اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : فاران تجزیاتی ویب سائٹ
جمعرات

9 فروری 2023

1:07:05 PM
1344955

صہیونی، نیتن یاہو کو خطرہ سمجھتے ہیں، مگر کیوں؟

نیتن یاہو کی سابقہ کارکردگی کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نئی حکومت میں فلسطینیوں پر دباؤ بڑھائے گا، فلسطینیوں کے مزید اراضی اور وسائل صہیونیوں کے ہاتھوں غارت ہونگے، نیتن یاہو علاقائی اور بین الاقوامی ضوابط کو پامال کرے گا اور علاقائی تناؤ میں بھی اضافہ ہوگا، بالنتیجہ، وہ اپنی حکومت کا چار سالہ دور مکمل نہیں کرسکے گا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ نیتن یاہو کی سابقہ کارکردگی کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی نئی حکومت میں فلسطینیوں پر دباؤ بڑھائے گا، فلسطینیوں کے مزید اراضی اور وسائل صہیونیوں کے ہاتھوں غارت ہونگے، نیتن یاہو علاقائی اور بین الاقوامی ضوابط کو پامال کرے گا اور علاقائی تناؤ میں بھی اضافہ ہوگا، بالنتیجہ، وہ اپنی حکومت کا چار سالہ دور مکمل نہیں کرسکے گا۔

ہزاروں صہیونی تل ابیب سمیت مقبوضہ فلسطین کے مختلف علاقوں میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے اور غاصب ریاست کے عدالتی نظام میں ترمیمات کے سلسلے میں اس کے پیش کردہ بل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؛ ان احتجاجی مظاہروں میں سابق وزیر اعظم یائیر لاپید سمیت سابقہ حکومت کے کئی وزرا بھی شرکت اور مظاہرین کی حمایت کررہے ہیں اور ان مظاہروں کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔

لیکود (Likud) پارٹی یہودی آبادکاری (یہودی بستیوں کی تعمیر) میں پیش پیش؛ فلسطینیوں کے لئے بلائے جان

دریائے اردن کے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا منصوبہ، سنہ 1967ع‍ کے بعد سے، عالمی صہیونی تنظیم کے شعبۂ “بستی سازی” (Settlements) کے عمومی بجٹ سے، نافذ العمل ہے۔

آج کی بر سر اقتدار یہودی جماعت “لیکود” – جو نیتن یاہو کی موجودہ کابینہ میں زیادہ تر شعبوں پر چھائی ہوئی ہے – نے پہلی بار سنہ 1977ع‍ میں، اس وقت کے صہیونی وزیر اعظم مناخم بیگن (Menachem Begin) کی سرکردگی میں، دائیں بازو کی انتها پسند قوم پرست آرتھوڈوکس یہودی مذہبی صہیونی تحریک “گوش ایمونم” (Gush Emunim) اور یہودی ایجنسی (Jewish Agency) کے تعاون سے، مغربی کنارے میں، یہودی آبادکاری اور یہودی بستیوں کی تعمیر کی آشکارا حمایت کی اور اس منصوبے کو شدت سے آگے بڑھایا۔

اس وقت لیکود پارٹی کی قیادت نیتن یاہو کے ہاتھ میں ہے اور اس جماعت کے منشور میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پوری فلسطینی سرزمین یہودی قوم کی ناقابل تقسیم اور سلب نہ ہونے والی میراث ہے اور مغربی کنارے کا کسی بھی حصے کو بیرونی حکمرانی میں نہیں جانا چاہئے! حالانکہ تاریخی شواہد سے ایسی بات 120 سالہ یہودی-مغربی کوششوں کے باوجود، حاصل نہیں ہو سکے ہیں جن سے یہ دعویٰ ثابت ہو سکے، اور ناقابل انکار تاریخی شواہد اور اسناد و دستاویزات سے ثابت ہے کہ فلسطینی اراضی کے مالک فلسطینی ہیں اور صہیونی-یہودی مغرب اور مغرب کے قائم کردہ عالمی اداروں کی مدد سے، قتل عام اور خوف و ہراس کے ذریعے، فلسطین پر مالکیت جتا رہے ہیں۔

نیتن یاہو ایک انتہاپسند صہیونی شخص ہے جس کا آبائی علاقہ یورپ ہے۔ وہ “یہودی برتری” کے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کے درپے ہے؛ دنیا بھر میں فلسطین کے حامی اور ہمدرد نیتن یاہو کو ایک غاصب ریاست کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اس کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں۔

