اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی

ماخذ : ابنا
بدھ

7 دسمبر 2022

2:09:29 PM
1329294

دشمن کی منصوبہ بندی اور ہماری غفلت

شک نہیں کہ اگر ہم اپنے سماج و معاشرے کے مسائل کو لیکر ہرگز غفلت نہ برتیں خود بھی فکر و تعقل سے کام لیں اور معاشرہ میں بھی کچھ ایسا کریں کہ فکر و تدبر کی چو طرفہ فضا قائم ہو سکے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کھوکھلے نعروں سے کوئی پارٹی ہمارا استحصال کر کے اپنا الو سیدھا کر لے اور ہم غافل ہو کر سمجھیں کہ چند جھوٹے وعدوں کی صورت ہمیں ہمارا مدعا مل گیا ۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ یوں تو عام طور پر ہی غفلت و بے خبری معاشروں کو برباد کردیتی ہے لیکن معاشرے میں ایسے عوامل موجود ہوں جو مسلسل کسی ایک قوم کو ٹارگٹ کرر ہے ہوں کسی ملک میں کچھ ایسے اذہان ہوں جو مسلسل کسی ایک قوم کے خلاف زہریلے منصوبے تیار کر رہے ہوں تو بہت ضروری ہے کہ انسان اپنا محاسبہ کرے اور دیکھے کے کہاں کھڑا ہے ، دشمن کی شاطر منصوبہ بندیاں ایک طرف اور ہماری مسلسل بے خبری ایک طرف ، نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں ہمارے پیروں سے مسلسل زمین کھسکتی جا رہی ہے اور ہ کھوکھلے نعروں میں مگن ہیں ۔

غفلت کیا ہے ؟

غفلت کے بارے میں ملتا ہے کہ غفلت ایسی سہوی کیفیت اور ایسی لغزش ہے جو توجہ کی کمی کی بنا پر وجود میں آتی ہے

غفلت ایک طرح کی ایسی بے خبری ہے جس میں انسان اس ہدف کو بھول جاتا ہے جو اسکے لئے ضروری ہے ، انسان مسائل سے بے پراہ ہو جاتا ہے ، اسے معاشرے کی فکر نہیں رہتی ، خود میں مگن رہتا ہے ، اسے لگتا ہے بس وہی صحیح ہے سب غلط ہیں ان تمام چیزوں کی بنا پر اس کے وجود کے اندر سستی و کاہلی آ جاتی ہے حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ انسان ایک سوتا ہوا انسان بن جاتا ہے جس کے پاس آنکھیں ناک ہاتھ پیر سب ہوتے ہیں لیکن ان سے کوئی کام نہیں لیتا اسی لئے کہا گیا ہے کہ غفلت کو بیداری سے نابود کرو

غفلت کے آثار و نتائج :

انسان کا ایک بڑا دشمن اس کی غفلت ہے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں : غفلت گمراہی نفوس کا سبب اور نحوستوں کا عنوان ہے ‘‘ ہمارے یہاں نحوستوں کو کلنڈروں میں تلاش کیا جاتا مختلف تاریخوں میں ڈھونڈا جاتا ہے جبکہ مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے واضح طور پر فرمایا کہ غفلت نحوستوں کا عنوان ہے ، یہاں پر تاریخوں کے سعد و نحس ہونے سے گفتگو نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کی طرف ایک اشارہ کرنا مقصود ہے کہ کبھی کبھی ہم بعض چیزوں پر توجہ ہی نہیں دیتے ہیں ہمارا سارا زور جنتری پر رہتا ہے کلینڈر پر رہتا ہے کہ کلینڈر کی تاریخ کیا کہہ رہی ہے ، اگر ایام کا سعد و نحس ہونا ثابت بھی ہو اور ہم سعد و نحس کی رعایت کے ساتھ زندگی کے امور کو آگے بھی بڑھائیں تو ہمیں کیا حاصل ہوگا اگر ہم نحوستوں کا عنوان اپنے گلے میں ڈالے گھوم رہے ہوں گے نحوستوں کے عنوان کو مولائے کائنات ع نے غفلت بتایا ہے ۔

غفلت کی بنا پر انسان جانور سے پست :

غفلت کے نتائج و آثار میں یہ کم برا اثر نہیں ہے کہ غفلت انسان کو جانور بنا دیتی ہے بلکہ اس سے بھی پست بنا دیتی ہے

