوں نے ذرائع کو بتایا کہ وہ شدید سردی، کہر و انجماد، اور ملبے کے نیچے دبنے والے افراد کی نجات کے عدم امکان کی وجہ سے واپس آئے ہیں!

خوئے بد را بہانہ بسیار

لیکن قطری اخباری چینل الجزیرہ نے صہیونیوں کے بھاگ جانے کے اصل اسباب سے پردہ اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ صہیونی امدادی کارکنوں کو ترکیہ کے عوام کی طرف سے عدم استقبال اور عدم تعاون کا سامنا تھا چنانچہ انہیں درحقیقت ترکیہ سے بھاگنا پڑا ہے۔

واضح رہے کہ فٹبال کا عالمی کپ 2022، جس کے مقابلے قطر میں انجام کو پہنچے۔ صہیونیوں نے کچھ عرب حکومتوں کے ساتھ سازباز کے ناطے قطر میں بھی اپنا وجود تسلیم کرانے کی بہتیری کوشش کی مگر دنیا بھر کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں نے انہیں دھتکارا، اور انہیں وہاں سے بھی بھاگنا پڑا۔

فٹبال کپ کے مقابلوں کے دوران صہیونی نام نگاروں کے فرار کے بعد – اب صہیونیوں کے اتحادی اردوگان کے ملک – ترکیہ سے مبینہ صہیونی امدادی کارکنوں کے فرار سے حطے میں جعلی صہیونی ریاست کی عدم مقبولیت کا چیختا چلاتا ثبوت ہے۔

سوشل میڈیا سے ماخوذ

ترجمہ فرحت حسین مھدوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242