یہودی ریاست “اسرائیل” کے وجود کو شدید اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ گذشہ ساڑھے چار سال میں مقبوضہ فلسطین میں پانچ مرتبہ پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے ہیں، اور کوئی بھی حکومت ایک سال سے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی ہے۔ اس عرصے میں صہیونیوں نے نیتن یاہو سے جان چھڑانے کی بہتیری کوششیں کی ہیں لیکن ثابت ہؤا ہے کہ اس ریاست کو سیاسی لحاظ سے بھی مسائل کا سامنا ہے اور اب قحط الرجال اور سیاسی بانجھ پن نے بھی اس کا گریبان پکڑ لیا ہے؛ چنانچہ 2022 کے آخری مہینوں میں پانچویں انتخابات کے بعد صہیونیوں کو ایک بار پھر نیتن یاہو کے دہرانے کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا ہے اور انھوں نے دوبارہ اسی کو وزیر اعظم بنایا ہے حالانکہ اس کے پر بدعنوانی اور اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے جیسے متعدد الزامات ہیں، اور یہودی ریاست کی عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ بھی جاری ہے۔ نیتن یاہو کو اپنی غاصب ریاست کی مجبوریوں کا احساس ہے چنانچہ اس نے اپنے آپ کو بچانے اور انتظامیہ اور فوج کو عدالت سے بالاتر قرار دینے کے لئے عدالتی نظام میں اصلاحات کا بل پیش کیا ہے؛ جس کی وجہ سے اس کو بائیں بازو کی جماعتوں کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے، وہ آج یہودی ریاست کے گلے میں ایسی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جسے نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اگلا جا سکتا ہے۔

نیتن یاہو، بہر صورت، ایک بار پھر بر سر اقتدار آیا ہے، اس نے غاصب یہودیوں کے لئے نو آبادیوں کی تعمیر میں اضافہ کرنے کا وعدہ دیا ہے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے نئے دور میں تنازعات میں شدت آئے گی، فلسطینیوں کے زیادہ سے زیادہ اراضی کو غصب کیا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو اس کے منصوبوں کی بھینٹ چڑھا جائے گا۔ [گوکہ مزاحمت تحریکوں کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے نہیں ہیں]۔

عبرانی ذرائع ابلاغ نے حال ہی میں رپورٹ دی ہے کہ بنیامین نیتن یاہو کی کابینہ مغربی کنارے میں نوآبادیوں کے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یسرائیل ہیوم نامی یہودی اخبار کے مطابق، نیتن یاہو کابینہ مغربی کنارے میں زیادہ سے زیادہ یہودی بسانے کا منصوبہ آگے بڑھا رہی ہے اور اپنے اس [جارحانہ اور غاصبانہ] منصوبوں کے لئے قانونی جواز اور نوآبادیوں کی تعداد میں اضافے کے لئے اقدامات کرے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق، توقع کی جاتی ہے کہ صہیونی ریاست کی منصوبہ بندی اور تعمیرات کی سپریم کونسل اگلے مہینے، مغربی کنارے میں، 18000 مکانات کی تعمیر کا منصوبہ منظور کرے گی۔

نیتین یاہو کی رسوائیاں

نیتن یاہو نہ صرف – مقبوضہ فلسطین میں قائم غاصب صہیونی ریاست کے اندر اور باہر انتہائی مخالفانہ پالیسیوں کے نفاذ اور انتہائی تیز و تند اور غیظ و غضب سے مالال بدمزاجی کے لئے – مشہور ہے بلکہ بلکہ متعدد رسوائیوں، اخلاقی خرابیوں اور مالی بدعنوانیوں کی وجہ سے غاصب ریاست کے مختلف اداروں کے ساتھ بھی جنگ و جدل میں الجھا ہؤا اور نا ہم آہنگ ہے۔ غاصب ریاست کے اندر اس کو دھوکہ دہی، رشوت ستانی اور امانت میں خیانت کے ارتکاب کا الزام ہے، گوکہ اس نے خود ان الزامات کو مسترد کیا ہے، اور ان لوگوں پر شدید تنقید کر رہا ہے جو اس پر مقدمات چلا رہے ہیں۔ اور اب جبکہ بر سر اقتدار آنے کے بعد، اس کا دعویٰ ہے کہ اپنے خلاف چلنے والے بدعنوانی کے مقدمے کا رخ موڑنے کے لئے انتظامی اختیارات استعمال نہیں کرے گا؛ گوکہ اس کے شرکاء نے ایسے اقدامات کئے ہیں جو اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں؛ [اور اس نے برسر اقتدار آتے ہی اپنے وزیر قانون کے ذریعے کنیسٹ (صہیونی پارلیمان) میں عدالتی نظام میں اصلاحات کا ترمیمی بل پیش کیا ہے]۔