قرن کریم کی اس آیت میں غور کریں تو ہمیں ملے گا کہ قرآن نے یہاں پر دوزخیوں کی پہچان کو بتایا ہے وہ بھی اس طرح کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سےاستفادہ نہیں کرتے ، عقل ہوتے ہوئے سوچتے نہیں ہیں بصارت ہوتے ہوئے دیکھتے نہیں ہیں کان ہوتے ہوئے سنتے نہیں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنکے وجود کے اندر حیوانی خو رچ بس گئی ہے ، جبکہ انسان کا حیوان سے امتیاز ہی یہی ہے کہ انسان سوچتا سمجھتا ہے چونکہ یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے بعد بھی نہیں سوچتے لہذا قرآن نے انہیں حیوانات سے بھی پست بیان کیا ہے یہ حقیقت میں غافل لوگ ہیں ان کا ہم و غم جانوروں کی طرح کھانا پینا اور سونا ہے کبھی یہ اپنی معنوی زندگی کو لے کر فکر مند نہیں ہوتے ہیں جس طرح حیوانات کے درمیان خیرو شر کی تمیز نہیں ان کے وجود میں بھی حق و باطل و خیر و شر کی تمیز نہیں یہاں پر یہ بات نہیں ہے کہ حیوان پست ہیں اور یہ حیوان سے بھی گئے گزرے بلکہ بات یہ ہے کہ حیوانات تو کھانے پینے سونے میں ہی مگن رہتے ہیں لیکن یہ ان سے بھی پست اس لئے ہیں کہ حیوانات کی پستی اکتسابی نہیں ہے وہ بنے ہی پست ہیں پست ہی رہیں گے لیکن ان کی پستی کسبی ہے علامہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’جو ضلالت و پستی چوپایوں اور جانوروں میں ہے وہ نسبی اور غیر حقیقی ہے ، اس لئے کہ انکے اندر صلاحیت ہے وہ اتنی ہی ہے کہ انکا تمام ہم و غم کھانا پینا ہو یہ اپنی کامیابی کی منزلوں کے حصول میں گمراہ نہیں ہیں یہ آگے کی طرف قدم نہیں بڑھاتے تو اس میں ان پر کوئی حرف بھی نہیں ہے انہیں اگر گمراہ کہا گیا ہے تو انسان کی سعادت و اس کے کمال کے مقابل ہے ورنہ انکے پاس تو ایسے وسائل ہی نہیں جن سے کچھ سیکھ سکیں علم حاصل کر سکیں ان گونگے بہرے لوگوں کے برخلاف جو تعلیم کے وسائل رکھنے کے بعد بھی سیکھنے کی صلاحیت رکھنے کے بعد بھی آنکھ کان دل رکھنے کے بعد بھی گونگے بہرے ہیں یہ اس لئے پست ہیں کہ انہوں نے اپنی ان نعمتوں کو جو خدا نے انہیں دی تھیں ضایع کر دیا اور حیوانات کی طرح بس لذت کے حصول میں جٹ گئے اسی لئے یہ چوپایوں سے بھی بدتر ہیں اور چاپایوں کے برخلاف یہ اس لائق ہیں کہ ان پر پھٹکار لگائی جائے۔

انسان کی سوچ کا سطحی ہونا :

غفلت کا ایک نتیجہ انسان کی سوچ کا بہت نچلے درجے کا ہو جانا اور مسائل کو سطحی طور پر دیکھنا ہے ارشاد ہوتا ہے :

یہ وہ لوگ ہیں وہ صرف دنیا کے ظاہر کو دیکھتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں

غافلوں کی ایک پہچان یہی ہے کہ ان کا ہم و غم دنیا ہوتا ہے وہ دنیا سے ہٹ کر سوچ ہی نہیں پاتے وہ صرف آج کو دیکھتے ہیں کل کے بارے میں وہ سوچ ہی نہیں سکتے۔

غفلت انسان کی عمر کی تباہی کا سبب :

امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں : انسان کے لئے اتنی غفلت و بے خبری کافی ہے کہ وہ اپنی عمر کو وہاں خرچ کرتا ہے جہاں حاصل ہونے ولا نہیں ہے جہاں سے اسے نجات نہیں ملنے والی ہے ۔

سرمایہ عمر کا متاع دنیا سے سودا :

غفلت کا ایک برا اثر یہ ہے کہ غافل انسان یہ نہیں سمجھتا اس کے پاس اللہ کی کیا کیا نعمتیں ہیں بلکہ وہ اپنی عمر کو دنیا کے دو روزہ لذتوں کے آگے بیچ دیتا ہے ارشاد ہوتا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جو آخرت کو دنیاوی زندگی کے لئے بیچ دیتے ہیں ۔

حق اور رشد و ہدایت کی راہ سے انحراف:

غفلت کا ایک نتیجہ راہ رشد و ہدایت و حقانیت سے انحراف ہے غافل انسان حق کے راستے سے بھٹک جاتا ہے منحرف ہو جاتا ہے پھر بھی اسے لگتا ہے وہ صحیح ہے اور نہ صرف خود کو صحیح سمجھتا ہے بلکہ خود کو بڑا بھی سمجھتا ہے دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : ہم بہت جلد ہی ان لوگوں کو اپنی نشانیوں سے موڑ دیں گے جو زمین پر نا حق تکبر کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ کیسی بھی نشانیاں ان کے سامنے آ جائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں یہ راہ ہدایت کو دیکھنے کے بعد بھی اسے منتخب نہیں کرنے والے ، یہ وہ لوگ ہیں جو گمراہی کو دیکھ کر اسی پر چل پڑتے ہیں ایسا اس لئے ہے کہ انہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی اور یہ اس سے غافل ہیں ۔

خواہشات نفسانی کا شکار ہونا :

غفلت کا ایک برا اثر انسان کا ہوائے نفسانی کے جال میں بری طرح پھنس جانا ہے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :

ان لوگوں کی اطاعت مت کرو جنکے دلوں کو ہم نے اپنی یاد سے غافل بنا دیا یہ وہ لوگ ہیں جو خواہشات نفسانی کے پیرو ہیں اور ان کے معاملات و امور افراطی ہیں ۔

شک نہیں کہ اگر ہم اپنے سماج و معاشرے کے مسائل کو لیکر ہرگز غفلت نہ برتیں خود بھی فکر و تعقل سے کام لیں اور معاشرہ میں بھی کچھ ایسا کریں کہ فکر و تدبر کی چو طرفہ فضا قائم ہو سکے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کھوکھلے نعروں سے کوئی پارٹی ہمارا استحصال کر کے اپنا الو سیدھا کر لے اور ہم غافل ہو کر سمجھیں کہ چند جھوٹے وعدوں کی صورت ہمیں ہمارا مدعا مل گیا ۔

آج ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے اس لئے کہ ہمارا دشمن بہت چالاک و خطرناک ہے آپ دیکھیں کہ مسلسل چودہ سو سال سے ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں ، ہمیں تباہ کرنے کے لئے سلاطین ظلم و جور نے کیا کیا نہ کیا پھر بھی ہمارا وجود باقی ہے ، اسکا مطلب ہے کوئی ہے جو ہماری نگرانی کر رہا ہے ہمیں مسلسل دشمن کی یلغار سے بچا رہا ہے ، کتنے افسوس کی بات ہوگی کہ ہم خود ہی ہلاکت کی طرف چلے جائیں ۔ ہمارے خلاف سازشیں کتنی گہری ہیں اسکا اندازہ لگانا ہے تو آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے موجودہ حالات کو دیکھ کر لگائیں ، کس طرح بین الاقوامی میڈیا مسسلسل ایران کے حالات کے بارے میں تبصرے اور جائزے پیش کر رہا ہے کس طرح مبصرین ایران کے انقلاب کے آخری دنوں کی بات کر رہے ہیں کس طرح بے دین و بے غیرت لوگوں کی تشہیر کی جا رہی ہے یہ سب ایک طرف ہے یہ سافٹ وار ہے دوسری طرف دیکھیں تو اسلامی جمہوریہ کے اندر موساد اور مغربی انٹلی جنس سروسز کے اہلکاروں کو پکڑا گیا ہے جو اندر سے ایران کو نقصان پہچانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اب ہم سوچیں ایک مقتدر و مضبوط حکومت کے ہوتے ہوئے موساد کے اہلکار اگر ایران میں داخل ہو کر تخریب کاریاں کر سکتے ہیں فساد و تباہی کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں تو ہمارے بکھرے ہوئے اس شیعی معاشرے میں کیوں نہیں کر سکتے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ، ہمارے درمیان گھس پیٹھ کر کے کیا انکے لئے مشکل ہے کہ ہمارے منبروں سے ایسی باتیں کہلوائیں جو اسلام کی روح کے خلا ف ہیں جن سے انا و تکبر کی بو آتی ہو ، جن معاشرے کو توڑنے کی بو آتی ہو ۔ ایران جیسے ملک میں تو ایک سسٹم ہے ایک طاقت ور نیٹ ورک ہے دشمن کی یلغار سے مقابلے کے لئے ایک مضبوط فوج ہے ہمارے پاس اس منبر کے سوا کیا ہے ؟ کونسا میڈٰیا ہماری بات کرتا ہے ؟ کون سی پارٹی ہمارے حق میں بولتی ہے ؟ کونسا سیاسی لیڈر ہمارے لئے زبان کھولتا ہے ؟