بدعنوانی کے عدالتی کیس

نیتن یاہو کے رویوں اور کارکردگیوں کے بارے میں تحقیقات 2026ع‍ سے ہؤا، یہ وہ زمانہ تھا جب جعلی صہیونی ریاست کے کچھ اہلکاروں نے الزام لگایا کہ نیتن یاہو کو – کچھ مادی مگر غیر محسوس تحفے تحائف کے عوض – صاحب حیثیت تاجروں اور امیر صنعتکاروں کو سرکاری خدمات پہنچانے کی عادت ہے۔ سب سے زیادہ عرصے تک غاصب یہودی ریاست کے وزیر اعظم رہنے والے نیتن یاہو پر بیش قیمت تحائف، سونے کے کنگن، پر تعیُّش کپڑے اور لگژری بیگز، حتیٰ کہ جرمن آبدوزوں کی خریداری کے معاملے میں رشوت ستانی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ لیکن اسی وقت سے ہی اس کے خلاف ہونے والی عدالتی تحقیقات میں خلل ڈال دیا گیا ہے۔

صہیونی پولیس نے فروری سنہ 2018ع‍ باضابطہ طور پر رپورٹ دی کہ نیتن یاہو کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ نومبر 2019ع‍ میں اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی اور مئی 2020ع‍ میں اس کے خلاف مقدمے کا آغاز ہؤا۔ منطقۂ قدس کی عدالت نے 300 گواہوں کے ساتھ نیتن یاہو پر عائد الزامات کے بارے میں عدالتی کاروائی کا آغاز کیا؛ لیکن یہ مقدمہ – جو ابتدائی توقعات کے مطابق ایک یا ڈیڑھ سال کے عرصے میں مکمل ہونا تھا – کئی بار مختلف کہے اور ان کہے دلائل کی بنا پر ملتوی ہوتا رہا ہے۔

اندرونی الزامات کیا ہیں؟

بدعنوانی کا کیس تین مختلف کیسوں کا مجموعہ ہے جنہیں کیس نمبر 1000، کیس نمبر 2000 اور کیس نمبر 4000 کے عنوان سے مشہور ہیں۔ چوتھے کیس کا نمبر 3000 ہے اور اس کا تعلق جرمن آبدوزوں کی خریداری کے ضمن میں رشوت ستانی سے ہے۔ اس الزام میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نیتن یاہو کی بیوی “سارا” نے اس حوالے سے متعلق معاہدے کے انعقاد کی خاطر “تحائف” وصول کئے تھے لیکن اس پر ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی ہے۔

کیس نمیر 1000 میں نیتن یاہو پر الزام ہے کہ اس نے سنہ 2007ع‍ سے سنہ 2016ع‍ تک کے عرصے میں ہالی ووڈ کے پروڈیوسر آرنن ملچن (Arnon Milchan) اور آسٹریلوی ارب پتی جیمز پیکر (James Packer) سے تین لاکھ ڈالر بطور تحفہ وصول کئے تھے۔

اٹارنیوں کا کہنا ہے کہ ملچن کے دیئے گئے تحفائف کے عوض، نیتن یاہو نے ملچن ہی کی نمائندگی کرتے ہوئے وزارت خزانہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ بیرون ملک مقیم صہیونیوں کے لئے – صنعت کاروں کی طرح، – مقبوضہ فلسطین میں واپس آنے کے بعد، ٹیکس میں چھوٹ کی مدت دو گنا کر دے۔ اس فرد جرم میں نیتن یاہو پر ملچن کے امریکی ویزے میں توسیع اور انضمام کے ایک معاہدے میں اس کی مدد کے لئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے ساتھ ساز باز کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے؛ انضمام کے معاہدے میں ایک ٹی وی چینل کا معاملہ بھی شامل تھا، جو جزوی طور پر ملچن کی ملکیت تھا۔

صہیونی نیتن یاہو سے خوفزدہ ہیں

بنیامین نیتن یاہو نے دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں نیز تشدد پسند مذہبی جماعتوں کا اتحاد قائم کیا، اس اتحاد نے کنیسٹ میں اکثریتی نشستیں حاصل کر لیں، اور یوں اس نے اپنی وزارت عظمیٰ کا چھٹا دور اس انتہاپسند اور متشدد اتحاد کی مدد سے شروع کیا۔ اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہودی ریاست کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی غرض سے اس کی انتظامیہ کے منصوبوں کی منظوری اور نفاذ کی صورت میں، عدالتی نظام کا کنٹرول، ججوں کے تعین کا اختیار انتظامیہ کے ہاتھ میں چلا جائے گا، اعلیٰ عدالت کی طرف سے مقننہ اور انتظامیہ کی منظوریوں کی منسوخیوں نیز حکومتی اقدامات کے خلاف فیصلے دینے کا عدلیہ کا اختیار محدود ہو جائے گا۔ [یعنی عدلیہ کے زیادہ تر بنیادی اختیارات انتظامیہ کے ہاتھ میں ہونگے]۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے اندر، بہت سے یہودی زعماء خوفزدہ ہیں کہ نیتن یاہو کے خاندان کے افراد سازباز کے ذریعے کابینہ کے انتظام و انصرام اور پوری یہودی ریاست کے بندوبست میں کوئی بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں!