ایسے میں کیا ہم پر لازم نہیں ہے ہم اچھے برے کی تمیز پیدا کریں اور جذبات میں بہہ کر ایسا کچھ نہ کریں جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں ، ہمارے سینے میں اگر عشق علی ؑ ہے تو درد علی ع بھی ہونا چاہیے فکر علی ؑ بھی ہونا چاہیے یہ کیسے ممکن ہے کہ عشق علی ع کا ہو لیکن درد کسی اور کا ، عشق علی ع کا ہو درد کسی خاص تنظیم یا گروہ کا ، عشق علی ع کا ہو اور فکر محض اپنی ہو یہ ممکن نہیں ۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں تو اس دور میں ہمیں ویسے ہی جینا ہوگا جیسے علی ع چودہ سو سال پہلے جئیے اس لئے کہ علی ع کا وجود محض اس دور کے لئے نہیں تھا یہ ذات ایسی نابغہ روزگار تھی جس کے تعلیمات ہر دور کے لئے ہیں جس کے خطابات ہر دور کے لئے جس کی نہج البلاغہ قرآن ہی کی طرح جاوداں ہیں ، کیا افسوس کی بات نہیں ہے کہ آج ہم اپنے مسائل کو نہج البلاغہ سے حل نہ کر کے غیروں کے پاس لے کر جا رہیں ، اپنے ہی علماء کو بعض لوگ نشانہ بنا رہے ہیں اور ہر سو خاموشی ہے یہ خاموشی دین سے قوم سے معاشرے سے ملک سے خیانت ہے ۔ جہاں ہمارے دین شناس درد مند علماء پر لازم ہے کہ اپنی گفتگو میں شایستگی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طرح دین کو پہچائیں کہ کسی کے جذبات کو چوٹ نہ پہنچیں وہیں عوام پر بھی لازم ہے کہ اگر انہیں کہیں کوئی قابل اعتراض بات نظر آتی ہے تو علماء ہی کی طرف رجوع کریں ، کوئی شکایت ہے تو وہ علماء یا مراجع و ان کے نمائندوں اور وکیلوں تک پہنچائیں آپس میں ہونے والی چپقلش کو عام نہ کریں خاص کر اس انداز سے کہ دشمن کو مذاق اڑانے کا موقع ملے امید کہ ہم اسی زمانے میں رہتے ہوئے کچھ ایسا کر سکیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں یاد کریں ۔ شک نہیں فہم و فراست کے ساتھ بصیرت و شعور کے ساتھ بڑے بڑے مسائل کا حل کیا جا سکتا ہے پھر ہم کیوں آپس میں دست بگریباں ہیں ، آپسی گفت و شنید کے ساتھ یقینا ہم بھی بہت سے ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں جنکی بنا پر بلا وجہ معاشرے میں تنا تنی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم غفلت سے نکلیں اس لئے کہ ایک بیدار انسان ہی آنے والے کل کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے ایک بیدار انسان ہی دشمن کے منصوبوں کو سمجھتے ہوئے انہیں ناکا م بنا سکتا ہے ،سونے والا شخص غافل رہنے ولا دشمن کے پالے میں کھیل ضرور سکتا ہے نہ اپنے لئے کچھ کر سکتا ہے نہ اپنوں کے لئے کچھ کر سکتا ہے لہذا بیدار و ہو کر جاگ کر حالات کا تجزیہ کرنے اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر اعتبار کرتے ہوئے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے یقینا رب کریم بھی ہماری مدد کرےگا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

242