علاوہ ازیں، نیتن یاہو کی کارکردگی سے ثابت ہؤا ہے کہ وہ خود کو بھی اور اپنے زیر انتظام حکومت کو بھی یہودی ریاست کے تمام تر اداروں سے بالاتر سمجھتا ہے جس کی وجہ سے جعلی ریاست کے دوسرے حکام اور زعماء بھی اس کو اپنے لئے ایک چیلنج اور اپنے مستقبل کے لئے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ ادھر غاصب یہودی ریاست کے ساتھ نیتن یاہو کے اختلافات کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ اب تک تل ابیب، حیفا اور بیت المقدس سمیت مقبوضہ فلسطین کے تمام بڑے شہروں میں لاکھوں صہیونیوں نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے منعقد کئے ہیں۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق، نیتن یاہو اور اس کی کابینہ نے جنوری کے آغاز میں اپنی تشکیل سے اب تک کے عرصے میں چند خصوصی منصوبوں پر کام کیا ہے جس کی وجہ سے صہیونی عدلیہ کمزور ہو رہی ہے، مغربی کنارے پر صہیونی کنٹرول سست پڑ رہا ہے اور انتہائی بائیں بازو کے تشدد پسند یہودیوں کو تقویت مل رہی ہے اور ان مسائل نے یہودی ریاست کے دوسرے حکام اور اہلکاروں نیز اداروں کو اس کے خلاف رد عمل دکھانے پر مجبور کیا ہے۔

نیتن یاہو کے مخالف صہیونی نیز مغربی ذرائع ابلاغ، اس کی ایک عشرے پر محیط حکمرانی کے دوران کی متعدد مالی اور سیاسی رسوائیوں کو، تسلسل کے ساتھ زیر بحث لاتے رہے ہیں اور وہ اس شخص کو صہیونی ریاست کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں میں آئی ہوئی / آنے والی شدت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ لاس اینجلس ٹائمز نے [قحط الرجال کے باعث] نیتن یاہو کے دوبارہ پلٹ آنے کے بعد ایک رپورٹ میں لکھا:

“نیتن یاہو غیر لبرل راہنماؤں کی عالمی تحریک کے کلیدی ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس نے سنہ 2009ع‍ سے سنہ 2021ع‍ تک کے 12 سالہ دوران اقتدار میں ذرائع ابلاغ اور سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنایا؛ اور ایسے حال میں کہ اس پر فرد جرم عائد کی جا چکی تھی، اس کے خلاف عدالتی کاروائی جاری تھی، یہودی ریاست کی عدلیہ پر مسلسل تنقید کرتا رہا اور اپنے – یعنی یہودیوں کی برتری کے تصور کو صہیونی آئین کے ایک مستقل آرٹیکل کے طور پر، استحکام بخشنے – کے مقصد کے حصول کے لئے کوشاں رہا”۔

خلاصہ

یہودی ریاست – ماضی قریب – میں لگ بھگ 12 سال تک بر سر اقتدار رہنے والے بنیامین نیتن یاہو کی کارکردگی کے جائزے اور اس کے دوبارہ بر سر اقتدار آنے اور اس کے انتہاپسندانہ نعروں اور وعدوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین میں اس کے نئے دور میں مزید فلسطینی اس کی تشدد پسندانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھیں گے اور اس سرزمین کے حقیقی مالکوں کے زیادہ سے زیادہ اراضی اور وسائل غاصب یہودی فوجیوں کے ہاتھوں غارت ہونگے۔

علاوہ ازیں، چونکہ صہیونی اس وقت نیتن یاہو کی حکومت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، چنانچہ غاصب ریاست کی اندرونی بے چینیاں اور مختلف حکمران اداروں (بالخصوص عدلیہ اور انتظامیہ) کے درمیان تناؤ اور چپقلش میں اضافہ ہوگا۔

ادھر بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں بھی انتہائی شدت پسند صہیونی کابینہ – علاقائی نظم اور قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں، نیز علاقائی اور عالمی روابط کو – درہم برہم کرنے کے لئے کوشاں رہے گی۔ چنانچہ بعض تجزیہ نگاروں کی پیشن گوئی ہے کہ نیتن یاہو اس انتہاپسندی کے ساتھ شاید اپنی حکومت کا نیا دور مکمل نہ کرسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242